ویاننتناگیشورن اور اپراجیتا ترپاٹھی
کسی خطے کی اقتصادی حیثیت کی فوری طور پر قابل مشاہدہ ایک شناخت اس کے بنیادی ڈھانچے کا معیار ہوتی ہے۔ اقتصادی ترقی کے ایک محرک کے طور پر، بنیادی ڈھانچے کے اخراجات پر پوری دنیا کی حکومتوں کی طرف سے زور دیا جاتا ہے تاکہ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور سماجی و اقتصادی ترقی کو بہتر بنایا جائے۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ بنیادی ڈھانچے کے اخراجات میں 10 فیصد کا اضافہ وقت کے ساتھ ساتھ جی ڈی پی میں ایک فیصد اضافے کی براہ راست وجہ بنتا ہے۔
سال1999 میں ایشیائی بحران کے تناظر میں عالمی اقتصادی اور مالیاتی امور پر غور و خوض کرنے کے لیےجی 20کی تشکیل کے بعد، یہ سوچا گیا کہ گروپ کی مشترکہ آبادی اور اقتصادی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اس کے دائرہ کار میں بحث کے لیے موضوعات کو بڑھانا چاہیے۔ اس طرح، 2009 میں، گروپ کو لیڈرز کی سطح پر ’بین الاقوامی تعاون کے لیے پریمیئر فورم‘ نامزد کیا گیا تھا۔ بنیادی ڈھانچے کو ترقیاتی ستونوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا گیا، جس کو 2012 کی لاس کیبوس سمٹ میں مضبوطی حاصل ہوئی، جس میں بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری، پیداواری صلاحیت اور معیارِ زندگی کے درمیان مضبوط تعلق پر زور دیا گیا۔
اس کے بعد سے ، اس موضوع میں نہ صرف زیادہ دلچسپی ظاہر کی گئی ہے بلکہ اس نے بنیادی ڈھانچے کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے خاص طور پر فنانسنگ، سرمایہ کاری اور نجی شعبے کی شراکت سے فائدہ اٹھانے کے لیے کام کا ایک بڑا حصہ بھی پیدا کیا ہے۔ سال 2014 میں آسٹریلیا سے باہر گلوبل انفراسٹرکچر ہب (جی آئی-ہب)اور عالمی بینک کی طرف سے گلوبل انفراسٹرکچر فیسیلٹی(جی آئی ایف)کے ذریعے بنیادی ڈھانچے کے لیے ادارہ جاتی تعاون کا قیام عمل میں آیا۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ جیسے جیسے دنیا بنیادی ڈھانچے کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی جانب بڑھی، ترقی کے طریقوں مثلاًپی پی پییا پبلک پرائیویٹ شراکت داری پر زور دیئے جانے کو بھیجی 20میں انفراسٹرکچر ورکنگ گروپ(آئی ڈبلیو جی) کے ذریعہ اختیار کیا گیا۔ اب یہ بات اچھی طرح سے تسلیم شدہ ہے کہ دنیا بھر میں بنیادی ڈھانچے پر بڑے سرکاری اخراجات کے باوجود، مزید ترقی کے لیے مختلف مالیاتی ذرائع – نجی شعبے، کثیر جہتی اور دو طرفہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی مشترکہ کوشش کی ضرورت ہوگی۔ مالیاتی ذرائع متنوع ہونے چاہئیں اور نجی شرکت کے لیے ماحول کو سازگار بنایا جانا چاہیے۔ ترکی، چین اور جرمنی کی یکے بعد دیگرے آنے والیصدارت میں اس کا بخوبی فائدہ اٹھایا گیا۔ بنیادی ڈھانچے کو ایک علیحدہ اثاثہ کلاس کے طور پر تسلیم کرنے کی ضرورت پر 2018 کیارجنٹینا کی صدارت میں زور دیا گیا تھا۔ اس وقت سے، جی 20نے مختلف طریقوں مثلاً معیار کے اشاریئے، باخبر فیصلہ سازی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال اور نجی شراکت میں اضافہ کے ذریعہ بنیادی ڈھانچے میں پائیداری کو شامل کرنے پر زور دیا ۔
سال2022 میں ہندوستانی صدارت کو اختیار سونپے جانے کےساتھ ، بنیادی ڈھانچے کے ایجنڈے کو ’واسودھیو کٹمبکم‘ یا ایک دنیا، ایک مستقبل کی عینک سے دیکھا جارہا ہے۔آئی ڈبلیو جی میں ہندوستان کا نیا تعاون ’کل کے شہروں کی مالی اعانت‘ کی اہم ترجیح ہوگا، جس پر پہلے کبھی خصوصی طور پرجی 20میں توجہ نہیں دی گئی تھی۔
