امام عالی مقام کا نام مبارک حسین ؓ تھا جبکہ آپؓ کی کنیت ابو عبداللہ تھی حضرت ام الفضل بنت حارثؓ روایت کرتی ہے کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آج رات میں نے ایک خوفناک خواب دیکھا نبیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ کیا خواب ہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ بہت ہی خطر ناک خواب ہے نبیﷺ نے فرمایا کہ وہ کیا ہے ؟ حضرت ام الفضل نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا کہ آپ کے جسم اقدس کا ٹکڑا میری آغوش میں رکھا گیا ہے حضورﷺ نے فرمایا کہ تو نے اچھا خواب دیکھا ہے انشاء اللہ میری بیٹی فاطمہ ؓ کے گھر لڑکا پیدا ہوگا اور پھر ام الفضل روایت کرتی ہے کہ واقعی سیدہؓ کے گھر حضرت امام حسین ؓ پیدا ہوئے اور وہ میری آغوش میں آئے ۔حضرت جبرائیل ؑ نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر حضرت امام حسین ؓ کی ولادت کی مبارک باد دی اور ساتھ ہی حسین نام رکھنے کی گذارش بھی کی ۔ حضور ﷺ نے خود حضرت امام عالی ؓ کے کانوں میں اذان فرمائی اور فرمایا بیٹا حسین یہ تیرے نانا مصطفیٰ ﷺ کی آواز ہے اس کی لاج رکھنا ۔ حضرت امام ؓ نے آنکھیں کھولی اور نانا پاک کی طرف دیکھا اور نگاہ سے نگاہ ملائی ۔ تو حضرت امام حسین ؓ نے نگاہوں میں جواب دیا کہ نانا جان آپ فکر نہ کریں اگر آواز آپ کی ہے تو کان حسین ؓ کے ہیں ۔ لوگ مسجدوں میں قرآن پڑھتے ہیں ، ممبروں پر قرآن پڑھتے ، اور مصلوں پر قرآن پڑھتے مگر نانا جان میں انشاء اللہ نیزے پر بھی قرآن پڑھ کر سناؤں گا ۔ صاف ظاہر ہے امام عالی مقامؓ کی تربیت خود حضور ﷺ نے کی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امام عالی ؓ نے غلبۂ حق کے لئے متاع زیست تک بھی قربان فرمائی ۔ ابن ماجہ شریف کی ایک حدیث ہے جس میں حضورﷺ نے فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اور حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جو حسین سے محبت رکھتا ہے اللہ اس سے محبت رکھتا ہے ۔ اس حدیث مبارک سے پتہ چلتا ہے کہ آں حضور ﷺ کو حضرت امام عالی ؓ کے ساتھ کتنی محبت تھی اور حضورپر نور ﷺ حضرت امام عالیؓ کو کس قدر چاہتے تھے ۔ گو کہ بچپن ہی سے آں حضور ﷺ حضرت حسین کی قدر کرتے تھے اس بات سے ہر ایک باخبر ہے کہ حضرت علیؓ حضرت امام حسین ؓ کے والد محترم تھے اور حضرت فاطمہ ؓ حضرت امام عالیؓ کی والدہ ٔ محترمہ تھیں جبکہ حضرت امام حسنؓ آپ کے بڑے بھائی تھے ۔ حضرت علیؓ نے تو آں حضور ﷺ کی دعوت توحید پر چھوٹی عمر ہی سے لبیک کہا اور بے لوث خدمات انجام دی جبکہ حضرت حسن ؓ نے بھی حق کا ہی دامن پکڑا اور مثال قائم کی ۔ امام عالی مقام ؓ نے دین کی سر بلندی اور اسلام کے آفاقی اصولوں کو زندہ رکھنے کے لئے نہ صرف اپنے جان کی قربانی پیش کی بلکہ اپنے ساتھیوں ، رشتہ داروں اور احباب کی بھی قربانیاں پیش فرمائی ۔ صدیاں بیت گئیں لیکن زمانہ آج بھی شہداء کربلا کو یاد کرتا ہے نہ صرف انہیں یاد کیا جاتا ہے بلکہ سلام عقیدت بھی پیش کیا جاتا ہے ۔
