ہرایک لفظ سے چنگاریاں نکلتی ہیں
کلیجہ چاہئے اخبار دیکھنے کے لئے (راحت اندوری)
اللہ تعلیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس دُنیاں میں اس کی جگہ متعین کر دی انسان کو اللہ تعالٰی نے عقل و شعور کے ساتھ تخلیق کیا ۔ اسے قوتِ گویائی سے نواز کر دوسرے سب جانداروں میں اسے ممتاز بنایا اس وصف کے بنا پر انسان کو حیوانِ ناطق بھی کہا جاتا ہے۔ زبان کو انسان ترسیل کے لیے استعمال کرتا ہے وہ اپنےخیالات, احساسات, کیفیات, فکر و سوچ, نشیب و فراز کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے اس کا استعمال روزِ اول سے ہی کرتا آیا ہے, چناں چہ اللہ تعلیٰ کی آسمانی کتابیں بشمول قران مجید بھی اس کی ایک عمدہ مثال ہے جو وقتاً فوقتاً پیغمبروں پر اُتاری گئیں جو اللہ کا فرمان بنی ۔علامہ سیوطی ابو عبداللہ محاسبی کی کتاب ”فہم السنن”کے حوالے سے لکھتے ہیں :
”قرآن کی کتابت کوئی نئی چیز نہ تھی نبی اکرمؐ بذات خود اس کے لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے البتہ وہ کاغذ کے ٹکڑوں،شانہ کی ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر بکھرا پڑا تھا ۔حضرت ابو بکررؓ نے متفرق جگہوں سے اس کو یکجا کرنے کا حکم دیا یہ سب اشیاء یوں تھیں جیسے آنحضور ؐ کے گھر میں اوراق منتشر پڑے ہوں اور ان میں قرآن لکھا ہو اہو، ایک جمع کرنے والے (حضرت ابوبکرؓ ) نے ان اوراق کو جمع کرکے ایک دھاگے سے باندھ دیا تاکہ ان میں سے کوئی چیز ضائع نہ ہوپائے۔
اوپر بیان کیے گئے موضوع کے اعتبار سے اگر ہم بات کریں تو اخبار نویسی یا صحافت ایک قدیم فن اور پیشہ ہے صحافتی ذرائع ابلاغ میں پرنٹ، ٹیلی ویژن، ریڈیو، انٹرنیٹ، اور ماضی میں نیوز ریلز شامل ہیں۔
دورِ قدیم میں دنیاوی اعتبار سے خبر رسانی کا کام سرکاری جاسوسوں اور کارندوں کے ذمے ہوا کرتا تھا اور جب پریس کی ابتداء ہوئی تو صحافت میں ایک زبردست انقلاب برپا ہوا اور گزشتہ صدی میی اخبار نویسی کو بے پناہ مقبولیت ملی ۔ اگر ہم جموں و کشمیر کی بات کریں تو 1858 میی پہلی بار ریاست میں پریس کا آغاز ہوا جو احمدی پریس کے نام سے مشہور تھا۔ اس کے بعد سرکار نے “وکرم ولاس” پریس قائم کیا۔ لیکن اس پریس میں کسی بھی اُردو اخبار کی اشاعت کی اجازت نہیں دی گئ تھی تاہم مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دور حکومت میں”بدیا بلاس” کے نام سے ایک اخبار جاری کیا گیا یہ اُردو اور ہندی دونوں زبانوں میں چھپتا تھا اور تاریخی لحاظ سے یہ ریاست کا پہلا اخبار ہے۔ اس کے بعد ” “تحفہ کشمیر ” اور “جموں گزٹ” سرینگر سے شائع ہوتا رہا لیکن ان میں صرف حکومت کی کارکردگی کے بارے میں خبریں شائع ہوتی تھیں۔
ریاست میں اُردو صحافت کا باقاعدہ آغاز 1944 میی اخبار رنبیر” سے ہوا جو جموں سے شائع ہوتا رہا اور پھر جموں سے ہی ہفتہ روزہ “پاسبان ” معراج الدین کی صدارت میں شائع ہوتا رہا۔ اس کے بعد کا عہد ریاست جموں و کشمیر میں اخباروں کی مناسبت سے ایک سنہری باب کہلاتا ہے۔ جموں و کشمیر میں اردو صحافت کو جُلا بخشنے میں منشی محمد الدین فوق کے سمیت غیر مسلموں کا بھی کلیدی رول رہا ہے۔
شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدے کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے کا حق بیان کرتا ہے، کہ ہر کسی کو بغیر کسی مداخلت کے رائے رکھنے کا حق حاصل ہوگا اور سرحدوں سے قطع نظر، ہر قسم کی معلومات اور نظریات تلاش کرنے، حاصل کرنے اور فراہم کرنے کی آزادی ہوگی۔ زبانی طور پر، تحریری طور پر یا پرنٹ میں، آرٹ کی شکل میں، یا اپنی پسند کے کسی دوسرے میڈیا کے ذریعے۔ جمہوریت میں میڈیا کو اس وقت تک جمہوریت کا چوتھا ستون نہیں مانا جا سکتا ہے جب تک کہ اس میں شفافیت نہیں ہوگی اور اس دور میں میڈیا کو روزمرہ کی ضرورت سمجھا جاتا ہے کیونکہ دن کا آغاز میڈیا سے ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے چاہے اس کا سوشل میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا۔ الیکٹرانک میڈیا.
