تحریر: منتظر مومن وانیاگرچہ ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ تعلیم سے ہی ایک قوم میں ہر طرح کی ترقی ممکن ہے لیکن پھر بھی وطن عزیز میں یہ عقیدہ کمزور ہوتا جارہا ہے.ریاستی یا ملکی امتحانات میں چند طالب علموں کی کامیابی ہمارےتعلیمی شعبے کے ترقی کا ثبوت نہیں ہے. معروف سیاحتی مقام گلمرک کے دامن میں خوبصورت علاقہ کنزر,جہاں حسن و خوبصورتی کے لحاظ سے مشہور ہے وہی پر اس علاقے نے کئی نامور شخصیات کو بھی جنم دیا ہے. تحصیل کنزر میں بہت پرائیوٹ تعلیمی ادارے طویل وقت سے کام کرتے ہیں اور کئی اداروں نے ماضی میں خوب خدمت انجام دی ہے.جہاں وقت کا ہر خیال پیسوں کا شکار ہوا وہی پر تعلیم بھی تجارت کے ترازو سے اب تولی جاتی ہے. اگرچہ کنزر علاقے میں متعدد پرائیوٹ ادارے اور کوچنک مراکز کام کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہر سال ملک کے میڈیکل,انجینرنگ اور دیگر امتحانات میں کسی بچے کا نام کامیابی کے صفحے پر نہیں ہوتا ہے.ہمارے تحصیل سے غریب والدین اگرچہ خون پسینے کی کمائی سے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں لیکن پھر بھی ناقص تعلیمی صورتحال سے ساری امیدیں بے معنی ثابت ہوتی ہے. یہاں کے کئی اسکولوں کا اگر تحقیق جائزہ لیا جائے تو ان کے منیجنگ باڈی میں کوئی تعلیمی مزاج کا مالک بندہ کام نہیں کرتا ہے. بلکہ اس کاروبار کو فقط تجارتی فنکاروں نے سنبھالا ہے. والدین انگلش میڈیم میں انگلش زبان کو سیکھنے کے غرض سے داخل کرتے ہیں لیکن یہاں کی گنگا ہی الٹی بہتی ہے اور یہاں کے اکثر بچوں کو دسویں جماعت میں بھی انگلش کے دو حروف بولنے کو نہیں آتے ہیں. والدین بھی غفلت کی نیند میں محو عمل ہے اور اس درد کا کوئی ترجمان ہی نہیں. آج تک کوئی محاسبہ نہیں ہوا اگر ہوا تو فقط فیس اور رقومات کا. بچوں کی تعلیم انتہائی خراب ہے اور مختلف مکتب فکر کے نام پر چلنے والے اسکول بھی دھوکہ دے کر غربا کے بچوں کے مستقبل کو تباہ کرتے ہیں.یہاں کے تعلیمی صورتحال کو دیکھ محسوس ہوتا ہے کہ بچوں میں سائنسی جنون نہیں ہے. اگرچہ یہاں کے بچے باصلاحیت ہے لیکن تعلیمی اداروں میں موجودہ تعلیمی مسائل سے لڑنے کا ہنر نہیں ہے یا شوق نہیں ہے. والدین بچوں کو ان اسکولوں میں اس امید سے داخلہ کرتے ہیں کہ بچے ہر امتحان کے اہل بن جائیں گے لیکن صورتحال بلکل برعکس ہیں. ہر سال گلمرگ سے نییٹ امتحان میں صفر کے برابر نتائج آتے ہیں. ہر گاوں میں صبح اسکول گاڑیوں کا قطار نظر آتا ہے. چند اسکولوں کا بڑا نام ہے لیکن حرف آخر میں کچھ حاصل نہیں.پرائیوٹ اسکول انتظامیہ کو ہر چیز میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اس سے پہلے والدین مکمل بیدار ہوجائیں. غریبوں کے بچے تباہ ہورہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں. بڑے ناموں سے چلنے والے یہاں کے اسکولوں سے فارغ بچے دسویں کا امتحان دے کر ہی ہوٹل میں مزدوری کے لئے جاتے ہیں کیونکہ ان شگوفوں کو مکمل تیار نہیں کیا جاتا ہے.بہرحال والدین کو آگے آنا چاہیے ورنہ صورتحال انتہائی خراب ہیں. جس امید میں والدین ہے وہ ایک فضول امید ہے کیونکہ یہاں کی تعلیم تجارتی صورتحال اختیار کرچکی ہیں.بچوں میں انگریزی یا دیگر زبانوں کا فہم بیدار نہیں ہے. اور سائنسی طور بھی ہمارے بچے ناقص ہی نظر آتے ہیں. آو مل کر علاقے کی تعلیمی صورتحال کا جائزہ لے کر تعلیمی تجارت کو نہیں بلکہ حقیقی تعلیم کو فروغ دیں گے.