بقول شاعر :
’’پیش کرتی رہے گی شہادت حسینؓ کی
آزادیٔ حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول۔‘‘
واقعۂ کربلا میں آج کی دنیا کے لئے یہ درس ہے کہ باطل کتنا ہی طاقتور ہو ، لیکن حق ہی غالب آجاتا ہے ۔ امام ؓ تقویٰ و طہارت ، شجاعت و خدا ترسی سے متصف تھے اللہ نے انہیں گو نا گوں صفات عطا کئے تھے حضرت امام حسین ؓ کی بے مثال مظلومیت و شہادت اور ان کے صبر و استقامت نے نمونہ کا کام دیا ہے ۔ اور انہیں نشان راہ اور چراغ منزل کی حیثیت و اہمیت تاریخ میں حاصل ہے ۔ ان کی مثالی شخصیت اپنے معنوی پیغام ، جذبۂ ایثار ، اپنی غیرت و حمیت ، صداقت و امانت ، ایمان و یقین ، اخلاص و توقل کی جامعیت کے اعتبار سے ہمیشہ ہی اہل ایمان اور اصحاب دعوت و عزیمت کے اندر قابل تسخیر جذبہ و ولولہ اور لازوال شعور پیدا کرتی ہے اور راہ حق کے مسافروں کی رہنمائی کرتی رہے گی ۔
بقول شاعر:
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتداء ہے اسماعیلؓ
حاصل کلام یہ کہ امام عالی مقام حضرت حسینؓ نے ریگستان کربلا میں جو عظیم و شان اور بے مثال قربانی پیش کی تاریخ میں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے ۔ ایک شخص اپنے بہتر (72 ) ساتھیوں کے ساتھ بے آب و گیاہ میدان میں پڑا ہوا ہے اس کے ساتھ عورتیں بھی ہیں ،بچے بھی ہیں اور بیمار بھی۔ اچانک سینکڑوں کا آہن پوش لشکر ان کے چاروں طرف ہتھیاروں کی باڑ کھڑی کر دیتا ہے ان کو بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ امام عالی مقام ؓ کی آنکھوں کے سامنے خاک وخون میں بہتر (72 ) ساتھیوں میں سے ہر ایک کو تڑپایا جاتا ہے ان میں سے اس کے بھائی بھی ہے ، بھتیجے بھی اور فرزند بھی ، بوڑھے بھی ، جوان بھی اور شیر خوار بھی، سب ان کی آنکھوں کے سامنے دم توڑتے ہیں اور آخر میں خود اسے عورتوں کی آہ و فغان اور بچوں کی گریاہ و بکاء کی گونج میں ان سب کے سامنے شہید کر دیا جاتا ہے اس حسرت ناک جگر پوش اور دل خراش قربانی کی نظیر شاید ہی کوئی دوسری دکھائی دے گی ۔ آخر حضرت حسینؓ نے یہ لامثال قربانی پیش کیوں کی ؟ کیا وہ مال و دولت کی خواہش رکھتے تھے ، کیا انہیں حکومت کی طلب تھی نہیں ِ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امامؓ یہ چاہتے تھے کہ منسب خلافت اس شخص کے حوالہ کیا جائے جس کی ذات اسلام کے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل پیش کر سکے ۔حقیقت یہ ہے کہ مرکزاسلام میں ابھی ایسے جلیل القدر بزرگ موجود تھے جو امامت جیسے منسب کو اچھی طرح انجام دے سکتے تھے جن میں حضرت امام حسینؓ بھی تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہونے دیا گیا جس کی وجہ سے امام ؓ نے اپنی اور اپنے قریبی رشتہ داروں اور ساتھیوں کی قربانی پیش کر کے حیات ِ جاوداں حاصل کیا اور امت کے لئے پیامِ زندگی چھوڑ دیا ۔