تحریر:پروفیسرعبدالشکورشاہ
اپنی زندگی میں مستقل اور دیرپا تبدیلیاں کرنے کا نقطہ آغازمثبت، منفی اور صحیح سوچ میں فرق سمجھنے سے ہوتا ہے۔بلکل ایک ایسے شخص کی طرح جو پیانو بجانے بیٹھتا ہے مگر الٹی سیدھی دھنیں بجانے کے علاوہ اس کچھ نہیں آتا۔ وہ کسی موسیقار کی تلاش میں نکلتا ہے۔”تم میں کھیلنے کی صلاحیت ہے،لیکن آپ کو موسیقی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔زندگی بھی پیانو کی طرح سمجھ لیں۔”ہم میں سے ہر ایک کے پاس زندگی کودرست معانی میں چلانے کی صلاحیت موجود ہے لیکن ہمیں زندگی کے قواعد و ضوابط کو جاننے کی ضرورت ہے۔زندگی جسمانی قانون کے مطابق چلتی ہے۔وہ بنیادی قانون جس سے دوسرے تمام قوانین مطابقت رکھتے ہیں وہ ہے ”وجہ“ اور”اثر“ کا قانون۔ سبب اور اثر کا قانون کہتا ہے کہ اثریا کسی بھی صورت حال کا نتیجہ وجہ کے برابر ہونا چاہیے۔ہے۔ سبب کے قانون کو بیان کرنے کا ایک اور طریقہ اور اثر بونے اور کاٹنے کا عمل اور ردعمل ہے۔سبب اور اثر کا قانون غیر ذاتی ہے۔یہ کیوں ہے ہم بہت سارے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جو بنیادی طور پر اچھے ہیں۔ان کی زندگی میں مسائل اور آفات بھی بہت زیادہ ہیں۔ کہیں یہ شخص قانون کا غلط استعمال تو نہیں کر رہے یا غلط فہمی کی وجہ سے قانون کا درست استعمال سیکھنے سے قاصر رے گئے ہوں۔اگر کوئی شخص برا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ محبت کرنے والا شخص نہیں ہے۔ اسکا مطب ہے اس شخص نے قانوں زندگی کو لاعلمی یا غلط فہمی کے ذریعے، غلط استعمال کیا ہے۔قانون کائنات ایک ندی کی مانند ہے۔ دریا بہتا رہتا ہے۔ آپ خوش ہیں یا غمگین، اچھے ہیں یا برے زندگی کی ندیاں رواں دواں رہتی ہے۔ہم اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، یا ہم چھلانگ لگا کر ڈوب سکتے ہیں۔ہم میں سے کچھ لوگ چائے کا چمچہ لے کر زندگی کے دریا میں جا تے ہیں کوئی کپ کے ساتھ،کوئی بالٹی لے کر جا سکتا ہے، اور کوئی اور شخص ایک بیرل کے ساتھ جا سکتا ہے لیکن دریا کی کثرت ہمیشہ موجود ہے اسے فرق نہیں پڑتا۔ ہم اپنی زندگی میں بھی خود یہ فیصلہ کرتے ہیں کے ہم نے زندگی میں سے کیا کچھ کتنی مقدار میں لینا ہے۔ انتظار ہمارا شعور، ہمارے خیالات، ہمارا فریم آف ریفرنس اور ہمارایقین کا نظام اس بات کا تعین کرتا ہے کہ آیا ہم چاہئے کے چمچ کے ساتھ زندگی کے دریا میں جاتے، ایک کپ، ایک بالٹی یا ایک بیرل لیکر۔اگر ہم اپنی سوچ میں بے حال ہو کر ایک چمچ کے ساتھ دریا میں چلے گئے ہیں تو ہم اپنے پاس موجود تھوڑے پرلعن تعن کر سکتے ہیں۔ہم کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم اس یقین کو ترک کر دیں کہ ہم نہیں کر سکتے۔ عقائد حدود بن جاتے ہیں۔ہمارے تمام تجربات نے ہمیں کچھ چیزوں پر یقین کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ہم خود چاہے یہ عقائد سچے ہیں یا نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر ہم انہیں سچ مان لیں تو وہ ہمارے لیے سچے ہیں۔