تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
وقف بورڈ کی طرف سے ایک حکم نامے میں زیارت گاہوں پرناجائز طریقے سے نذر ونیاز جمع کرنے پر پابندی لگادی گئی ۔ حکم نامے پر فوری عمل کرتے ہوئے چرار شریف میں اس طرح کے کئی مجاوروں کو ان کی جگہوں سے ہٹایا گیا ہے ۔ وقف بورڈ کی چیرپرسن نے بذات خود زیارت گاہ کا جائزہ لیتے ہوئے وہاں موجود مجاوروں کو ان کی نشستوں سے بے دخل کیا گیا ہے ۔ حکومت کا الزام ہے کہ مجاور غیر قانونی طور یہاں قبضہ جماکر لوگوں سے چندہ وصول کرتے تھے ۔ اس ناجائز روایت کو ختم کرتے ہوئے مبینہ طور زائرین کو راحت پہنچائی گئی ۔ مجاوروں کا کہنا ہے کہ یہ ان کا موروثی کام ہے اور وقف آئین کے تحت انہیں ایسا کرنے کا حق ہے ۔ تاہم وقف بورڈ کے سربراہ نے ان کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے مجاوروں کے چندہ وصول کرنے کی روایت کو غیر قانونی قرار دیا ۔ اس طرح سے زیارت گاہوں سے چندہ وصول کرنے والوں کو بے دخل کردیا گیا ۔
زیارت گاہوں پر چندہ وصول کرنے کے حوالے سے رائے حکومت کے خلاف بھی ہوسکتی ہے ۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ نذر ونیاز جمع کرنے کے حوالے سے جو من مانی اختیار کی جاتی تھی وہ کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے ۔ حکومت نے کس مقصد سے اس روایت کو ختم کرنے کا فیصلہ لیا وہ الگ معاملہ ہے ۔ تاہم ایک بات اپنی جگہ قائم ہے کہ ان مجاوروں نے زیارت گاہوں کے روحانی تقدس کو پامال کرتے ہوئے ایسے مقامات کو تجارتی منڈیوں میں تبدیل کیا تھا ۔ اس پر کئی حلقوں کو بہت پہلے سے تحفظات پائے جاتے تھے ۔ لوگوں سے زبردستی نیاز وصول کرنے کا جو طریقہ یہاں اپنا یا جاتا رہا وہ کسی کو پسند نہیں تھا ۔ یہ بہت حتمی ہے کہ کشمیر میں آبادی کا بڑا حصہ ان زیارت گاہوں کے ساتھ جذباتی تعلق رکھتا ہے ۔ کئی حلقوں کی طرف سے تنقید کے باوجود لوگوں کی اکثریت آج بھی ولیوں ، غوثوں اور اس طرح کی شخصیات کے ساتھ مستحکم تعلق رکھتے ہیں ۔ لوگ ان زیارت گاہوں پر جانا پسند کرتے ہیں اور اس رویت کو ترک کرنے کے لئے ہر گز تیار نہیں ۔ لوگوں کی اسی جذباتی وابستگی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو لوٹنے کی روایت اختیار کی گئی ۔ کچھ خاندانی پیر اور مجاور ایسی زیارت گاہوں پر قبضہ جماکر بیٹھے ہیں اور اپنے لئے آمدنی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ ایسے خاندان بہت طویل عرصے سے یہاں زیارت کے لئے آنے والوں کا استقبال کرتے رہے ہیں ۔ ایک زمانے میں دوردراز علاقوں سے آنے والوں کے قیام و طعام کا انتظام بھی یہی لوگ کرتے تھے ۔ پیروں فقیروں کی اس جماعت کو اولیاء اللہ کا مقرب طبقہ سمجھا جاتا تھا ۔ اس تعلق کی وجہ سے لوگ ان کے اخراجات پورا کرنے کے لئے انہیں بھر پور مالی مدد کرتے تھے ۔ ایک زمانے میں جبکہ ان مجاوروں کو آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ فراہم نہ تھا ان کی امداد کرنا ضروری تھا ۔ لیکن کچھ عرصے سے یہ لوگ لاکھوں اور کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔ ان کے پاس کافی دولت جمع ہوچکی ہے اور یہ لوگ زندگی کی ہر سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ان کے پاس رہنے کو شاندار محل ہیں ۔ گاڑیاں بھی ہیں اور کھانے پینے کے اعتبار سے بڑی عیش کی زندگی گزارتے ہیں ۔ اس کے برعکس وہ لوگ کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں جن سے یہ چندہ وصول کرتے ہیں ۔ جو لوگ ان کے لئے اپنے مرغے اور بھیڑ بکریاں مشخص رکھتے ہیں انہیں دو وقت کی روٹی مہیا نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا ایک بڑا طبقہ وقف بورڈ کے مجاوروں کے حوالے سے لئے گئے فیصلے سے مطمئن ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ درست فیصلہ ہے ۔ مذہبی اسکالر اس کو دین کی تعلیمات کے مطابق فیصلہ قرار دیتے ہیں ۔ تاہم کئی لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ زیارت گاہوں پر چندہ جمع کرنا ہے غیر قانونی کیوں قرار دیا گیا ۔ یہاں بہت سے دوسرے کئی حلقے ہیں جو اسی طرح سے چندہ جمع کرتے ہیں ۔بلکہ اس سے بڑھ کر لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں ۔ ایک یا دوسرے بہانے لوگوں سے نذر و نیاز وصول کرتے ہیں ۔ عیاں مثال مدرسوں اور نام نہاد دارالعلوموں کے مہتمموں کی ہے ۔ یہ لوگ گلی گلی اور گھر گھر جاکر لوگوں سے نقد وجنس وصول کرتے ہیں ۔ قرآنی تعلیمات کے نام پر لوگوں سے بڑے پیمانے پر ٹھگ لیا جاتا ہے ۔ اس کی آڑ میں یہاں ایک ایسا مافیا چلایا جاتا ہے جو کسی بھی معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔ یہ جس طرح سے بستی بستی جاکر ہڑ بونگ مچاتے ہیں اس پر روک لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ان کے شور وشر سے جو آلودگی پھیلتی ہے وہ بہت حد تک ناقابل قبول ہے ۔ مستحکم اور باعزت معاشروں کے اندر ایسے طریقوں کو ہرگز پسند نہیں کیا جاتا ۔ اسلام ضرور خیرات کو پسند کرتا ہے ۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ خیرات دینا اللہ کا حکم ہے اور خیرات لینا ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا ہے ۔ بھیک مانگ کر پیٹ پالنا اسلامی روایات کے خلاف ہے ۔ بھکاریوں کی امامت پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے ۔ اسلام پر بھکاریوں نے ہی قبضہ کررکھا ہے ۔ امامت اورامارت انہیں کا حق سمجھا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ بھیک مانگ کر اس کو اسلام کی خدمت سمجھنا اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے ۔ حکومت نے جس طرح مجاوروں کے استحصال کو ختم کیا اسی طرح اسلام کے نام پر بھیک مانگنے پر بھی پابندی لگادی جانی چاہئے ۔
