
ہمارے سماج میں بہت سارے مسائل ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلہ ایسا ہے جو دوسرے بہت سارے مسائل کو جنم دیتا ہے اور یہ مسئلہ بےروزگاری کا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق کشمیر میں بہت سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ طلاب بےروزگار ہے۔ سرکاری ادارے ہوں یا نجی دفاتر، بیشتر اعلیٰ اذہان نوکری کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اپنی حاصل کردہ ڈگریوں کو وہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ محنت سے کمایا ہوا پیسہ، طاقت اور دوسرے وسائل کو بروئے کار لاکر نوجوانوں نے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کی تھی،مگر اب حالات ایسے ہیں کہ وہ اپنا پیٹ بھی نہیں پال سکتے ہیں۔ ان جوانوں کی زندگیوں میں کیا بیت رہی ہے، صرف وہی جانتے ہیں۔ اپنی فکر، ماں باپ کی فکر، بھائی بہنوں کی فکر اور سماج کے توقعات پر کھرا اترنا، ایک جوان کو چین سے جینے نہیں دیتے ہیں۔ کب تک ایک جوان ماں باپ کی کمائی پر پلتا رہے گا؟ کب اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا خواب پورا ہوگا؟ کب وہ اپنی کمائی سے ماں باپ کو خوش کرے گا؟
ایسے کتنے سوالات ہیں جو آج کے نوجوان کی زندگیوں کو بد سے بدتر بنا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ اب مایوسی اور ذہنی تناؤ کی شکلوں میں نکل کے آیا ہے۔ مستقبل کی فکر نوجوان کو کھائی جارہی ہے۔ ایک فارم کو بھرنے کے لئے پانچ سو روپے وہ ماں باپ سے لیتا ہے۔ اب جہاں فارم بھرنا ہے وہاں تک جانے کے لیے بھی کرایہ والدین سے لیتا ہے۔ امتحان کے دنوں بھی کرایہ کا خرچہ والدین کے کندھوں پر ہوتا ہے۔ پھر جب نتائج آتے ہیں تو وہ امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کے پاس رشوت اور اثرورسوخ ہوتا ہے۔ ہاں اگر غریب جوان امتحان میں کامیاب بھی ہوتا ہے، مگر نتائج آنے کے بعد امتحان کو ہی رد کیا جاتا ہے کیونکہ امتحان دھاندلیوں کا شکار ہوا تھا۔ تو اس صورتحال میں اب یہ امید لگائے بیٹھنا کہ نوجوان اپنی توانائیاں کارآمد کاموں میں صرف کرے گے،ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ میری رائے کے مطابق اس جیسے امتحانات میں اپنا وقت اور توانائی لگانا، دونوں ضائع ہے۔
حال ہی میں چھ لاکھ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے 1800 اکاؤنٹ اسسٹنٹ آسامیوں سمیت 10 ہزار درجہ چہارم ملازمتوں کے لئے درخواستیں دی ہیں، جس سے جموں وکشمیر میں بے روزگاری کا پتہ چلتا ہے، حکومت ہند کو ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگارنوجوانوں میں مایوسی کی سطح کا تصور کرنا چاہئے۔ حالیہ سروے کے مطابق 2.5 لاکھ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان جس میں پی ایچ ڈی اسکالر، ایم فل طلبا اور پوسٹ گریجویٹ شامل ہیں، نے گزشتہ برس محکمہ روزگار کی طرف سے جموں وکشمیر میں بے روزگار افراد کی تعداد کا پتہ لگانے کے لئے شروع کی گئی مہم کے دوران اپنا اندراج کرایا ہے اور اس میں وہ کثیر تعداد میں گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ شامل نہیں ہیں جنہوں نے اپنا رجسٹریشن نہیں کرایا تھا۔
