نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
اردو صحافت کا دوسو سالہ سفر بڑے اتار چڑھاؤ سے پر رہا ہے۔ اردو صحافت نے ملک کی آزادی کی لڑائی میں قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اگر اردو اخبارات نے جنگ آزادی میں قائدانہ کردار ادا نہ کیا ہوتا تو ملک کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔مولوی محمد باقر ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ابولکلام آزاد اور دیگر صحافیوں نے ملک میں اردو صحافت کی سمت ، رفتار اور کردار کا تعین کیا۔ اور اردو صحافت کا یہی سرمایہ ہے جس پر اردو والے بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں ۔ لیکن آزادی کے بعد اردو صحافت مختلف مسائل سے دوچار ہوگئی۔
ملک کی تقسیم کے بعد ہندوستان میں اردو داں اکثریت والے علاقے پاکستان میں شامل ہوگئے اور اردو یہاں اقلیتوں کی زبان بنکر رہ گئی۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیکر اسے بھی ملک کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اسی نفرت اور تعصب کے ماحول میں اردو اور اردو صحافت نے خود کو زندہ رکھا۔ اردو صحافت صحافیوں کے لئے ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک مشن تھی۔ اردو کے صحافی بہت کم اجرت پر کام کرتے تھے لیکن انہیں اس بات پر فخر تھا کہ وہ ملک اور قوم کی رہنمائی اور ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ لیکن چونکہ اردو اخبارات کے وسائل محدود تھے اور ان کے قارئین کا حلقہ بھی محدود تھا اس لئے اردو اخبارات خود کو زندہ رکھنے کے لئے مسلمانوں کے جذباتی معاملات کو ترجیحی طور پر اٹھاتے تھے ۔ سنسنی خیزی اردو صحافت کی غیر تحریرشدہ پالیسی بن گئی تھی ۔
معاشی اور سائنسی موضوعات پر مواد کو اردو اخبارات میں کم اہمیت دی جاتی تھی اور مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کی "سازشوں "کو نمایاں طور پر جگی دی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس دور میں اردو داں طبقے میں بلٹز کے مقابلے میں نئی دنیا زیادہ مقبول تھا۔ انہی سب وجوہ سے اسلامی مفکر مولانا وحیدالدین خاں اردو صحافت سے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتے تھے اور اسے زرد صحافت سے تعبیر دیتے تھے۔ شاید اسی کا رد عمل تھا کہ انہوں نے سانٹفک اسلوب میں مسلمانوں کی فکری اور ذہنی تربیت کا بیڑہ اٹھایا اور ان کا وہ سائنٹفک اسلوب پوری اردو دنیا ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں مقبول ہوا اور معمولی پڑھے لکھے اردو داں افراد بھی ان کے رسالے الرسالہ کے باقاعدہ قاری بن گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان لفاظی اور حقیقت بیانی کا فرق نہیں سمجھتے۔ وہ نظم ونثر میں لفظی کرشمہ دکھانے والوں کو اپنا رہنما سمجھ لیتے ہیں۔ بہر حال اردو اخبارات نے ان کے طرز فکر اورسائنٹفک اسلوب کا ابہت کم اثر قبول کیا اور جذباتیت اور سنسنی خیزی کی اسی پالیسی پر چلتے رہے جس پر وہ آزادی کے بعد سے چل رہے تھے۔
