
10 اکتوبر کی صبح ایک اندوہناک خبر لیکر آئی۔ کئی روز سے دہلی کے ایک اسپتال میں داخل سماج وادی پارٹی کے سرپرست اور نصف صدی سے زیادہ عرصے تک پسماندہ طبقات کی سیاست کا محو ر رہے نڈر اور بے باک لیڈر ملائم سنگھ یادو کا انتقال ہو گیا ۔ملائم سنگھ یادو کا جانا نہ صرف سیاست میں ایک عہد کا خاطمہ ہے بلکہ ہندوستان میں دم توڑتے سیکولرزم کا بھی بہت بڑا خسارہ ہے۔۔ان کو محض 15 سال کی عمر میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی ’ نہر ریٹ تحریک ‘ جو کہ کسانوں کو نہر وں سے آب پاشی کے عوض دی جانے والی رقم میں تخفیف کے لئے تھی جیل جانا پڑاتھا۔طالب علمی کے زمانے میں انہوں نے اسٹوڈنٹ یونین کے صدر کا الیکشن جیت کر اپنے کو مستقبل کا لیڈر ثابت کر دیا تھا۔ان کے ہم جماعت ان کو اسی دور سے ایم ایل اے کہہ کر مخاطب کرنے لگے تھے انہوں نے سخت محنت اور جدوجہد کر کے صوبائی اور قومی سیاست میں اپنا مقام بنایا ۔ وہ تین بار اترپردیش کے وزیر اعلیٰ رہے اور مرکزی وزیر دفاع کے عہدے پر بھی فائز رہے۔۔ 1967 میں انہوں نے اپنے سیاسی گرو نتھو سنگھ کی حمایت سے سنیکت سوشلسٹ پارٹی کے امیدار کی حیثیت سے پہلی بار جسونت نگر سیٹ سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔
1977میں کانگریس کی شکست کے بعد جنتا پارٹی کی مرکز میں حکومت قائم ہوئی ۔ یو پی میں بنے والی جنتا پارٹی کی حکومت میں ملائم سنگھ پہلی بار وزیر مملکت بنے۔۔ 1982 میں اتر پردیش کونسل میں حزب اختلاف کے لیڈر کا عہدہ سمبھالا۔
وی پی سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے دور میں الیکشن کے بعد چودھری اجیت سنگھ وزیر اعلیٰ بنے کے خواہش مند تھے انہیں وی پی سنگھ کی حمایت بھی حاصل تھی لیکن ممبران اسمبلی کی اکثریت ملائم سنگھ کے ساتھ تھی چنانچہ وہ جنتا دل کے لیڈر کی حیثیت سے پہلی بار یو پی کے وزیر اعلیٰ بنے۔یہ وہ دور تھا جب لال کرشن اڈوانی کی رام جنم بھومی کی تحریک عروج پر تھی۔ اور فرقہ پرست عناصر بابری مسجد کی مسماری پر کمر بستہ تھے۔ ملائم سنگھ نے قانون کی بالا دستی قائم رکھنے کے لئے اقدامات کئے۔
1992 میں انہوں نے پرانے سوشلسٹ لیڈروں کو اکٹھا کر کے سماج وادی پارٹی قائم کی۔ لکھنئو کے بیگم حضرت محل پارک میں یہ اجلاس کئی روز جاری رہا۔ بھگوتی پرساد، اعظم خان ،بینی پرساد ورما وغیرہ شانہ بشابہ رہے۔1993 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اگرچہ سماج وادی پارٹی کو مکمل اکثریت تو حاصل نہ ہو سکی لیکن بہوجن سماج پارٹی کی حمایت سے وہ دوبارہ وزیر اعلیٰ بنے۔ لیکن یہ حکومت اپنی مدعت کار پوری نہ کر سکی۔ دیوگوڑا کی قیادت میں یونائیٹڈ پروگریسیو اتحاد U.P.A. نام سے ایک اتحاد کی حکومت بنی جس میں ملائم سنگھ نے وزیر دفاع کے عہدے کاحلف لیا۔ دیوگوڑا کے بعد اندر کمار گجرال وزیر اعظم بنے ۔ بطور وزیر دفاع ملائم سنگھ کا دور حصول یابیوں کا رہا۔ یہ اصول بنا کہ شہید ہونے والے فوجیوں کے جسد خاکی کو ان کے آبائی وطن لایا جائے تا کہ اہل خانہ ان کی آخری رسومات میں شامل ہو سکیں اس سے پہلے یہ رسومات ان کے مذہب کے مطابق سرحد پر ہی ادا کر دی جاتی تھیں۔ اس سیاسی اٹھا پٹک کے دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کے وزیر اعظم بنے کا امکان پیدا ہوالیکن لالو پرساد یادو، شرد پوار اور چندر بابو نائیڈو کے آمادہ نہ ہو پانے کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ اس کا ملال ان کو ہمیشہ رہا۔
2003میں دوسری پارٹیوں کی ٹوٹ پھوٹ نے انھیں ایک بار پھر وزیر اعلیٰ کا منصب سمبھالنے کا موقع دیا ۔2007 کے انتخابات میں ان کی پارٹی شکست سے دوچار ہوئی۔ ان کی پہچان پسماندہ طبقے کی سیاست کرنے والے ایک سیکولر رہنما کے طور پر ہوتی تھی۔2012 میں اتر پردیش صوبائی اسمبلی میں سماج وادی پارٹی کو ایک بار پھر اکثریت حاصل ہوئی لیکن اس بار ملائم سنگھ نے بیٹے اکھلیش یادو کو یو پی کی کمان سونپی۔ملائم سنگھ کی عوامی مقبولیت کا اندازہ ان کی سیاسی حصول یابیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ آٹھ بار صوبائی اسمبلی کے اور پانچ بار لوک سبھا کے ممبر منتخب ہو ئے۔تین بار یو پی کے وزیر اعلیٰ رہے اور ایک بار مرکزی کابینہ میں بطور وزیر دفاع شامل رہے۔ ملک کی سیاست میں اگر ایسے رہنمائوں کا ذکر ہو جن کا مسکن عوام کے دلوں میں رہا ہے تو آنجہانی ملائم سنگھ کو ضرور اس فہرست میں شامل کیا جائے گا۔ وہ زمین سے جڑے لیڈر مانے جاتے تھے۔ اپنی سیاسی زندگی میں وہ نو بار جیل گئے ۔ ایمرجنسی کے دوران بھی وہ جیل میں تھے۔ ان کو نیتا جی، کسان نیتا اور دھرتی پتر جیسے القاب سے نوازہ گیا بلکہ ملک کی تاریخ میں اگر سبھاش چندر بوس کے بعد کسی کو نیتا جی کہا گیا تو وہ شخصیت ملائم سنگھ یادو کی ہے۔ چند سال قبل ان کے ایک بیام کو لی کر کافی تنقید کی گئی تھی جس میں انھوں نر وزیر اعظم نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے دو بارہ وزیر اعظم ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جب کہ در حقیقت وہ اس طرح کے سیاست داں تھے جو سیاسی مخالفین کو دشمن نہ مان کر باہمی احترام اور خیر سگالی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ سیکولرازم کو لے کر ان کا کمٹمنٹ شک و شبہ سے بالا تر تھا۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کو وہ فرقہ پرست مانتے تھے اور کھل کر ان پر تنقید کرتے تھے۔ بابری مسجد کی مسماری اور گجرات کے فسادات میں ان فرقہ پرست تنظیموں کے کردار پر ان کی رائے دو ٹوک تھی۔ انہوں نے سیاسی مفادات کی خاطر کبھی بھی فرقہ پرست پارٹیوں سے مصالحت نہیں کی۔ ملک کی اور خصوصاََ اتر پردیش کی سیاست میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
