
2019کے بعد جموں وکشمیر میں تب سے افراتفری مصائیب ومشکلات کا دور شروع ہواتھا۔تاوقت ہر اے روز نئے سے نئے مصائیب سے عوام جھونج رہی ہے۔ جموں وکشمیر کی لاوارث عوام ہوچکی ہے۔ کہیں پر بھی کوئی بھی اس غریب کی نہ ہی سن رہاہے۔اور نہ ہی انتظامیہ کی جانب سے مصیبت کے توڑے جانے والے پہاڑ سے اس عوام کو قبل از وقت باخبر کیاجاتاہے۔ جس سے عوام کی راتوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ فکروغم میں خون سوکھ رہا ہے۔ پنچائیت سے لیکر پارلیمنٹ تک انتظامیہ کی ایک ہی آواز ہے۔ کہ غریبوں کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ لیکن جب ریاست بھر میں افراتفری کا ماحول دیکھاجاتاہے۔ بزرگ خواتین نوجوان بچے سب روتے چینختے بے یارومددگار نظر اتے ہیں۔اور سرکاری بلڈوز دھڑلے سے ان کے آشیانوں کو مسمار کرتااور اجاڑ کرتانظر اتاہے۔ تو کسی تاریخی مسلح ظلم وستم کی داستان نظر اتی ہے۔ ہاے افسوس اس وقت جموں وکشمیر میں ایک طرف سردی عروج پر برف باری کا پرشباب موسم دوسری جانب سے انتظامیہ کی تابڑ توڑ عوام کے خلاف کاروائی قیامت صغرہ سے کم نہیں ہے۔ ہمارے قائیدین کوئی ضلع ترقیاتی کمشنر کو ملکر تو ڈویزنل کمشنر کو ملکر اپنی روداد سناتا ہے۔ کو لفٹنٹ گورنر تو کوئی گورنر کے مشیروں کی منت سماجت میں وقت برباد کررہاہے۔ کوئی مرکزی سرکار کے یہاں ریاستی قوم مذہب علاقہ اور قبیلوں میں بانٹ چھانٹ کرنے والے کارندوں کے تلوے چاٹ رہے ہیں۔ یقین دھیانی اور تھپتھپی کچھ اس طرح دی جاتی ہےکہ گویاان کے جیسا عوام دوست ترقی اور حوشحالی کا دلدادا کوئی اور ہےہی نہیں۔دن کو یہ وعدے عہد اور یقین دھیانیاں اور راتوں رات انتظامیہ کے چھوٹے افسران اور ملازمین کے نام حکم نامے جاری کردیے جاتے ہیں۔ یا کہ کاروائی کرنے کی گھنٹی بجادیتے ہیں۔ اور دوسرے روز،جب نوٹس نکلتے ہیں تو غریبوں کے خیموں میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ سوچ ووچار میں پڑ جاتے ہیں۔ نہ کھانانصیب ہوتاہے۔ نہ سونانصیب ہوتاہے۔ بس یہ ڈر ہےکہ کس وقت وہ بلڈوزر آجاےگا۔ اور ہمیں کھلے آسمان تلے چھوڑ کر ہمارے آشیانے توڑ دے گا۔ کیوں کہ جموں وکشمیر میں گزشتہ کئی سال لوگ دہشت گردی کا دوررہاہے۔ اس وقت یہاں دیہاتوں سے غریبوں نے خود کو اور اپنے بیوی بچوں کو یہاں غیر محفوظ سمجھ کر کہیں سڑکوں کے کنارے تو کہیں شہروں کے قریب مرلہ دو مرلہ تین مرلہ جگہ خرید کر کہیں محنت مزدوری کرکے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ اگر چہ یہ جگہیں سرکاری اراضی ہے۔ یاکہ روشنی ایکٹ کے تحت اندارج ہے۔یاکہچرائی ہے۔ پر ہے تو ان غریبوں نے خرید کر لی ہوئی ہے۔ اور وہ بھی ایسے نہیں بلکہ اپنی ملکیتی زمین بیچ کر خریدی گئی ہے۔لیکن اب ان پردوسری قیامت یہ ٹوٹ پڑی کہ اب یہاں سے آشیانے توڑنے کے مدلل منصوبے ترتیب دیے جاچکے ہیں۔ اب اگر یہی ہیں اچھے دن تو ان سے برے دن کیسے ہونگے؟ حقیقت تو یہ ہےکہ اس وقت جموں وکشمیر کی عوام سنگین دور سے گزررہی ہے۔اور جنت بینظیر مکین اب لاچارولاوارث ہی نظر ارہےہیں۔وہ اس لئے ہمارے قائیدین بھی اس وقت محصور ہیں۔لفظ نکلنے کی دیر ہےکہ پھر ان کی خیر نہیں! تبھی تو اپنی اپنی ڈیڑ اینچ کی مسجد بناکر سارے قائید ہمارے متولی بنے بیٹھے ہیں۔اب ان کی حسرتیں دل میں ہی دبی رہ گئیں کیوں کہ اقتدار میں اس وقت جو ہے۔وہ اپنے من کا کرنے کی قسم کھاچکاہے۔
