• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
اتوار, مئی ۱۱, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم رائے

آخر رشتوں میں نفرتیں کیوں

Online Editor by Online Editor
2023-04-05
in رائے
A A
آخر رشتوں میں نفرتیں کیوں
FacebookTwitterWhatsappEmail
تحریر:ہلال لون

آج کل کے اِس جدید دور میں تعلیم عام ہوگئی۔ اِس جدید تعلیمی نظام نے لوگوں کے ذہنوں کے اندر نمایاں تبدیلیاں لائی۔ اگر ہم پُرانے دُور کے لوگوں کے رشتوں کی طرف دیکھےگےجب گِنےچُنے لوگ تعلیم یافتہ تھے اور آج کل کے جدید دور کے سماجی رشتوں میں فرق جاننے کی کوشش کریں گے، جب کہ تعلیم عام ہوگئ ہے۔ ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دولت، شہرت ، جہیز اور دُنیاوی زینت نے رشتوں میں خلوص کو ختم کا کردیا۔ یہی رشتوں کے زوال اور نفرتیں بڑھنے کے اصل وجوہات ہیں۔ وہ رشتے جن میں خلوص، اتفاق اور اعتبار مکمل ہوتا ہے۔ وہ رشتے چٹان کی طرح مظبوط اور زرخیز زمین کی طرح سرسبز اور شادآب رہتے ہیں۔ اُن رشتوں کی کامیابی،شادآبی انسانی دلوں کو خوش کرتی ہے۔ اُن رشتوں میں آپسی عزت اور اوروں کو بھی عزت ملتی ہے۔ اُن رشتوں سے اور رشتے بڑھتے بھی ہیں اور وہ بھی مظبوط ہوتے۔ نتیجے کے طور اُن رشتوں کی پگڑ میں تمام متاثر لوگ کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کی نیکی اور خیرخواہی کے فکر میں آگے بڑھتے ہیں۔اگر ان میں زدہ سی بھی اختلاف اُٹھے۔ وہ جلد ہی اپنے ضمیر کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر ہم دہائیوں یا صدیوں قبل کی بات کریں گے۔ اُس وقت رشتوں کے اندر احساسات موجود تھے۔ اکثر لوگ اَن پڑھ تھے۔ لیکن علاقے کے امن و سکون بحال رکھنے والے لوگ اگرچہ کم علم والے تھے۔ لیکن اُن کا خلوص اور انصاف علاقے کے لئے رحمت تھا۔ اُن کا اثرورسوخ علاقے کے اَن پڑھ لوگوں کو غلط راستے پر چلنے سے روکتا تھا۔ وہ اثر و رسوخ والے لوگ الله تعالٰی سے ڈرنے والے ہوتے تھے۔علاقے کے سب لوگ علاقے کے بڑوں کی عزت کرتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوتا وہ بڑھوں کی عزت کرنا اور اُن کا حیا ان کی زندگیوں کے لئے امن و سکون اور خوشحالی کا سبب بنتا تھا۔ اِسی طرح سے جب بھی کسی بستی کے اندر فتنے جنم لیتے تھے۔ اُن خدا سے ڈرنے والے حاکمین کے اپنے منصفانہ روئیے سے سب کچھ ٹھیک کرتا تھا۔ لوگ حسد کی بڑھتی بیماریوں سے بچ جاتے تھے۔۔وہی اُن کے وکیل اور اُن کے جج ہوتے تھے۔ آج کا پنچایتی رآج نظام اِس پرانے انصافی نظام کی بھرپور عکاسی کرتا ہے اور گواہی بھی دیتا ہے۔ لیکن آج کل کے بڑوں کی اتنی عزت کون کرتا۔ اسی وجہ سے اِس دور میں اکثر گھر اور خوشحال رشتے چند منٹو میں راکھ ہو جاتے ہیں۔ لوگ عدالت کی دکانوں میں انصاف کے بڑے خریدار بن گئے۔ سالوں بعد عدالت کی کاروائی مکمل ہو جاتی ہے۔ تب تک لوگ زلت اُٹھاتے اُٹھاتے تھک جاتے ہیں۔
ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ پرآنے زمانے کے لوگ بلکل سیدھے سادھے اور دِل کے سچے تھے۔اُن کا مقابلہ محنت اور ایثار سے تھا نہ کہ دُنیاوی زیب وزینت کے مقابلے میں پھنسے ہوئے تھے۔ اور آج کل کے زمانے میں لالچ کے مرض نے دلوں کو آلودہ کردیا پُرانے زمانے میں لوگوں کے خلوص اور نیک نیتی کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنا پسند کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے رشتے میٹھے اور مظبوط ہوتے تھے۔ غغریبی کی شدت اکثر لوگوں ایک دوسرے کی ہمدرد اور خیرخواہ تھے۔ اگر کبھی کوئی لڑائی یا جھگڑہ ہوتا تھا۔ مصیبت میں ایک دوسرے کے کام آنے کی وجہ سے وہ تمام لڑائی جھگڑے ختم ہوتے تھے۔ جب ہم اپنے بڑھوں کے تعلق کو جانتے ہیں۔ وہ مزاق میں ایک دوسرے کو گالیاں بھی دیتے تھے۔ لیکن پیٹھ پیچھے کوئی برائی نہیں کرتے تھے۔ نہ کسی سے بغض رکھتے تھے۔ یہی اُن کے سچے دل ہونے کا ثبوت ہے۔ اس کے برعکس آج کل کے دور میں اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ آگے بڑھی عزت لیکن پیٹھ پیچھے برآئی بیان کرنا عادت ہو گی۔ جب وہ برائیاں سامنے آتی ہے تو سب کچھ تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے سماج میں پھر غلط نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آپس میں حسد اور نفرتیں بڑھ جاتی ہے۔ ان بگھڑے ہوئے تعلوقات اور رشتوں کی وجہ سے اور نئے رشتے خراب ہو جاتا۔ جسکا یہ انجام نکلتا ہے کہ لوگ زہنی اور دل کے مرضوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح پھر زندگیاں ختم ہو جاتی ہے
آج کل کے تعلیمی نظام نے انسانی زندگیوں کے اندر کہی تبدیلیاں لائی۔ انسانی سوچ کے اندر کافی بدلاؤ لایا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کل کے زمانے میں ایک طرف کسی کی مدد کرنے کو انسانیت کا نام دیا جاتا ہے۔ کبھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی۔ اپنے اپنے حقوق کے اصناف کے استاد سب ہیں۔لیکن دوسروں کے حقوق کی پامالی کو خوشی سے نظر انداز کرتے ہیں۔ انسان خودداری کے سوچ میں خودغرض بن گیا۔ تن کی زینت سے فریب دینا عقلمندی کا ثبوت دیتے ہیں۔ کیا فرق پڑتا اگر دل میں خلوص پیدا کرکے اپنے من کو بھی صاف رکھتا۔ دوسروں کی بُرائی کا جواب نیکی سے دیتا۔
ایک وقت تھا جب لوگ غربت اور تنگ دستی کے شکار تھے۔ یہ تنگ دستی اور غریبی اُن کے اندر صبر پیدا کرتی تھی۔ دولت کم تھی، لالچ بھی کم تھی۔ اِسی نتیجے میں انسانی دِلوں کے اندر خلوص برقرار رہتا تھا۔ پھر رشتوں کی قدر کی جاتی تھی۔
آج کل کے دور میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ایک بڑھتی پریشانی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہماری معاشی، اقتصادی زندگیاں خرآب ہو گی۔ اتنا ہی نہی اِس کا سب سے بڑا اثر ہمارے رشتوں پر پڑا۔ کیونکہ آج کل کے اکثر رشتے پیسوں اور زیب وزینت پر چلتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا یہ دور ترقی سے زیادہ بربادی طرف چلتا ہے۔
آخر میں یہ سوچ رہا ہوں۔ کہ ہمیں اپنے ضمیر اور احساسات کو ٹھیک کرنے کے لئے اپنے رشتوں کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا۔ دکھاوے اور لالچ کی بناوٹ کو مٹانا ہوگا۔ اپنے دلوں کے اندر خلوص پیدا کرنا ہوگا۔ دولت، شہرت، دنیاوی دکھاوے کے بجائے سادگی اپناکر رشتوں میں اعتماد اور جان ڈالنی ہوگی۔ دوستوں کی نفسیاتی رائے کے بجائے عالموں کی رآے کو قبول کریں۔ دُنیاوی دکھاوے کے بجائے علم کی جستجو کریں۔ سادگی اور خلوص سے ہی رشتوں کو آگے بڑھائیں۔ دولت اور زینت کے فریب میں رشتوں کو نہ بگاڑیں۔ جہاں سادگی اور خلوص نہ ہوگی وہاں رشتوں کی عمریں کم ہوتی ہے۔ بڑے بڑے فتنے جنم لیتے ہیں اور کہی انسانی زندگیوں کو برباد کرتے ہیں۔

 

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

کچھ بھی کر! فیس بک پر ڈال

Next Post

بچوں میں معیاری گفتگو

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
عمر عبداللہ کی حلف برداری آج، جانیں کس کس کو ملے گی کابینہ میں جگہ

عمر عبداللہ کا "جموں جموں”

2024-12-18
عمر عبداللہ: رکن پارلیمنٹ سے دوسری بار وزیر اعلیٰ بننے تک، سیاسی سفر پر ایک نظر

ایل جی کا حکمنامہ۔۔۔دو وائس چانسلر وں کی معیاد میں توسیع

2024-12-17
ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن

ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن

2024-12-15
انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل

انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل

2024-12-11
Next Post
بچوں میں معیاری گفتگو

بچوں میں معیاری گفتگو

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan