
سال 2004میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس ، جسٹس آر سی لاہوتی نے مرکزی وزارت قانون کو عدلیہ میںآن لائن سروسز متعارف کرانے کے لئے ای کمیٹی قائم کرنے کو کہا جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے اگست2005میں ’نیشنل پالیسی اور ایکشن پلان‘ترتیب دینے کیلئے سابقہ کارگذار چیف جسٹس کیرلہ ہائی کورٹ ڈاکٹر جی سی باروکاکی سربراہی میں سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اکتوبر2005کو اِس پالیسی کو سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس نے لانچ کیا۔ سال 2007میں ای کورٹس کے لئے انٹی گریٹیڈ مشن موڈ پروجیکٹ مرحلہ اول لانچ کیاگیا۔ دوسرے مرحلہ کے تحت انڈرٹرائل ملزمان کی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے پیشی اور ویڈیو کے ذریعے گواہان کی جرح کے تصور کو متعارف کیاگیا۔ اگر چہ 2007-08میں یہ عمل شروع ہوا لیکن موثر طریقہ سے 2015کے بعد اِس پرعملدرآمدشروع ہوا۔ اِس غرض سے ضابطہ فوجداری کی دفعات167(2)(b), 161(3)اور164(1)میں مطلوبہ ترامیم کی گئیں ۔مہاراشٹراسرکاربنام ڈاکٹر پروفول دیسائی میں پہلی مرتبہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے گواہ کا بیان قلمبند کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا جس پر عدالت ِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد273ضابطہ فوجداری(CrPC)کی وضاحت سے ایک Precedentقائم کردیاگیا۔ 275ض ف میں بھی ویڈیو کانفرنس متعلق مطلوبہ ترمیم کی گئی۔ پہلی مرتبہ عبدالکریم تیلگی جس کے خلاف متعدد عدالتوں میں مقدمات زیر ِ سمات تھے ، کا ویڈیو کانفرنس کے ذریعے مکمل ٹرائل کا تجربہ کیاگیا۔
ویڈیو کانفرنس کے ذریعے قیدیوںکی پیشی، جوڈیشل ریمانڈ یا گواہان کے بیانات قلمبند کرنے سے متعلق سب سے پہلے سال 2016کودہلی ہائی کورٹ نے ڈرافٹ پالیسی تیار کی جس کو بعد میں متعدد کورٹوں نے اپنایا مگر سب سے زیادہ اِس چیز کی شدت سے ضرورت سال2020کو عالمگیر وباء کویڈ کے دوران محسوس کی گئی جس پر عدالت عظمیٰ نے متعدد ہائی کورٹوںکے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جس نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ٹرائل متعلق ماڈل رولز2020تربیت دیئے لیکن اِس میں انڈرٹرائل قیدیوںکی شفاف ٹرائل اور ویڈیو کانفرنس نظام میں اُن کے حقوق کے تحفظ پر کوئی خاص توجہ نہ دی گئی ہے۔
کویڈ وباء سے پہلے سنگین نوعیت کے جرائم یا ہائی پروفائل معاملات میں ملوث قیدیوںکو چھوڑ کر باقی قیدیوںکو اُسی متعلقہ ڈسٹرکٹ جیل میں ہی رکھاجاتا تھا جس ضلع کے سیشن جج کے پاس اُن کی ٹرائل چل رہی ہوتی جہاں سے اُُنہیں مقررہ تاریخ پر جیلوں سے پولیس گاڑی میں سیکورٹی کے بیچ عدالت پیش کیاجاتا تھا،جہاں قیدی بنفس نفیس اپنے مقدمہ کی کارروائی دیکھتے تھے، اگر کوئی پریشانی یا جیل حکام سے متعلق کوئی شکایت ہوتی تھی، وہ جج کو بھی بتلاتے تھے۔ قیدی اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھی چند منٹ قریب سے ملاقات کر لیتے تھے ۔ ملزم کو وکیل سے بات کرنے اور اُس کی طرف سے ڈیفنس تیار کرتے وقت پوچھے گئے ہرسوال کا جواب دینے کا بھی موقع ملتاتھا۔ علاوہ ازیں گواہ چالانی کی جرح کے دوران اگر کوئی اہم نکتہ سامنے آتا تو بھی وکیل فوری وہیں کھڑے قیدی سے پوچھ بھی سکتا تھا تاکہ وہ اِس کا Defenceتیار کرسکے۔سال 2020کے بعد سے انڈرٹرائل قیدیوںکو ہر پیشی پر عدالتوں میں پیش نہیں کیاجارہا جس وجہ سے انڈرٹرائل ملزمان نہ صرف نفسیاتی تناؤ کا شکار ہیں بلکہ اُن کے آئینی وقانونی حقوق کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہورہی ہے۔
