تحریر:فاضل شفیع فاضل
سوشل میڈیا ایک ایسا الہ ہے جو لوگوں کو اظہار رائے، تبادلہ خیال، تصویر اور ویڈیو شیئر کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا سائیٹس میں زیادہ تر لوگ فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا ہمارے لیے ضروریات زندگی کے ساتھ وقت کی مجبوری بن چکی ہے۔ مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا ہر کوئی سوشل میڈیا کے فن سے بخوبی آگاہ ہے اور اس کا استعمال کرنا جانتا ہے۔ حالانکہ اس کے بہت سارے فوائد کو ہم نظر انداز تو نہیں کرسکتے لیکن ساتھ میں ہی اس کے نقصانات سے منہ پھیرنا بھی کم عقلی ہوگی۔
اگر ہم بات اپنی وادی کشمیر کی کریں تو یہاں سوشل میڈیا خاص کر فیس بک اور یوٹیوب کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں کا بچہ بچہ فیس بک اور یوٹیوب سے باخبر ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ سوشل میڈیاخاص کر فیس بک ایسی جگہ ہے "جہاں آپ کے درد کو بھی لائک کیا جاتا ہے” ۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں شوہر اور بیوی کے نجی معاملوں کو عوام کے سامنے ڈالا جاتا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں چند لوگ منصف بن کے بیٹھے ہیں۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو سوشل میڈیا کی اصلیت سے بالکل بے خبر ہیں۔ ان میں سے چند لوگ اپنے آپ کو صحافی کہتے ہیں، بعض لوگ سماجی کارکن ہیں اور ساتھ میں ہی فیس بک مولوی بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان لوگوں کو سماج سے کوئی ہمدردی نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کا اصل مقصد اپنی اپنی یوٹیوب اور فیس بک چینلوں کو فروغ دینا ہے۔
ایک عجیب بات جو میں نے فیس بک پہ دیکھی ہے وہ یہ ہے کیا آپ کی تحریر اور ویڈیو کتنی بھی عمدہ اور نصیحت آموز کیوں نہ ہو، اس کو بہت کم تعداد میں لوگ پڑھیں گے اور دیکھیں گے اور اس کے برعکس معمولی اور فحش چیزوں کو کثرت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے جس کی مثال حال ہی میں درزی کا ویڈیو ہے۔ انسان غلطیوں کا پتلا ہے۔ یہاں کوئی فرشتہ نہیں ہے اور کسی کے عیب کو چھپانا اللہ کے نزدیک بہترین عمل ہے بقول شاعر:
اگر بے عیب چاہو تو فرشتوں سے نباہ کر لو
میں آدم کی نشانی ہوں خطا میری وراثت ہے
یہ بہت ہی بد قسمتی کی بات ہے کشمیر میں خاص کر فیس بک پر عموماً فحش اور جعلی ویڈیوز کو کثرت کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے اور آگ کی طرح پھیلا جاتا ہے۔ ان فیس بک کرداروں کو بس خبر ملنی چاہیے پھر پوچھو ہی مت کیسے کیسے ویڈیوز آتے ہیں۔ کسی کے دکھ درد کا تماشہ بنا دیا جاتا ہے اور کسی کی غلطی کو ایسے اچھالا جاتا ہے کہ وہ سماج میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ بے سہاروں سے ویڈیو بنانے کا کمیشن لیا جاتا ہے گویا آجکل پیسہ کمانے کا آسان ذریعہ فیس بک اور یوٹیوب ہے جہاں کسی ڈگری کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس حد تک ہمارا ضمیر مر چکا ہے کہ اب(Reaction Videos) کا نیا عمل وجود میں آیا ہے یعنی کسی کی رسوائی کا سرعام تبصرہ کرنا اور ہم ایسی ویڈیوز کو پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔
سوشل میڈیا کا ایک اور سرگرم طبقہ یہاں کی فیس بک مولوی ہیں۔ دین اسلام کے خیر خواہ سمجھنے والے، اسلامی کتابوں کا مطالعہ کیے بِنا اپنا فتوی جاری کر دیتے ہیں اور ان کا بھی اصل مقصد اپنی چینلوں کو فروغ دینا ہی ہے۔ ایک واعظ کا فرض سماج کی اصلاح ہے لیکن بے حد افسوس کی بات ہے کہ اسلام جیسے مقدس دین کو بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ کوئی توحید کے نام پہ تو کوئی صوفیت کے نام پہ اس پلیٹ فارم کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ اور حد تو تب ہوگی جب ایک فیس بک مولوی نے کوا کھانا بھی حلال قرار دیا۔ ہمارا سماج اصلاح کے بجائے فرقہ پرستی کی طرف مائل ہو چکا ہے:
دین سے دور فرقوں میں بٹ گئے واعظ
روشن میری وادی میں توحید کی فضا نہ ہوئی
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو یقیناً ہماری نوجوان نسل کا مستقبل اندھیرے کی طرف جارہا ہے۔ ان سب چیزوں کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ کیا کبھی ہم نے خود سے پوچھنے کی زحمت کی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ یہاں کی سرکار کو بھی جوانوں کے مستقبل کا کوئی خیال نہیں ہے۔ خود ساختہ فیس بک صحافیوں، سماجی کارکنوں اور مولویوں کے خلاف آواز اٹھانا اب وقت کی ضرورت بن چکی ہے اور ہم سب کو مل کر ان کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی ہے۔ ان لوگوں کو ہم سے کوئی ہمدردی نہیں ہے بلکہ یہ لوگ ہمارے دکھ، درد، رنج و الم سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ لوگ دینِ اسلام کے حامی نہیں ہیں بلکہ لوگوں میں فتنے برپا کرنا ان کا اصل مقصد ہے۔ یہاں کے تعلیم یافتہ اور ذی شعور جوانوں کا فرض بنتا ہے کہ عام لوگوں کو سوشل میڈیا کے نقصانات سے آگاہ کریں اور ان کے ذہن میں یہ پیوست کریں کہ سوشل میڈیا کو محدود اور نہایت ہی محتاط طریقے سے استعمال کرنا ہی سمجھ داری ہے۔
در اصل ہم سوشل میڈیا کے قیدی بن کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور ہم سب کو اس قید سے نکلنا ہوگا۔ اس پلیٹ فارم کو محدود اور محتاط طریقے سے استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خود غرض فیس بک کرداروں کی پہچان کر کے ان کا بائیکاٹ کرنا اب موجودہ وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سوشل میڈیا کی بدولت ہمارے جوانوں اور بچوں کا مستقبل تاریکی میں چلا جائے۔ آج سے وعدہ کرتے ہیں کہ فیس بک اور یوٹیوب پر آئے دن ایسی ویڈیوز کو نظر انداز کرکے سوشل میڈیا کو محض تفریح اور مستند اور نصیحت آموز باتوں کو سیکھنے تک ہی محدود رکھیں۔۔
