تحریر:ڈاکٹر سیّد احمد قادری
قومی یوم صحافت کی اہمیت اور افادیت ا س لحاظ سے بڑھ جاتی ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں( 1966 ء ) سے ہر سال 17 نومبر کو پریس کونسل کی جانب سے ا نعقاد اور اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ہمارا ملک دنیا میں سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے ۔ اس لئے اس چوتھے ستون کے تحفظ کے لئے پریس کونسل کا قیام عمل میں آیا تھا۔ آزادیٔ ہند کے بعد پہلا پریس کمیشن 1956 ء میں ملک کے اندر صحافت کی ذمّہ داریوں اور پریس کی آزادی کے لئے ایک کونسل کا تصور کیا گیا تھا ۔ جس کے ذریعہ دس سال بعد یعنی 4 ؍ جولائی 1966 ء پریس کونسل کی تشکیل عمل میں آئی اور باضابطہ 16 نومبر 1966 ء سے جاری کیا گیا ۔ اس وقت سے ہر سال اس تاریخ کو پریس کونسل آف انڈیا کی جانب سے قومی یوم پریس کا انعقاد کیا جاتا ہے اور دوسرے دن یعنی 17 نومبرکو قومی یوم صحافت منعقد کیا جاتا ہے ، جس میں ملک بھر کے ایسے صحافیوں کو جنھوں نے عوام کے درمیان یکجہتی ، اخوت ،امن وآشتی اور بھائی چارگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک میں آزادیٔ اظہار کو برقرار رکھنے میں معاون ہو اور صحافت کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھے نیز ایسے میڈیا حکومت اور عوام کے درمیان ایک پُل کے طور پر اپنی بہترین کاوش سے ملک میں بہتر ماحول تیار کرتا ہے ۔ اس وقت دنیا کے پچاس ممالک میں پریس کونسل قائم ہیں ، کچھ ممالک میں پریس کونسل کو میڈیا کونسل بھی کہا جاتا ہے ۔ دن بہ دن پریس کونسل کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ رہی ہے بکہ موجودہ صحافت میں حقائق کو توڑ مروڑ کر اور سنسنی خیزبنا کر پیش کرنے کی عادت سی ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث صحافتی ذمّہ داریوں میں عدم توازن بڑھتا جا رہا ہے ۔
اپنے ملک کی صحافت کوکل اور آج کے آئینے میں دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اردو صحافت کا کل سنہری تھا اور آج زبون حالی کی شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ملک کی آزادیٔ صحافت کا گراف بہت تیزی سے گرتا جا رہا ہے ۔ اس سال 180 ممالک کے درمیان، ہمارے ملک کی صحافت 150 وین مقام پر پہنچ گئی ہے، جبکہ گزشتہ سال 142 وین پائدان پر تھی ۔ اس سے ملک صحافت کے گرتے معیار اور وقار کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
صحافت کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ صحافت کا مزاج ہمیشہ سے باغیانہ رہا ہے۔اس وجہ یہ ہے کہ اسے عہد غلامی میںہی اسے بلوغت حاصل ہوئی۔ ایسے ماحول اور جبر و ظلم اور حق تلفی کے حالات میں اسے اپنے مظاہر کے جلوہ گری کا موقع ملا ۔
آج صحافت نے عمومی طور پرعوام کے درمیان سے اپنا اعتماد اور اعتبار برقرار نہیں رکھ پا رہی ہے ۔ یوں تو ہر دور میں صحافت کو سیاست دانوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہوئے اس کی حرمت اور عظمت کا پامال کیا ہے ۔ لیکن پہلے ایسے واقعات پہلے نسبتاََ کم ہوا کرتے تھے ۔ ادھر گزشتہ چند برسوں میں صحافت نے جس طرح عوام کے درمیان سے اپنا وقار اور بھروسہ کھویا ہے ، وہ تشویشناک ہی نہیں بلکہ ملک کی تاریخ کا سیاہ باب کے طور پر درج ہو رہا ہے ۔ صحافت کی عظمت ، حرمت اور جرأت پر بھی گہن لگ رہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر جو لوگ متحرک ہیں ، وہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ اس دور کو زردصحافتی دور کہا جا رہا ہے ۔ اس سیاق وسباق میں اگر ہم اپنے ملک کی موجودہ اردو صحافت پر ایک نگاہ ڈالیں تو مذید خوشی ہوتی ہے کہ چند اخبارات و رسائل کو چھوڑ کر بیشتر اردو اخبار و رسائل نے اپنے ملک وقوم کے مسائل کو فوقیت دی ہے اور خصوصیت کے ساتھ جہاں کہیں جانبدارانہ ، عامرانہ،متعصبانہ ، جاگیردارانہ اور غیر منصفانہ رویۂ نظر آیا ۔ اس کے خلاف سینہ سپر ہوتے ہوئے محاذ آرائی کی ہے ۔ گرچہ ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی رہی ۔ پھر بھی اردو صحافت نے اپنے صحافتی فرائض اور ذمہّ داریوں کو فراموش نہیں کیا ہے۔ ہم اس امر سے بھی انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ موجودہ صارفیت کے اس دور میں اردو صحافت بھی عبادت اور ریاضت سے بھٹک کر تجارت کی دوڑ میں شامل ہو گئی ہے ۔ جس کا منفی اثر یہ ہو رہا ہے کہ سرکاری اشتہارات کے لئے بیشتر اخبارات حکومت وقت کی ستائش اور مدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں ۔ دوسر ی منفی بات اردو صحافت کی یہ نظر آ رہی ہے کہ بڑے بڑے تاجرانہ ذہنیت کے غیراردو داں صنعت کار اردو صحافت کی دنیا داخل ہو کر اردو صحافت کے معیار و وقار سے سمجھوتہ کرتے ہوئے منافع کا ذریعہ بنا رہے ہیں ۔
ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جو لوگ بڑے حوصلہ اور عزم کے ساتھ اردو صحافت کی خدمات انجام دے رہے ہیں اور حق وانصاف کے لئے بنرد آزما ہیں ۔ وہ قابل مبارکباد ہیں ۔
آج جب کہ پوری دنیا صارفیت کے چنگل میں ہے۔ پھر بھی کچھ صحافی اپنی پوری ذمّہ داری ، غیر جانب داری ، بے باکی ، بلند حوصلہ اور جرأت مندی کے ساتھ جمہوریت اور اس کے استحکام کے ساتھ ساتھ انسانی اقدارو افکار کے لئے عمل پیرا ہیں ۔ ایسے صحافیوں کی موجودگی سے ، صحافت کی جو اعلیٰ قدریں ہیں ، وہ برقرار ہیں۔ اردو صحافت بھی اپنے شاندار ماضی اور روایت کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے کامیابی اور کامرانی سے ہم کنار ہو سکتی ہے، بشرطیکہ ہمارے ملک میں اردو زبان کے ساتھ سوتیلا پن کا سلوک نہ کیا جائے اور اس کی اہمیت اور ایثار کو یاد رکھا جائے نیز اردو صحافت کو سچ لکھنے کی آزادی میسر ہو اور بقول سابق جج جسٹس کاٹجو حکومت صحافت کو یرغمال نہ بنائے۔ لیکن عصر حاضر کی صحافت بشمول اردو صحافت جس طرح انحطاط کی شکار ہے، ایسے میں ایسی توقع مشکل ہے۔
