
اللہ تعلیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس دُنیاں میی اس کی جگہ متعین کر دی انسان کو اللہ تعالٰی نے عقل و شعور کے ساتھ تخلیق کیا ۔ اسے قوتِ گویائی سے نواز کر دوسرے سب جانداروں میی اسے ممتاز بنایا اس وصف کے بنا پر انسان کو حیوانِ ناطق بھی کہاں جاتا ہے۔ زبان کو انسان ترسیل کے لیے استعمال کرتا ہے وہ اپنےخیالات, احساسات, کیفیات, فکر و سونچ, نشیب و فراز کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے اس کا استعمال روزِ اول سے ہی کرتا آیا ہے, چناچہ اللہ تعلیٰ کی آسمانی کتابیی بشمول قران مجید بھی اس کی ایک عمدہ مثال ہے جو وقتاً فوقتاً پیغمبروں پر اُتاری گئ جو اللہ کا فرمان بنی آدم کو انبیاء کے تواست سے سنایا و پڈھایا کرتے تھے۔
شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدے کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے کا حق بیان کرتا ہے، کہ ہر کسی کو بغیر کسی مداخلت کے رائے رکھنے کا حق حاصل ہوگا اور سرحدوں سے قطع نظر، ہر قسم کی معلومات اور نظریات تلاش کرنے، حاصل کرنے اور فراہم کرنے کی آزادی ہوگی۔ زبانی طور پر، تحریری طور پر یا پرنٹ میں، آرٹ کی شکل میں، یا اپنی پسند کے کسی دوسرے میڈیا کے ذریعے۔ جمہوریت میی میڈیا کو اس وقت تک جمہوریت کا چوتھا ستون نہیی مانا جا سکتا ہے جب تک کہ اس میی شفافیت نہیں ہوگی اور اس دور میں میڈیا کو روزمرہ کی ضرورت سمجھا جاتا ہے کیونکہ دن کا آغاز میڈیا سے ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوتا ہے چاہے وہ اس کا سوشل میڈیا platform ہو یا پرنٹ میڈیا یا پھر الیکٹرانک میڈیا.
ایک جمہوری ملک میی اپنے نظام کو پوری صلاحیت کے مطابق چلانے کے لیے عوام کی شرکت ناگزیر ہے، جس کے لیے یکے بعد دیگرے بڑے پیمانے پر لوگوں کی تعداد تک معلومات کی ترسیل کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام جتنے بھی وسائل کے زریعے سے لوگوں تک ہہنچائی جاتی ہے حرف عام میی اُسے ماس میڈیا کہتے ہیی۔
آج کل تعلیم و سیاست کی مناسبت سے میڈیا پر کچھ ایسے افراد بیان بازی کر رہے ہے جن کو یہ شعور بھی نہیی کہ وہ کیا کہہ رہے ہے بلکہ اگر انسان تمسخر کے پیرایے میی بھی ایسے بیانات پر تبسم کرے تو ایمان ضائع ہونے کا خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے اور کچھ میڈیا چینلز ایسے حواس باختہ افراد کو اپنا پلیٹفارم مہیا کرا کے پروان چڑھا رہے ہے جو کہ ایک غیر شعوری اور غیر اخلاقی امر ہے ایسے افراد یہ دعویٰ بھی کرتے ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں حالانکہ در حقیقت یا تو وہ جھوٹ بھول رہے ہے یا پھر وہ گدھے ہے بلکہ گدھا تو ایک نہایت پیارا اور رزق حلال کھانے والا محنتی جانور ہے لہذا ایسے آدمی کو گدھا کہنا ایک معصوم جانور کی حق تلفی ہے, ایسے افراد کے لیے حکومت نے مخصوص شفاء خانے قائم کیے ہے اگر آپ کو بھی سماج میی ایسے افراد کہی مل جاے تو آپ پر یہ اخلاقی زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ انہیی صحیی مقام پر پہنچا کر ثواب دارین حاصل کریی۔
