تحریر:ڈاکٹر نوید خالد تارڑ
فیس بک و دیگر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایک جعلی دنیا ہی ہیں۔ یہاں کے اعداد و شمار پہ اس قدر انحصار کرنا کہ ان میں رد و بدل آپ کا مزاج خراب کر دے یا آپ کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کر دے کم عقلی ہے، یا پھر یہاں کے لوگوں سے انتہا کی توقعات لگا لینا بیوقوفی ہی ہے۔
ہاں یہ جعلی دنیا اصلی لوگوں نے تخلیق کی ہوئی ہے۔ جتنے اچھے برے کا توازن ہمارے اردگرد موجود لوگوں میں ہے، اتنا ہی سوشل میڈیا پہ بھی ملے گا۔ آپ کو ہیرے جیسے قیمتی لوگ بھی ملیں گے اور کم ظرف، دھوکے باز بھی۔ کس پہ کتنا اعتبار کرنا ہے اور کس سے کتنا فاصلہ رکھنا ہے یہ طے کرنا آپ کا کام ہے اور یہ کام دانشمندی سے کرنا چاہیے۔
سوشل میڈیا کے سب احباب سے غیر ضروری توقعات رکھنا مایوسی کا باعث بنتا ہے۔ ان سے ہر معاملے پہ رائے مانگنا جہالت ہے۔ یہ سمجھنا کہ سوشل میڈیا کے سب احباب آپ کو انتہائی اہم سمجھتے ہیں، آپ کی اپنی ہی کم سمجھی ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ سوشل میڈیا کے توسط سے کسی سے اچھا ذاتی تعلق بن جائے اور آپ دونوں کے درمیان باہمی اعتماد کی فضا قائم ہو جائے۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ یہ باہمی اعتماد کی فضا حقیقی ہو۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے اچھے لوگ ملتے بھی ہیں لیکن سب سے واسطہ کھلی آنکھوں کے ساتھ رکھنا چاہیے اور کوئی بہت اچھا ہو تو بھی ان سے فوراً بڑی بڑی امیدیں نہیں لگا لینی چاہئیں۔
سوشل میڈیا پہ توجہ دینی چاہیے لیکن اتنی نہیں کہ آپ کی اصل زندگی بری طرح متاثر ہو جائے۔ سوشل میڈیا کو اتنا وقت نہیں دینا چاہیے کہ آپ کے پاس اصل زندگی میں موجود رشتوں کو دینے کے لیے وقت ہی باقی نہ رہے۔ اصل زندگی کے معاملات کو متاثر کیے بغیر سوشل میڈیا کو وقت دیں کیونکہ یہاں سے آپ کو نئے لوگ ملیں گے، سیکھنے کو نئی چیزیں ملیں گی۔ رنگ برنگی معلومات ملیں گے۔ لیکن کون سی معلومات میں کتنا جھوٹ ہو سکتا ہے، اس بات کا بھی خیال رکھیں۔ سوشل میڈیا پہ ملی معلومات کو کہیں بھی آگے پھیلانے یا ان پہ یقین کرنے سے پہلے ان کی صداقت کے متعلق تھوڑی سی تحقیق ضرور کرنی چاہیے۔
غرض یہ کہ سوشل میڈیا کا استعمال ضرور کرنا چاہیے لیکن ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے کہ یہ جعلی دنیا ہے اور یہاں پہ موجود کوئی بھی چیز دھوکہ ہو سکتی ہے۔ جس طرح اصل زندگی میں چھان پھٹک کر رابطے رکھے جاتے ہیں، تعلق بنائے جاتے ہیں، احتیاط برتی جاتی ہے، اسی طرح سوشل میڈیا پہ بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