ہم اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے سوائے اپنا ذہن بدلنے کے۔ اگر آپ ایک پودے لگاتے ہیں بیج بڑھنے جا رہا ہے اگر آپ ٹماٹر لگاتے ہیں تو آپ کے پاس ٹماٹر ہوگا۔ٹماٹر اپنا دماغ نہیں بدلے گا اور کھیرا نہیں بنے گا۔ہم بھی روائیتی طرز پر اپنے اذہان کو خیالات سے بھر بیٹھتے ہیں اور ان کے برعکس کچھ سننے کو بلکل بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ وہی عقائد ہیں جس پر میں نے اپنی پوری زندگی کی بنیاد رکھی ہے۔عقائد کا مجموعہ جسے مذہب کہا جاتا ہے، عقائد کا ایک مجموعہ جسے سیاست کہا جاتا ہے، ایک مجموعہ اپنے بارے میں عقائد، لوگوں کی اقسام کے بارے میں عقائد کا ایک مجموعہ جو ہم پسند یا نا پسند اور ہر چیز کے بارے میں عقائد کا ایک مجموعہ۔بہت سی چیزیں جن پر ہم یقین رکھتے ہیں وہ ماضی سے حاصل کی گئی ہیں۔یہ سب جانتے ہوئے کے ہم نے زندگی کے جن اصولوں پر عمل کر کے زندگی گزارنے کی کوشش کی ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں مگر ان کو چھوڑنے یا بدلنے کا نام تک لینا گوارا نہیں ہے۔دراصل ہم اپنے کمفرٹ زون میں مقفل ہیں چاہے یہ کتنا ہی خود کو تباہ کن کیوں نہ ہو۔ہمیں خود سے مذاق کرنا چھوڑ دینا چاہیے، دوسروں پر الزام لگانا چھوڑنا چاہیے، اور روکنا چاہیے۔ناخوشگوار فیصلوں سے گریز کریں اور سچائی کا سامنا کرنا شروع کریں جو ہم کر سکتے ہیں۔اپنے موجودہ عقائد کے نظام کے پیچھے دیکھیں اور اپنے سے پوچھیں۔یہ سچ ہے، آپ صحیح سوچ کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ مثبت ہونے کی بات نہیں ہے۔یا منفی، کشش کا قانون ہر چیز ہمارے پاس طبیعیات کے سب سے بنیادی قانون کے ذریعہ آتی ہے اسے کشش کا قانون کہا جاتا ہے۔کشش کا قانون، تمام قدرتی قوانین کی طرح چلتا ہے۔ریاضی کی درستگی یا غیر جانبداری اور غیر شخصی ہے۔ آپ اسے چاہتے ہیں یا نہیں چاہتے ہیں اس کا آپ کی شخصیت، آپ کے مذہبی عقائد سے کوئی تعلق نہیں،ایک ”اچھا” یا ”برا” شخص یا کچھ اور ہونا۔ اس سے آگے کوئی نہیں رہتایہ قانون. یہ کشش ثقل کے قانون کی طرح ایک ناقابل تردید قانون ہے۔ذہن ہر چیز کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ خوف زدہ ذہن خوفناک تجربات کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ایک الجھا ہوا ذہن مزیدالجھنیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔الجھاؤپرچلنے والا ذہن زیادہ کثرت سے الجھاو اور تناوکو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے چونکہ ہم جس چیز کے بارے میں سوچتے ہیں اس کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، اس لیے یہ اچھی بات ہے کہ آپ لاشعوری سوچ کے نمونوں سے آگاہ ہوں۔زندگی لاشعور دماغ کا بنیادی کام اس کی پیروی کرنا ہے۔شعوری ذہن کی ہدایات۔ یہ اسے ”ثابت” کرکے کرتا ہے۔شعوری ذہن جو کچھ بھی مانتا ہے وہ سچ ہے۔ دوسرے الفاظ میں شعوری ذہن ہمیشہ ”صحیح” ہوتا ہے۔