
گھریلو تشدد محض اس ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تمام ممالک اس تشویش ناک صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ سماجی طور پر دیکھا جائے تو دنیا کا سب سے سنجیدہ مسئلہ گھریلو تشدد ہے۔کوئی ملک اس سے محفوظ نہیں ہے۔ تمام سماجوں، نسلوں اور طبقات میں یہ عام ہے ۔ مجموعی طور سے دیکھا جائے تو دنیا کی ایک تہائی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔تشدد صرف مارپیٹ کا ہی نام نہیں ہے بلکہ ذہنی طور پر پریشان کرنا بھی ہے۔ کسی کو اس کے حق سے محروم کر دینا بھی تشدد ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سخت قانون ہونے کے باوجود بھی یہ پورے ملک میں ایک وسیع پیمانے پر ہونے والے واقعات ہیں۔اس کی شکار صرف خواتین ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ نوعمر لڑکیاں بھی ہیں۔انہیں تعلیم سے محروم رکھنا بھی ان کے ساتھ تشدد ہے۔ ایسے واقعات بیشتر ملک کے دیہی علاقوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں پڑھنے لکھنے کی عمر میں لڑکیوں کا اسکول چھوڑواکر انہیں گھر کے کاموں میں لگا دیا جاتا ہے۔حلانکہ ان میں پڑھنے کا شوق ہوتا ہے لیکن والدین اس کی اہمیت نہیں سمجھتے ہیں۔انہیں نہیں معلوم کہ ایک لڑکی کے تعلیم یافتہ ہونے سے پورا معاشرہ تعلیم یافتہ ہو جائے گا۔
ملک کے دیگر علاقوں کی طرح یوٹی جموں و کشمیر کے سرحدی علاقہ پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ کے گاؤں سیڑھی چوہانہ میں بھی نوعمر لڑکیوں کے ساتھ تشدد کے ایسے واقعات عام ہیں۔یہاں ایسے کئی گھر ہیں جہاں نوعمر لڑکیاں اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہیں۔تعلیم حاصل کرنے کے ان کے شوق کے باوجود انہیں اس سے محروم کر گھرکے کام میں لگا دیا گیا ہے۔گاؤں کی ایک 17سالہ نوعمرلڑکی حفیظہ بی بتاتی ہے کہ ”میں نے دسویں تک پڑھائی کر کے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے۔ آگے گیارہویں میں ایڈمشن نہیں لے پائی کیونکہ میرے گھر والوں نے مجھے آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ مجھے پڑھائی کرانے کے بجائے گھر کا سارا کام کرواتے ہیں۔ جب میں پڑھنے کا نام لیتی ہوں تو مجھے دھمکی دی جاتی ہے کہ تو گھر کا کام کر، کوئی پڑھنے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پڑھ لکھ کر تُجھے کیا ملے گا؟ گھر کا کام کر ے گی تو تُجھے سسرال میں بھی عزت ملے گی۔ پڑھائی تیرے کام آنے والی نہیں ہے۔ دو چار کام اچھے آتے ہونگے تو اگلے گھر میں قدم رکھ پائے گی۔“
حفیظہ کہتی ہے کہ میری دو اور بہنیں بھی ہیں۔ ایک کا نام رفیظہ بی دوسری صفۃ بی ہے۔ ہم تینوں بہنیں ہی گھر کا سارا کام کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ ہم سب بہنیں بہت دور سے گھاس کاندھے پر اٹھا کر لاتی ہیں۔ لکڑیاں بھی جنگل سے کاٹ کر لانی پڑتی ہیں۔ پانی لانے کے لئے تین کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے۔ پڑھنے کی بجائے ہم یہ سارے کام انجام دیتی ہیں۔ جھاڑو، پوچھا، برتن دھونا، کپڑے دھونا، گھر کی پوری صفائی کرنا، مال مویشی کو چارا ڈالنا، گوبھر ڈالنا، مکی گوڈی کرناوغیرہ ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ حفیظہ کہتی ہیں کہ جب میں باقی لڑکیوں کو اسکول جاتے دیکھتی ہوں تو دل بہت ملول ہو جاتا ہے۔ اس وقت میرے سر پر گوبھر کی کھاری یعنی ٹوکری ہوتی ہے جبکہ اُنکے پاس کتابوں کا بیگ ہوتا ہے۔میرا بھی سپنا تھا کہ میں ڈاکٹر بنوں اور اپنے علاقعہ کے لوگوں کی خدمت کروں۔مگر میرے سارے سپنے ادھورے رہ گئے۔ وہ کہتی ہے کہ میں یہ کبھی نہ سمجھ سکی کہ لوگ گھر کے کاموں کو اہمیت کیوں نہیں دیتے ہیں؟یہ خیال عام ہے کہ گھر کا کام کوئی کام ہی نہیں ہے جبکہ گھریلو کام کاج آسان نہیں ہوتا ہے۔ صاف بات کی جائے تو گھر میں کام کرنے والی خاتون کو ”آلہ دین کا چراغ” سمجھا جاتا ہے۔میرے پاس اس سے بہتر کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ اگر کبھی تعاون کی بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ کام ہی کیاکرتی ہو؟