کویڈ وباء کے بعد اب انڈرٹرائل قیدیوںکو عدالتوں میں ہرپیشی پر نہیںکیاجاتا اور ساتھ ہی اُنہیں مختلف جیلوں میں بھیج دیاگیا ہے۔مثلاً ایک انڈرٹرائل قیدی کا مقدمہ جموں کورٹ میں زیر سماعت ہے تو وہ یا تر بھدرواہ، ہیرا نگر یا کسی اورجیل میں ہوگا۔ اسی طرح ریاسی میں اگر کسی قیدی /ملزم کا مقدمہ ہے تو وہ اودھم پور یا پھر جموں کی جیل میں ہوگا۔ وادی کشمیر کے سینکڑوں قیدی جموں صوبہ یا پھر ملک کی دیگر ریاستوں میں منتقل کئے گئے ہیں۔قیدیوںکے اہل خانہ بھی سخت پریشان ہیں،جیل میں ملاقات کا وقت مختصر ہوتا ہے ، نیزبہت دور بیٹھ کر صرف ایکدوسرے کو دیکھ سکتے ہیں اور ٹیلی فون پر بات کرائی جاتی ہے جس میں Privacyنہیں ہے، وہاں پر قیدی اہل خانہ سے کھل کر دل کی بات بھی نہیں کرسکتے۔ہرپیشی پر قیدی کورٹ میں آتے تھے ،اِس بہانے سے تھوڑا اُن کا ذہن ہلکا ہوتا تھا، افراد خانہ سے ملاقات اور عدالت میں پیشی سے اُنہیں اطمینان ہوتا تھاکہ اُن سے انصاف ہوگا اور مقدمہ کی ٹرائل شفاف ہوگی۔
انڈیا جوکہ دُنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، میں آئین اور قانون کے تحت ملزم کو بھی حقوق حاصل ہیںاور اُن حقوق کی پاسدار ی مملکت /ریاست کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔ فوجداری مقدمات میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ٹرائل محدود مقصد کے لئے متعارف کی گئی تھی، جیسے ڈاکٹروں، فارنسک ماہریا بیرون ِ ممالک میں موجود گواہان کے آن لائن بیانات قلمبند کرنے تھے، نیزPOCSOقانون کے تحت متاثرہ مستغیثہ کے بیا ن کے لئے تھا جس کو اب ہرانڈرٹرائل ملزم کے لئے استعمال کیاجارہاہے۔ آئین ِ ہند کی آرٹیکل 20,21اور22ملزمان کوکو حقوق حاصل ہیں کہ اُن کے ساتھ گرفتاری یا اُس کے بعد زیادتی نہیں کی جاسکتی، اپنے خلاف بیان دینے پر مجبور نہیں کیاجاسکتا۔ملزم کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مقدمہ کی سماعت میں موثر طریقہ سے حصہ لے اور سماعت کے وقت کوخود حاضر ہو۔ انٹرنیشنل کنوینٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس (ICCPR)1966کی آرٹیکل 14(3)dمیں بھی واضح کیاگیا ہے کہ ٹرائل کے وقت حاضر ہونا ملزم کا حق ہے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ273میں بھی یہ حق ملزم کو دیاگیاہے۔
فوجداری مقدمہ کا مرکزی کردار ہونے کے ناطے ملزم کسی بھی مقدمے کا سکرپٹ رائٹر ہوتا ہے اور اُس کا وکیل ڈائریکٹر ۔ جتنی بہتر سکرپٹ ہوتی، اُتنی اچھی ڈائریکشن (ہدایتکاری)بھی ہوسکتی ہے۔ آئین ِ ہند کی آرٹیکل 22(1)کے مطابق کسی شخص کو گرفتار کئے جانے پر اپنی پسند کے قانونی پیشہ ور سے صلاح لینے اور اپنے مقدمہ کی پیروی کرانے کا حق ہے۔ ضابطہ فوجداری(CrPC)کی دفعہ41(D)کے تحت ملزم کو دوران تفتیش اور گرفتاری کے وقت وکیل سے ملنے کی اجازت ہے۔ ضابطہ فوجداری کی سیکشن303اور304(1)میں بھی قانونی پیشہ وار کا حق ملزم کو ہے۔ ہرپیشی پر عدالت میں پیش ہونے سے ملزم کو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اُس نے جو وکیل کیا ہے، وہ اُس کے مقدمہ کی کتنی موثر طریقہ سے پیروی کر رہا ہے اور اگر اُس لگے کہ اِس سے بھی بہتر پیروی درکار ہے تو اُس کو وکیل بدلنے کا حق بھی ہے لیکن انڈر ٹرائل قیدی کا یہ آپشن بھی بند رہتا ہے۔