ایک جمہوری ملک اپنے نظام کو چلانے کے لیے اپنی پوری صلاحیت کے مطابق چلانے کے لیے عوام کی شرکت ناگزیر ہے، جس کے لیے یکے بعد دیگرے بڑے پیمانے پر لوگوں کی تعداد تک معلومات کی ترسیل کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام جتنے بھی وسائل سے لوگوں تک ہہنچائی جاتی ہے حرف عام میں اُسے ماس میڈیا کہتے ہیں۔
صحافت بھی قلم کاری کا ایک شعبہ ہے۔ ادیب اور صحافی کی ذمہ داری کم و بیش ایک ہی ہے۔ اردو میں شاعری اور صحافت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شعرا، ادیب اور دانشوروں کو مقبولیت بخشنے میں بھی صحافت نے کلیدی رول ادا کیا ہے میرے پسندیدہ شاعر علامہ اقبالؒ کا کلام سب سے پہلے رسالہ “مخزن” میی ہی چپھا تھا اور جنگ آزادی میں صحافت کے رول کو شاید ہی کوئی نظرانداز کرسکے ۔اردو صحافت کے بنیاد گذاروں میں حسرت موہانی، ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، ظفرعلی خاں وغیرہ اور ان کے بعد آنے والے صحافی سب اعلیٰ پایہ کے شاعر و ادیب اور خطیب تھے۔
چاہے وہ تحریر و اشاعت کے ذرائع ہوں جسے پرنٹ میڈیاں کہتے ہیں جس میی اخبار ورسائل ،کتاب, میگزین, پریس سب شامل ہیں۔ یا برقیاتی ذرائع ہوں جسے ایلکٹرانک میڈیاں کہتے ہیں۔جس میں ریڈیو, ٹی وی, کمپیوٹر , فیکس, انٹرینٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یا پھر تیسرا ذرئع جسے پرفارمنگ آرٹ کہتے ہیں۔ جس میی رقص و موسیقی ناٹک , ڈرامہ خطابت فلم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سبھی عوامی ترسیل کے عناصر ہیں۔ یہ تمام ارکان ملا کر ہمارےذرائع ابلاغ کو اثر آفرین بناتے ہیں۔
انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز کے پھیلاؤ نے 21ویں صدی کے آغاز سے میڈیا کے منظر نامے میں اہم تبدیلیاں لائی ہیں۔ اس نے پرنٹ میڈیا چینلز کی کھپت میں تبدیلی پیدا کر دی ہے، کیونکہ لوگ اخبارات، میگزین، یا ٹیلی ویژن نیوز چینلز کے روایتی فارمیٹس کے برعکس، ای ریڈرز، اسمارٹ فونز اور دیگر ذاتی الیکٹرانک آلات کے ذریعے خبروں کا استعمال تیزی سے کرتے ہیں.
قلم سے آگ بجھاؤ کہ جل رہا ہے چمن
خموش بیٹھے ہو، کیسے ادیب لگتے ہو