تحریر:عادل فراز
موجودہ عہد میں بین المذاہب مکالمہ کی بے حد ضرورت ہے۔ بعض غلط فہمیوں کا ازالہ صرف اس لئے نہیں ہوپاتا کیونکہ مکالمہ کی فضا سازگار نہیں ہوپاتی۔آج ہندوستان سمیت دنیا میں جہاں بھی مذہبی منافرت کا وجود ہے اس کی بنیادی وجہ عدم مکالمہ او رمذہبی تعلیمات کی افہام و تفہیم کا نہ ہونا ہے۔مسلمانوں نے اس راہ میں بہت کوششیں کی تھیں، مگر بہت جلد فرقہ وارانہ او رمسلکی مسائل نے انہیں ادیان و مذاہب کی افہام وتفہیم سے بے خبر کردیا۔ مسلمانوں نے مسلکی امتیازات کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر کے فتوے دے دیئے، جس کا خمیازہ آج تک عالم اسلام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ ایک مسلک دوسرے مسلک کے نظریات کو بنام امتیازات پیش کرتا، اور اس کی افہمام و تفہیم کی صحیح کوشش کی جاتی۔بے جا تنقید اور تنقیص اہل فکر کے لئے مناسب نہیں۔
اکبر نے مذہبی و مسلکی مسائل میں بحث و مباحثے کے لئے عبادت خانہ کا قیام کیا تھا۔ گویا اس کے نزدیک ادیان و مذاہب اور فرق و مسالک کے نظریات کی افہام و تفہیم عبادت سے کم نہیں تھی۔ مسلمان علماء کے درمیان ہونے والے مباحثے مجادلیو ں میں بدل گئے تو اس نے مختلف مذہبوں کے علماء کو عبادت خانہ میں مباحثے کے لئے دعوت دی۔ ہندوستان میں یہ پہلا ایسا مواقع تھا کہ جب اسلام کے علاوہ دیگر ادیان و مذاہب کی تعلیمات کے لئے کوئی اہم مرکز قائم کیا گیا تھا۔ گوکہ اکبر کے عہد میں ہی یہ مرکز بے راہ روی کاشکار ہوگیا۔ دین الٰہی کی نظریاتی جڑیں عبادت خانہ میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ اگر عبادت خانہ میں مسلمان، علماء فکری بے راہ روی کاشکار ہوکر مناظروں کو مجادلو ں میں نہ بدلتے تو شاید دین الہٰی کا نظریہ جنم ہی نہیں لیتا۔
ہر مذہب میں کچھ آسمانی والہامی کتابیں موجود ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک مذاہب کی الہامی کتاب کو دوسرا مذہب تسلیم نہیں کرتا، لیکن ہر مذہب اس بات کا مدعی ہے کہ اس کی تعلیمات حق اور وہ اللہ کا پسندیدہ ہے۔ اس لئے ہر مذہب کی الہامی کتابوں کامطالعہ اور اس کی تعلیمات کی آفاقیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ہمیں بے راہ او رگمراہ افراد کی ہدایت کافریضہ انجام دینا ہے تو ان کے نظریات کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرنا ہوں گی۔ اگر ہم حق کے متلاشی افراد کے سوالات کے تسلی بخش جوابات نہیں دے سکتے تو پھر ہمیں ان سے بے جا او ربے نیتجہ مباحثہ بھی نہیں کرنا چاہئے۔ عبادت خانہ کے مباحثوں میں مسلمان صرف ا س لئے عیسائیو سے شکست کھاتے رہے کیونکہ انہوں نے بائبل کامطالعہ نہیں کیا تھا،جبکہ عیسائی لاطینی زبان میں قرآن کامطالعہ کرچکے تھے۔ یعنی عہد اکبری تک بائبل فارسی اور عربی زبان میں منتقل نہیں ہوئی تھی۔ او راگر ترجمہ موجود تھا تو ہندوستان کے علماء کی دسترس میں نہیں تھا۔ اس وقت تک شاہی کتب خانہ میں بھی بائبل موجود نہیں تھی، اس لئے عیسائی بائبل کی تعلیمات پرجو استدلال قائم کررہے تھے مسلمان علماء ان سے لاعلم ہونے کی بنا پر عیسائیوں کے سوالات کے معقول جوابات دینے سے قاصر رہے۔ عیسائی پادریوں کاپہلامشن جو وقت دربار اکبری میں وارد ہوا، انہو ں نے سب سے پہلے بادشاہ کی خدمت میں عبرانی، یونانی اور لاطینی زبان میں بائبل پیش کی۔ اکبر نے بائبل کو فارسی میں منتقل کرنے کی ذمہ داری ابوالفضل کے سپرد کی، مگر یہ ترجمہ 1609 ء میں جہانگیر کے عہد میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ 1671 ء میں بائبل کا عربی ترجمہ ہندوستان پہنچا، جس سے مسلمانوں نے بخوبی استغفادہ کیا۔ یعنی عہد اکبر ی تک مسلمان بائبل کی تعلیمات سے بے بہرہ تھے اور خانقاہی نظام نے ان کے ذوق جستجو کو ختم کردیا تھا۔ اکبرکے عہد میں ادیان مذاہب کی افہام و تفہیم اور دیگر زبانوں کی کتابوں کے ترجمہ کے لئے دارالمطالعہ کا قیام بھی عمل میں آیا۔ مہابھارت، بائبل، سنگھاسن بتیسی، حیوۃ الحیوان، اتھرین (چوتھا وید) مہابھارت (مقدمہ ابوالفضل نے تحریرکیا) رامائن، لیلاوتی (حساب کی معروف کتاب) کلیلہ ودمنہ، تاریخ کشمیر (جو سنسکرت زبان میں لکھی گئی تھی، اکبر نے کشمیر سفر کے دوران اس کتاب کو دیکھا او رترجمہ کی ہدایت کی)، تزک بابری، جامع رشیدی، بحر الاسمار، تاجک (ہندوستان میں علم نجوم کی معتبر کتاب)، ہر بنس (کرشن جی کے حالات پر مبنی کتاب) اور معجم البلدان جیسی دوسری اہم کتابوں کے ترجمے کروائے گئے۔ تاریخ نویسی کے لئے مورخین کا بورڈ قائم کیا جس کے تحت تاریخ الفی اور دیگر کتابیں لکھی گئیں۔ اکبر کے بعد بھی دیگر علوم وفنون کی کتابوں کے ترجمے منظر عام پر آتے رہے۔ موجودہ عہد میں بھی ترجمہ کافن ناپید نہیں ہوا ہے بلکہ اچھے اور معنی خیز تراجم سامنے آرہے ہیں، لیکن مدرسوں میں یہ سلسلہ تھم سا گیا ہے۔ مدرسوں میں اسلام کے علاوہ دیگر ادیان و مذاہب کے مطالعہ کے نظام کا فقدان ہے۔ روشن فکری کے لئے ضروری ہے کہ انسان دوسرے فرقے و مذاہب کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرے۔ یاد رہے، ہمارے علماء بیک وقت چاروں فقہوں کے عالم ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ مروجہ علوم پر ان کی گہری نگاہ ہوتی تھی۔ گوکہ ایک انسان بیک وقت تمام علوم و فنون میں مہارت حاصل نہیں کرسکتا، لیکن مروجہ علوم، وفنون سے یکسر ناواقفیت بھی اچھی بات نہیں ہے۔یہ ناواقفیت انسان کو نئے زمانے کے تقاضوں او رعلمی وسماجی پیش رفت سے بے خبر بنا دیتی ہے۔ بے خبری کی بنا پر ہی وہ بدلتے ہوئے زمانے او رعلمی و سماجی ترقیات کا مخالف ہوجاتا ہے۔کبھی اسے نئی ٹیکنالوجی اسلام نظرآئے گی اور کبھی وہ منقلب ہوتے ہوئے سائنسی نظریات کو اپنی کم علمی کی بنا پر برداشت نہیں کرپائے گا۔ شیخ مبارک بیک وقت چاروں فقہوں پر دسترس رکھتے تھے۔
ابوالفضل پر مختلف طرح کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ مختلف علوم و فنون پر دسترس رکھتا تھا۔ عبادت خانے کی بحثوں میں وہ ہر مذہب اور مسلک کی تعلیمات و عقاید کے مطابق گفتگو کرتا تھا۔ عیسائی پادری مونسیراٹ نے اپنی ڈائری میں ابوالفضل کا ذکر کیا ہے او ریہ بتلایا ہے کہ وہ ایک کشادہ قلب اور روشن فکر انسان تھا۔ مختلف مذاہب کی کتابوں کے مطالعہ کی بنا پر ابوالفضل کو کبھی نقطوی کہا گیا او رکبھی اس پر مذہب عیسوی اختیار کرنے کا الزامات عائد کئے گئے،کیونکہ مسلمان علماء اپنی محدود ذہنیت کی بنیاد پر دوسرے مذاہب کی کتابوں کے مطالعہ کو اہمیت نہیں دیتے، اس لئے ابوالفضل ان کے نزدیک ایک معتوب اور مطعون شخصیت کا نام ہے۔ ابوالفضل نے ہندوؤں کے ساتھ بھی مکالمہ قائم کیا تھا۔ اس نے مہابھارت، رامائن اور ہندوؤں کی دوسری مذہبی کتابوں کامطالعہ کیا تھا، او رہندو پنڈتوں کے ساتھ اس کے خوشگوار تعلقات تھے۔ ابوالفضل کے بعد بھی ایسے علماء اور دانشوروں کی کمی نہیں رہی جو مختلف ادیان و مذاہب کی تعلیمات کا علم رکھتے تھے، مگر عصر حاضر میں ایسا نہیں ہے۔
آج بھی ہمیں ایسے علماء کی ضرورت ہے جو دوسرے مذاہب کے ساتھ مکالمہ قائم کرسکیں، اور ان کی الہامی تعلیمات کا علم رکھتے ہوں۔ ملت کو آج بھی علماء پر اعتماد ہے لیکن اس اعتماد کی برقراری کے لئے علما ئے کرام کو مزید کوششیں کرنا ہوں گی۔ نزاعی مباحث کو درکنار کرکے خالص علمی بحثوں کا آغاز کرنا ہوگا۔ قرآنی تعلیمات اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عالمی سطح پر متعارف کرانا ہوگا۔ حالات یقینا بدلیں گے لیکن پہلے ہمیں حالات بدلنے کے لئے مخلصانہ جدوجہد کرنا ہوگی۔