اس سلسلے میں گاؤں کی نائب سرپنچ جمیلہ بی، جن کی عمر 35 سال ہے، بھی مانتی ہیں کہ ہمارے گاؤں میں لڑکیوں میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔وہ بہت کم تعلیم حاصل کر پاتی ہیں۔تاہم وہ اس کی کئی وجوہات بھی بتاتی ہیں۔ان کے مطابق کہیں کسی گھر کی معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں، تو کہیں گھر والے خودبیدار نہیں ہیں۔جس کی وجہ سے لڑکیاں بہت کم عمر میں ہی گھر کے کام کاج تک ہی محدود رہ جاتی ہیں۔وہ آگ جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرتی ہیں، گھر کے سبھی افراد کے لئے کھانا بناتی ہیں،ان کے کپڑے دھوتیں ہیں، چکی سے آٹا بھی پیس کر لاتی ہیں، دھان کا کام کرتی ہیں اور بہت دور جنگل سے لکڑیاں بھی کاٹ کر لانا بھی انہیں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لڑکیاں ایسے کام بھی سر انجام دیتی ہیں جو زیادہ نمایاں نہیں ہوتے ہیں۔ جس میں بچوں بڑوں کی دیکھ بھال کرنا شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو گھریلو کام کرنے کے دوران میں مردوں کے کاموں میں بھی مدد کرنی ہوتی ہے۔ اس میں پانچ سے نو برس کی عمر میں گھریلو کام کاج پر 30 فیصد اور چودہ برس تک پچاس فیصد اضافہ ہی وقت صرف ہوتا ہے۔
ان کے مطابق لکڑیاں جمع کرنے کے لئے نو عمر لڑکیوں کا باہر جنگل جانا انہیں جنسی تشدد کے خطرے سے دوچار کرتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ آج کے اس دور میں لڑکیاں اپنی تعلیم بھی گھر والوں کے لئے ہی چھوڑ دیتی ہیں۔ گھر والے سوچتے ہیں کہ آج اگر لڑکی اسکول جائیں گی تو راستے میں کئی طرح کی پریشانیاں آئیں گی اور ماں باپ ڈرتے ہیں کہ ہم بد نام ہو جائیں گے۔ اس لیے انہیں ا سکول نہیں بھیجتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک مقامی باشندہ فیض الحسین عمر چالیس سال، نے معاشرے کی تنگ نظری کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لڑکیاں گھریلو کام کرنے کی مشینیں ہیں۔ انہیں اور کسی بھی قسم کا حق نہیں ہے۔کئی جگہوں پر خواتین کو گھر کے کسی بڑے سے بڑے کام میں شریک نہیں کیا جاتا ہے بلکہ پاؤں کی جوتی تصور کیا جاتا ہے۔ان کے فیصلے بھی مرد ہی کرتے ہیں۔انہیں کیا پڑھنا ہے؟ مستقبل میں کیا بننا ہے اس کا فیصلہ بھی خود ایک لڑکی نہیں کر سکتی ہے۔جبکہ وہ بھی ایک جیتیں جاگتیں انسان ہیں۔ کسی کی ملکیت یا جاگیر نہیں ہیں۔وہ کوئی بے جان شے نہیں کہ جسکا دل کرے اُسکے ساتھ بد سلوکی کرے۔فیض الحسین کا خیال ہے کہ خواتین اور لڑکیاں جب تک خود اپنی خاموشی نہیں توڑیں گیں خود اپنی آواز نہیں بنے گیں تب تک ان واقعات میں کبھی کمی نہیں آسکتی ہے۔اس وقت تک معاشرہ اس صف پر اپنی طاقت آزمانا بندنہیں کرے گا۔
سیڑھی جوہانا کی ایک نوجوان لڑکی نام گلناز اختر، عمر 25 سال ہے، ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تشدد کا مطلب جسم کو زخمی کرنا ہے۔ تشدد صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہوتا ہے۔خواتین کے وجود کی بنیاد نظریات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔اسے تعلیم سے محروم کر گھریلو کام کاج کرائے جاتے ہیں۔اس سے ایسے ایسے سخت کام بھی کرائے جاتے ہیں جوایک مرد کے لئے بھی ممکن نہیں ہوتے ہیں۔یہاں پر لڑکیاں گھر بنانے کے لئے پتھر، سیمنٹ اور بجری بھی کاندھے پر اٹھا کر لاتی ہیں۔وہ کہتی ہے کہ آج کل تقریبًا ہر گھر میں خواتین ہر طرح کے تشدد کا شکار ہو رہی ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ معاشی پریشانی ہے اور تعلیم کی کمی بھی۔ چھوٹی چھوٹی عمر میں لڑکیوں سے بھاری کام کروائے جاتے ہیں جو بعد میں بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔وہ سوال کرتی ہے کہ آخر کب تک لڑکیاں یہ ظلم و ستم سہتی رہے گی؟
بہرحال،معاشرے میں خواتین کے مقام کی اہمیت کو کھلے دل اورکھلے ذہن سے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جوان پر تشدد کے لئے اٹھتے ہیں۔خود لڑکیوں کو ان رسم و رواج کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا جو انہیں تعلیم سے محروم کرتی ہیں۔یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا اوارڈ 2022کے تحت لکھے گئے ہیں۔ (چرخہ فیچرس)