ہم نے اسی حوالے سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جاوید احمد ڈار ولد محمد سبحان ڈار سے بات کی جن کا تعلق بارہمولہ کے چندوسہ علاقے کا ہے، انہوں نے کہا میں نے اپنا ایم اے بی ایڈ سال 2017 میں مکمل کیا تھا، لیکن کہیں ملازمت نہیں پا سکے۔ درجنوں فارم اور امتحانات میں حصہ لیا لیکن اگرچہ میں نے بہت بار امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی، لیکن کہا گیا کہ اس امتحان میں دھاندلی ہوئی ہے اور امتحان کو رد کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی بار پیسے اور اثر رسوخ والوں کو ہی جگہ ملی، ہم تو غریب تھے ہمارے پاس وہی فارم بھرنے کے پانچ سو روپے تھے، اس کے بعد میں نے ریڈی پر سبزی بیچنا شروع کر دیا کیوں کہ میں گھر والوں پر بوجھ بننا نہیں چاہتا تھا، آخر کار میں ایم اے بی ایڈ ریڈی والا بن گیا۔اس کے ساتھ ایک اور بے روزگار تعلیم یافتہ فرد سے بات چیت ہوئی جس کا نام سجاد احمد لون اور ان تعلق سوپور سے ہے، ان کا بھی ایسا ہی کچھ حال تھا، تین مضامین سے ایم اے کر چکے ہیں لیکن نوکری انہیں بھی نہیں مل سکی۔ انہوں نے ڈھابے پر ویٹر کی نوکری شروع کر دی۔ جاوید اور سجاد جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ بےروزگار جوانوں کی مثالیں آپ کو ہماری ریاست میں لاکھوں دیکھنے کو ملیں گی، لیکن کوئی ان ہونہار طالب علموں کی روداد سننے کو تیار نہیں۔
بے روزگاری ایک ایسی لعنت ہے جو اپنے ساتھ دوسری بہت سی مصیبتیں لے کر آتی ہے۔ بے روزگاری، مفلسی، بھوک اور بیماری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان کا اثر ایک طرف تو بے روزگار شخص اور کنبے کے تمام افراد کی جہالت، بد حالی اور پریشانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ، دوسری طرف بے روزگاری اور غریبی کی وجہ سے طرح طرح کی اخلاقی اور سماجی برائیاں پیدا ہوتی ہیں جیسے عصمت فروشی، چوری، ڈاکہ زنی، بے ایمانی کے واقعات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ان جرائم کا ایک بڑا سبب بے روزگاری اور مفلسی ہوتی ہے۔ بے روزگاری کے انفرادی اور سماجی نقصانات کے علاوہ سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ بے روزگاری کا اثر ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ دنیا کی نظر میں وہ ملک پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے جو اپنے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو نوکریاں بھی فراہم نہیں کر سکتا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بیروزگاری کا مطلب ہے ملک کے تعلیمی منصوبوں سے جو ملک کو ترقی اور فائدہ ہونا چاہیے تھا وہ سب بیکار اور ضائع ہو رہا ہے۔
اگر جموں و کشمیر میں بھی نجی سیکٹر کو فروغ دیا جاتا اور بڑے بڑے کار خانے لگائے جاتے ، تو بھی بے روزگاری پر قدغن لگائی جاسکتی تھی۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت اس ضمن میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں زیادہ سے زیادہ نوکری کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ سیاسی یا مذ ہی مسائل کو نظر انداز کر کے پوری انسانیت کی ترقی کے بارے میں سوچے ۔ اگر ہم سبھی واقعی جوانوں کی موجودہ صورتحال کی طرف سنجیدہ ہو جائیں تو ہمیں جلد سے جلد کوئی حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ ہم ریاست جموں و کشمیر کے جوانوں کو ایسے ہی مایوسیوں کے دلدل میں جاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ میری دعا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر سے ایک بار غربت کا خاتمہ ہوجائے، اللہ تعالیٰ ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں اور جوانوں کو روزگار عطا فرمائے، اور پھر کوئی بھوک کی وجہ سے اپنے بچوں سمیت خود کشیاں نہ کرے۔اور ہمارے ملک سے غربت کو ختم کرے، اور ہمارے مسلمان بہن بھائی بزرگ بچے سکون و راحت کی زندگی بسر کریں اور ان کی آنکھوں میں سجے سب خواب پورے ہوسکیں: آمین