سب سے اہم موکل (ملزم)اور وکیل کے درمیان بات چیت کی رازداری۔ انڈر ٹرائل قیدی اِس حق سے محروم ہے کہ وہ اپنے وکیل کے ساتھ رازد اری میں بات نہیںکرسکتا۔ وکیل بھی کیس متعلق اہم معلومات ملزم سے لینے میں ْقاصر ہے۔ شہادت قانون کی سیکشن126اور127کے تحت ملزم کو یہ حق حاصل ہے۔ علاوہ ازیں بار کونسل آف انڈیا رولز نمبر7تا15میں بھی وکیل وموکل کے درمیان بات چیت کی رازداری کی بات کی گئی ہے۔ انڈرٹرائل قیدی کا یہ بھی حق ہے کہ مقدمہ کی سماعت اوپن کورٹ میں ہو۔ ICCPRکے آرٹیکل 14(1)اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ327میں بھی یہ بات واضح ہے کہ مقدمہ کی سماعت اوپن کورٹ میں ہو۔ تیزی سے مقدمہ کی ٹرائل ملزم کا حق ہے جوکہ ویڈیو کانفرنس نظام کے بعد بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اِس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جیلوں اور کورٹوں کے اندر ویڈیو کانفرنس کے لئے موثر نظام نہیں، اس کے لئے مطلوبہ ڈھانچہ کی کمی ہے۔پیشی پر قیدی کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے لیکن اکثر وبیشتر خاص کر جموں وکشمیر میں یہ شکایات رہتی ہیں کہ نائب کورٹی /پی او فون پرقیدیوںکو پیش کرتے ہیں کیونکہ ویڈیو کانفرنس کی کئی جیلوں میں سہولت دستیاب نہیں اور اگر ہے تو انٹرنیٹ کا مسئلہ ،کنکشن کٹ جاتا ہے۔ کئی کیسوں میں تو ایسا ہورہا ہے کئی تاریخیں کورٹ کو یہ کرنے میں گذرجاتی ہیں کہ ملزم کس جیل میں ہے۔
حکومت کا موقف ہے کہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے قیدیوں کی جیلوں سے ہی کورٹ میں پیشی سے خزانہ عامرہ پر پڑنے والا بوجھ کم ہوا ہے۔ پہلے قیدیوں کو جیل تک لے جانے کے لئے بہت زیادہ عملہ درکاہوتا تھا، اُس سے راحت ملی ہے۔ نیزسنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث قیدیوں کو عدالتوں تک پہنچانے میں سیکورٹی کا مسئلہ رہتا تھا، وہ بھی اب حل ہوگیا لیکن ایسا کرنے سے انڈر ٹرائل ملزمان کے حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے جن کی پاسداری بھی حکومت کا فرض ہے۔ملزم نے چاہئے کتنے کتنے سنگین جرم کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو، حقوق اُس کو بھی حاصل ہیں تاکہ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا بھر پور دفاع کرے۔ باقی عدالت مجاز گواہ اور ثبوت کی بنیاد پر منصفانہ فیصلے کی مجاز ہے جس میں چاہئے ملزم کو جتنی مرضی سزا کیوں نہ ہو ، لیکن مکمل ٹرائل کے دوران اُس کو حاصل حقوق کی خلاف ورزی بھی جرم ہے۔ سنگین نوعیت کے جرائم یا ہائی پروفائل کیسز جن میں سیکورٹی کا مسئلہ درپیش ہوکے لئے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے پیشی کی جاسکتی ہے لیکن سبھی ملزمان کو اِس زمرہ میں شامل کرنا بھی ٹھیک نہیں۔ ویڈیو کانفرنس نظام متعارف کرنے سے انڈرٹرائل قیدیوںکے حقوق کس قدر متاثر ہوئے ہیں، اِس پر کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹیو (CHRI)نے ’Disconnected Video conferenceing and Fair Trial Rights‘کے عنوان سے جامع تحقیقی رپورٹ بھی ہے۔
ورچول موڈ پر عدالتوں کی کارروائی کے لئے ترتیب دیئے گئے رہنما خطوط اور قواعد پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ انڈرٹرائل قیدیوںکے حقوق کی بالادستی یقینی بنائی جائے۔جیلوں کے اندر بعض معاملات میں قیدیوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ وہ تعصب ، امتیاز کا شکار ہیں ۔ پہلے اُن کے پاس آپشن تھاکہ وہ پیشی پرکورٹ میں یہ بات کہتے یا وکیل تک پہنچتاتے۔
اب ویڈیو کانفرنس کے ذریعے وہ یہ بات کہہ نہیں سکتے کیونکہ بعد میں پھر اُن کواِس کی مزید سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ انڈرٹرائل قیدیوںکے حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کے لئے فور ی قابل عمل حل نکالنے کی ضرورت ہے۔