سال 2050 تک، دنیا کی تقریباً دو تہائی آبادی شہری علاقوں میں رہے گی، اس لیے اگلی نسل کی شہر کاری کی لہر براعظموں تک ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میںپھیلے گی۔ شہرکاری اور جی ڈی پی کے درمیان مضبوط تعلق کی وجہ سے اس میں عالمی نمو کو نمایاں طور پر تیز کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔چونکہ شہروں میں 80فیصد سے زیادہ جی ڈی پی پیدا ہوتا ہے، اس لئے اچھی طرح بندوبست کئے جانے اور پائیدار سمت بندی کی صورت میں شہر کاری بہترین ثابت ہو سکتی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں، ہندوستان نے اربن شہروں میں شہری سہولیات کی وافر فراہمی کی پالیسی کے ذریعے کام کو آگے بڑھایا ہے، چاہے وہ پردھان منتری آواس یوجنا (پی ایم اے وائی)کے تحت مکانات کی تعمیر ہو، صفائی ستھرائی (سووچھ بھارت)ہو، پینے کا پانی (ہر گھر جل) ہو ، شہری بنیادی ڈھانچے میں نئی جان ڈالنا (امرت) ہو ، عوامی آمد و رفت کے متبادل ذرائع مثلاً میٹرو-بی آر ٹی ایسوغیرہ ہو، یا ٹیکنالوجی پر مبنی سٹی اپ گریڈیشن (اسمارٹ سٹی) وغیرہ ہو۔
تاہم، آگے بڑھتے ہوئے، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کو ایسے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے جس پر دنیا کے کسی ملک نے ابھی تک توجہ نہیں دی ہے۔ ممالک کی نیٹ زیرو عہد بندیوں کے پیش نظر، شہری اور مالیاتی لچک پر آب و ہوا کے تباہ کن اثرات اور مستقبل کے شہروں میں رہنے والے لوگوں کے متنوع پول کے پیش نظر، کل کے شہروں کو پائیدار، لچکدار اور شمولیت والا بنایا جانا چاہیے۔
چونکہ پنے اس جنوری میں آنے والے ہفتے میںجی 20کی ہندوستان کی صدارت کے تحت پہلیآئی ڈبلیو جی میٹنگ کی میزبانی کے لیے تیار ہے، ہمیں اپنے آپ کو یہ یاد دلانے کا ایک اچھا موقع ہے کہ مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے، شہروں کو خود کفیل، خود اعتماد اور مالی طور پر بااختیار شہروں کی شکل اخیتار کرنی چاہیے ۔ میونسپل انتظامیہ کو نہ صرف شہروں کے لیے حکمت عملی کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے بلکہ اِس ویژن کو حقیقت میں بدلنے کے لیے وسائل بھی تلاش کرنے چاہئیں۔
پنے یونیورسٹی میں شہری نظم و نسق کے میونسپل کمیشنرز پر تکمیلی مذاکرات پہلی آئی ڈبلیو جی میٹنگ کے ساتھ ہوں گے۔ کل کے شہروں کے لیے مالی امداد کے چیلنجوں اور حکمت عملی کے ارد گرد ایک اور ایونٹ کی میزبانی اےڈی بی کرے گا۔ اس میں شرکت کرنے والے مقررین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس موضوع پر قابل قدر بصیرت شیئر کریں گے کہ کس طرح ممالک آبادی کے مختلف طبقات کی ترجیحات کو پورا کرتے ہوئے پائیدار شہری ترقی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
اس سال کی صدارت کے ذریعہ پیش کردہ آئیڈیل کی جانب بڑھتے ہوئے دنیا کے لئے قدیم ترین بلڈنگ بلاکس یعنی شائستگی کے ساتھ نفاذ، علاقائیت کے ساتھ توسیع ، تقسیم کے ساتھ مربوط بنیادی ڈھانچے کی طرف واپس توجہ مرکوز کرنے سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے؟
(وی. اننت ناگیشورن اور اپراجیتا ترپاٹھی حکومت ہند کی وزارت خزانہ میںبالترتیب چیف اکنامک ایڈوائزر اور کنسلٹنٹ ہیں۔ یہاں پر جن خیالا ت کا اظہار کیا گیا ہے وہ ان کے ذاتی خیالات ہیں)۔