آپ کا لاشعور دنیا کی حقیقت کو نہیں بدلتایہ آپ کے ارد گرد صرف ان معلومات کو فلٹر کرتا ہے جو آپ اسے پیش کرتے ہیں۔اپنے عقائد یا اس تصویر کی حمایت کریں جو آپ اپنے ذہن میں رکھتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر آپ کو یقین ہے کہ کاروبار خراب ہے، یا کوئی نیا نہیں ہے آپ کے کاروبار کے مواقع، آپ کا لاشعور نئے مواقع کو نظر انداز کر دے گا۔مسائل جو آپ کے اس یقین کی تائید کرتے ہیں کہ چیزیں خراب ہیں، یا یہ کہ موجود ہیں۔کوئی نیا موقع نہیں عدم اطمینان کے بغیر ترقی نہیں ہوتی آپ کا اعلیٰ نفس ہمیشہ جانتا ہے کہ آپ کے لیے کیا بہتر ہے۔ سب کچھ جو تمہیں چاہیے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے حق سے بہتر کچھ چاہتے ہیں۔ابھی. جان لیں کہ عدم اطمینان کے بغیر ترقی نہیں ہوتی۔ جبکہ یہ ہے۔موجودہ لمحے میں جینا اور ”جو ہے” کو قبول کرنا ضروری ہے، یہ بھی ہے۔جہاں ہم ہیں وہاں سے بڑھنا ضروری ہے۔ اپنے عدم اطمینان کا بہت احتیاط سے مطالعہ کریں۔ہمارا بڑا وہم یہ ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ بنا سکتے ہیں جو کام کرتا ہو۔ہماری موجودہ سطح سے زیادہ نفسیاتی اور روحانی سطح آگاہی بہت سے لوگ ہمیں ایک بہتر معاشرے یا بہتر کے لیے کام کرنے پر زور دیتے ہیں۔ جب تک ہم اپنی بیداری کی سطح کو بلند نہیں کر لیتے ہم اس سے اعلیٰ کوئی چیز نہیں بنا سکتے ہماری اپنی بیداری کی سطح، مجموعی طور پر معاشرہ زیادہ بہتر نہیں ہوتا۔سماجی تبدیلی کے لیے معاشرے کا نظام صرف ایک نیا بوجھ ڈالتا ہے۔ ایک پرانے بوجھ کے اوپرہمارے مغلوب دماغ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں۔اگر ہم اپنی زندگیوں کو اس طرح نہیں بنا رہے ہیں جس طرح سے ہم چاہتے ہیں تو ہم مثبت، منفی اور صحیح سوچ میں فرق نہیں کر پائیں گے۔
جوس فیکٹری، دوآبگاہ کشمیر
قفس میں ہے میری جان کس لئے ؟
رشید پروین ؔ سوپور
سوپور ایک تاریخی قصبہ ہے ، کیونکہ اس کا نام بھی ایک تاریخی کردار سے ہی منسوب ہے جو اپنی ذہانت اور صلا حیتوں سے اونتی ورمن کا وزیر رہا ہے (۸۵۰۔۸۸۳ء)تاریخی لحاظ سے اور بھی سوپور کے ساتھ بہت سارے ایسے واقعات ہیں جو ا سے تاریخی بناتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ قصبہ جو کبھی ہیڈ کوارٹر بھی رہا ہے ایشیاء کی سب سے بڑی میٹھے پانی کے جھیل سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہی واقع ہے اور اس جھیل کی جتنی بھی آبی اور قدرتی پیداوار ہے وہ سوپور کے مارکیٹ میں ہی کھپ جاتی ہے ، اور سوپور ہی آج تک اس پیداوار کاسب سے بڑا قدر داں ہے ، اور دوسری بڑی اور سب سے بڑی جو اہمیت سوپور کی ہے کہ یہ ایپل ٹاون کہلاتا ہے ، اور بجا طور پر اس کی مناسبت ایپل سے اس لئے ہے کہ اس کے آس پاس دوسرے ضلعوں کی سر حدوں تک سوپور کے شاندار اور جاندار باغات حد نگاہ تک نظر آتے ہیں ، جن کی بہتر آمدنی سے نہ صرف یہ ضلعے بلکہ سارا کشمیر استفادہ کرتا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اقتصادی طور پر یہ آمدنی ہمارے اقتصادی ڈھانچے کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہے ، چونکہ سیب کی گریڈنگ کے بعد جو میوہ جات کی فصل بچتی تھی اور جو باہر نہیں بھیجی جاسکتی تھی اور ہزاروں ٹن سیب جو خود بخود درختوں سے گرتے تھے ، مکمل ضائع ہوجاتے تھے ، جس کے استعمال کا ہم میں شعور ہی نہیں تھا ، لیکن حیرت انگیز اور متحیر کن بات یہ ہے کہ سوپور کے بادشاہ کہلانے والے خواجہ صمد پنڈت کی نظر کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ جہاں انہوں نے اس زمانے میں سینما کی سوچی ،وہاں انہوں نے بہت بڑے پیمانے پر جوس فیکٹری بھی لگوائی تھی ، اور اب ہمیں اس فیکٹری کی افادیت کا شعور پیدا ہوا ہے ، دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی اس فصل کے لئے وہ مشنریاںلگائی جا چکی ہیں جس سے اس فصل کا جوس نکال کر اس سے کنسن ٹریٹ کیا جاتا رہا ہے ، ۸۰ ۱۹ میں فروٹ گرورس کی انتھک محنتوں اور ارباب اقتدار کی شعوری بیداری نے دو آبگاہ سوپور میں ایک بہت ہی بڑی جوس فیکٹری ایسٹیبلش کرنے کا عزم ظاہر کیا اور ۱۹۸۵ میں ایپل ٹاون کے مکینوں کو اس خواب کی تعبیر نظر آئی ۔یقینی طور پر اس فیکٹری نے آمدنی کے نئے وسائل کے ساتھ ہی فورتھ گریڈ (چھانٹ ) کے بہتر استعمال کو ممکن بنادیا ، جب ا س فیکٹری نے تیار ہوکر اپنا کام شروع کیا ،تو کشمیر کی فروٹ انڈسٹری میں نئے باب کا اضافہ ہوا ، اور اس پلانٹ کی معیاری مشنری کی دھوم باہر تک سنائی دینے لگی جس نے بڑی جلدی ہر سو آوٹ لیٹس قائم کرنے میں مدد کی ، میں آپ کو یہ انفارمیشن بھی دوں کہ سوپور فروٹ منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی منڈی تصور کیا جاتا ہے اور بلکل اس کی شان کے مطابق ہی یہ جوس فیکٹری بھی جیسا کہ یہاں ماہرین کا خیال ہے کہ جرمن کے بغیر اس طرح کی مشنری اور فیکٹری یہاںاور سارے ملک میں کہیں نظر نہیں آتی، ہمیں ان اشخاص ، ان ارباب اقتدار کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے ضرورت اور عوام کی انتہائی جائز مانگ کو پورا کرنے میںکسی قسم کی سیاست کا کھیل نہیں کھیلا ، اس فیکٹری سے بیروز گاروں کے لئے روز گار جنریٹ ہوگیا ،اس فیکٹری کے چالو ہونے سے وہ فصل جو باغات کے ارد گرد سڑتی نظر آیا کرتی تھی ، فیکٹری میں پہنچائی جانے لگی ، فورتھ گریڈمیوہ (چھانٹ ) کو جمع کرنے والوںکا ایک منظم گروہ وجود میں آیا ، جنہیں اس طرح سے رز گار ملنے لگا اور باغات کے مالک بھی اس درجے کے میوہ جات کو بیچ کر کمائی کرنے لگے ، ٹرانسپورٹ کے لئے بھی ایک اور ذریع آمدنی بڑھنے لگا ، روزانہ بنیادوں پر بھی روز گار کے مواقع میسر ہونے لگے ، یہ فیکٹری اپنی ابتدا میں ۶۰۰ میٹرک ٹن تک کنسن ٹریڈڈ جوس پیداکرنے لگی ، اور اس فیکٹری میں اتنا مال آس پاس سے آنے لگا کہ ۲۴ گھنٹے بھی یہ فیکٹری سیزن میں چالو رہا کرتی تھی ، جس سے اس فیکٹری نے نہ صرف معقول پرافٹ کمانا شروع کیا بلکہ ابتدا سے ہی کروڈوں روپیہ کی آمدنی ہوتی رہی ،۸۵ ۱۹ تک آتے آتے اس فیکٹری کی مجموعی پیداوار ۱۰۰۰۰ میٹرک ٹن جوس نکانے کی صلاحیت ہوچکی تھی ، جو اسوقت مارکیٹ کے حساب سے ۴۰ کروڈ مالیت سے بھی زیادہ کی پیداوار بنتی ہے ، ابتدا سے ہی ہمارے اس جوس کی ایکسپورٹ بڑھیا رہی کیونکہ جس طرح کشمیری ایپل کی باقی ممالک کے ایپل کے مقابلے میں اپنی منفر د اہمیت اور مقام ہے بلکل اسی طر ح اس کنسنٹریٹڈجوس نے ساری دنیا میں دھوم مچائی اور ڈے بائی ڈے اس کی ڈیمانڈ بڑھنے لگی ، سوپور کے علاوہ کشمیر کے لگ بھگ سبھی قصبہ جات اور سرینگر شہر میں ہماری پروڈکٹ کے آوٹ لیٹ قائم ہوچکے تھے ، اور فی بوتل ۲۰۰ روپیہ کے حساب سے بکتی تھی ،جس میں ۰۳،۱ لٹر جوس ہوا کرتی تھی ، ، آپ کو شاید یاد نہ ہوکہ یہ پلانٹ ابتدا میں ’’کیڈ بری کمپنی ‘‘کے تحت کام کرتا رہا ، اور اچھے اور منظم طور پر آگے بڑھ رہا تھا ، ٹھیک ٹھاک پروفٹ پہ جا رہا تھا ، ہمارے بہت سارے نوجوان اس میں با ضابطہ ملازم بھی تھے اور پھر سیزنل ملازمتیںبھی میسر ہوجاتیں تھیں ۔ ، لیکن اچانک پلانٹ کو جموں و کشمیر ہارٹی کلچر پرو ڈیوس مارکیٹنگ اینڈ پرسسنگ ( j k h p mc)کو سونپ دیا گیا ۔ اور پتہ نہیں کیوں جب ہمارے ہاتھ کسی بھی چیز کو لگ جاتے ہیں اس کی ہئیت ، شکل اور شباہت ہی بدل جاتی ہے ، اچھے اچھے بڑے کارخانے ، ٹرانسپورٹ ، انڈسٹری جب سرکاری ہوجاتی ہیں تو پروفٹ ، اور ترقی کی تمام سیڑھیاں تنزل کی طرف گامزن ہوکر آخر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی ہیں ، بلکل یہی حال اس پلانٹ کابھی ہوا ، کیا کشمیر کا کوئی ذی حس یہ معمہ حل کر سکتا ہے کہ ایک ایسی فیکٹری جو ہر سال اپنی نئی منزل مقرر کرتی ہے ، جو ہر سال آگے اپنے اہداف سے بھی بڑھ جاتی ہے ، جو ہر سال بیروز گاری کے بجائے روز گار فراہم کرتی ہے ، جو کسانوں اور فروٹ گرورس کے ان کی آمدنیوں میں اضافے کا باعث ہے اور ساری دنیا کو بہتر کوالٹی کا ایپل جوس فراہم کرتی ہے کیوں ایک ایسے ڈیپارٹمنٹ کو سونپ دی گئی جو اس فیکٹری کو صحت مند بنیادوں پر چلانے سے قاصر یا اہل نہیں تھا ، اس فیکٹری کو ہی آخر بند کردیا ، کیوں ؟ کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ پلانٹ نقصان نہیں اٹھا رہا تھا ، اس کا پروڈکٹ فلاپ نہیں تھا ، بلکہ ہاتھوں ہاتھ بک رہا تھا ، جو فیکٹری خاصے منا فع اور مالی طور مستحکم بنیادوں کی حامل تھی ، کیوں اچانک ۲۰۱۳ میں بند کی گئی ؟ یہ ایک بڑا اور سب سے اہم سال ہے ، جس کا جواب فرووٹ انڈسٹری اور ایپل ٹاون کو مانگنا چاہئے ، لیکن ان کے پاس زندہ باد مردہ باد کرنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ۔ وہ جانتے ہیں ، ہمارا ایمان ہے کہ ایپل ٹاون کے وہ سارے لوگ جو ایپل ٹریڈ سے منسوب ہیں ، سب جانتے ہیں کہ یہ فیکٹری کیوں اور کس کے لئے بند کر دی گئی اور کیوں سینکڑوں لوگ بیروز گار بھی کر دئے گئے اور تب سے اب تک مالکاں باغات اپنا یہ تھرڈ گریڈ میوہ پھر پرانے زمانوں کی طرح باغات کے آس پاس سڑنے کے لئے چھوڈنے پر مجبور ہیں ،۱۹۱۳ میں چیف منسٹر عمر عبداللہ تھے ، ان کے ریکارڈ میں نیلوفر آسیہ عصمت دری اور قتل کیس ، ان کے دور میں رگڑو کی تحریک ہے ان کے اعمالنامے میں سیلاب کی تباہیاں ہیں اور انہوں نے اپنے اعمالنامے میں یہ باب بھی درج کیا ہے کہ ایک اچھے خاصے پرفٹیبل ، چاک و چوبند اور ورلڈ کلاس مشینری کو زنگ آلود اور ڈی فنکٹ کرنے کا کارنامہ انجام دیا ، ان کے بعد کسی نے بھی اس فیکٹری کو از سر نو چالو کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہر حال ہم عوام سے اور خصو صاً فروٹ گرورس سے استدعا کرتے ہیں کہ سیاست اپنی جگہ ۔لیکن جو سہولیت یہاں ایپل ٹاون کو حاصل تھی ، جو آمدنی اور روز گار یہاں عوام کو میسر تھا ، اور جو فیکٹری ہماری اقتصادیات میں اہم رول ادا کر سکتی تھی اس کو محظ کسی ایک خاندان یا گھرانے کی خاطر اگر بند کیا گیا ہے تو بڑا جرم سر زد ہوا ہے ، ۔ آپ کو اس مسلے کو آگے شدت اور حدت کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا ،نہیں تو آپ بھی اپنے اعمال نامے میں اس سیاہی کے حصے دار ہوں گے ، ، یہاں آج بھی اس مشنری کی دیکھ ریکھ کے لئے ایک اطلاع کے مطابق ۱۸ ملازمین ہیں ، اور ابھی تک تکنیکی ماہرین کے مطابق یہ پلانٹ دنیا کے بہتر پلانٹوں میں سے ایک ہے اور ابھی اس میں کوئی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی بلکہ پلانٹ پوری طرح سے فنشکنیبل ہے بلکہ بیچ میں کبھی کسی شاید ضرورت کے تحت ہی پلانٹ کو دو مہینوں تک چالو بھی کیا گیا اور ۷۰ میٹرک ٹن جوس حاصل کی گئی لیکن فوراً کسی دیو استبداد نے فیکٹری میں تالے لگوادئے ، اور ان تالوں کی چابیاں کوہ قاف کے جن نے اپنے پاس محفوظ کر رکھی ہے ،مزید کچھ برس کے بعد اس کی بہترین اور معیاری مشنری کباڈی بھی خریدنے سے معذرت چاہیں گے اور اس طرح قوم کا اربوں روپیہ محظ اپنے ذاتی مفادات اور اغراض و مقاصد کی خاطر وقت کی دھول میں کھو جائے گا، یہ ہماری کم ظرفی ، غفلت شعاری ، اور جوابدہی سے ماورا ہونے کی بد ترین مثال ہوگی ، اس ڈی فنکٹ، بیکار اور بند پڑی ہوئی فیکٹری کے ایم ڈی سیکٹریٹ کی میٹنگوں میں زبردست فنکشنل ہیں ،
گھریلو تشدد ۔۔ آج بھی کچھ نہیں بدلا
———- Forwarded message ———
From: Charkha Urdu <[email protected]>
Date: Mon, 19 Sept 2022, 13:40
Subject: گھریلو تشدد کی نوعیت آج بھی تبدیل نہیں ہوئی ہے
To:
Respected Editor sahab
Tasleem
I am sending an article on The nature of domestic violence has not changed by our young rural writer Diya Arya from Kapkot, Uttarakhand
So, please find an attachment file and give some space in your newspaper
—
Consultant Editor, Urdu
Charkha Development Communication Network
Contact : 09350461877
Visit: www.charkha.org
Email : [email protected]
Follow us: Facebook || Instagram || Twitter