نوے کی دہائی سے عالمی صحافت میں جدید تکنالوجی کے عمل دخل نے صحافت کی سمت ورفتار ہی بدل دی۔ میڈیا کے کارپوریٹائزیشن اور تکنیکی ترقی نے اردو صحافت کو بھی متاثر کیا۔ ایک طرف تو اس کی وجہ سے اردو اخبارات تکنیکی سطح پر دیگر زبانوں کے اخبارات کے ہم پلہ ہوگئے اور انگریزی اخبارات کی خبروں کے ترجمے پر ان کا انحصار ختم ہوا۔ اور دوسری طرف کچھ اردو اخبارات کارپوریٹ گھرانوں کا حصہ بن گئے۔ یہ کارپوریٹ گھرانے حکمراں جماعت کے حلیف تھے اس لئے یہ اخبارات اردو داں طبقے کے مفادات کے محافظ بننے کے بجائے حکمراں طبقے کے مفادات کے محافظ بن گئے۔ اس طرح اخبارات کے کارپورائٹائزیشن نے اردو صحافت کو اس کی ملی اور سماجی ذمہ داری سے الگ کردیا۔ اب ملی اور مذہبی نمائندگی کے نام پر روایتی مذہبی مضامین ہی زیادہ تر اردو اخبارات کا حصہ بن گئے۔
زیادہ تر اردو اخبارات کے ادارتی صفحات پر معتبر صحافیوں کے تجزیاتی مضامین کے بجائے مزہبی مضامین شائع ہونے لگے۔ جبکہ اخبارات کے ادارتی صفحے پر سب سے اوپر کسی سلگتے ہوئےقومی یا بین الاقوامی مسئلے پر کسی معتبر صحافی یا کسی خاص شعبے کے ماہر کا تجزیاتی مضمون ہوتا ہے۔ اس کے نیچے کوئی فکاہیہ مضمون ہوتا ہے ۔ (ہندی روزنامے سنمارگ کا لسٹم پسٹم کافی مقبول کالم تھا۔) اور اس کے نیچے قارئین کے خطوط ہوتے تھے۔ اس ترتیب کو زیادہ تر اخبارات تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ مانتے ہیں۔ اردو روزنامہ آزاد ہند کا فکاہیہ کالم نمکدان بھی کافی مقبول تھا۔ لیکن آج کچھ اردو اخبارات می ادارتی صفحات میں مذہبی مضامین چھپتے ہیں اور قومی و بین الاقوامی واقعات و موضوعات پر مضامین کو نیچے جگہ دی جاتی ہے یا پھر کسی دوسرے صفحے پر لگا دیا جاتا ہے۔
مذہبی موضوعات پر مضامین کے لئے اردو اخبارات میں مذہبی مضامین کے لئے جمعہ کا دن مخصوص ہوتا ہے لیکن رمضان کے دوران نہ صرف یہ کہ مذہبی مضامین روز شائع کئے جاتے ہیں بلکہ ادارتی صفحے پر شائع کئے جاتے ہیں۔ جبکہ اخبارات کامقصد قارئین کو ملک اور دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سانحات اور معاشی اور سائنسی موضوعات پر تازہ جانکاری دینا ہوتا ہے۔ ان موضوعات پر اردو اخبارات کے پاس مواد کی کمی کی وجہ سے مذہبی موضوعات پر مضامین ہر روز شائع کئے جاتے ہیں۔اب تو کچھ اخبارات ہرروز ادارتی صفحات پر ادبی مضامین حتی کہ افسانے اور غزلیں بھی شامل کرتے ہیں۔ چونکہ ان اخبارات کا تعلق حکمراں جماعت سے ہوتا ہے اس لئے ان میں حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں پر تجزیاتی مضامین شائع نہیں ہوسکتے اس لئے افسانے ، غزلیں اور مذہبی مضامین ہی اخبارات کے قارئین کے لئے بچتے ہیں۔ کچھ اردو اخبارات شعوری یا لاشعوری طور پر کسی اسلامی تنظیم کے نظریات کے ترجمان بن جاتے ہیں۔
چونکہ آج کے مسلمان کتابوں سے دور ہوچکے ہیں اس لئے اسلامی تنظیموں کے لئے اخبارات ہی ان کے نظریات کی اشاعت کے لئے مؤثر پلیٹ فارم کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اب مذہبی تنظیمیں اپنے نظریات کی تبلیغ و اشاعت کے لئے اردو کے اخبارات کا استعمال کرتی ہیں۔ مذہبی موضوعات پر بھی جو مضامین شائع ہوتے ہیں وہ مختلف مکاتیب فکر سے وابستہ عالموں کے ہوتے ہیں جن میں متضاد مؤقف کا اظہار ہوتا ہے۔ ان مضامین کو پڑھ کر ایک عام قاری تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس عالم کی بات پر عمل کرے۔
اردو اخبارات کے معیار کی پستی اور بے سمتی کی ایک وجہ اردو اخبارات میں غیرتربیت یافتہ عملہ کی کثرت ہے۔ آج اردو اخبارات کی زبان اور ان کے معیار پر جو سوالات اٹھ رہے ہیں اس کے پیچھے یہ غیر تربیت یافتہ عملہ بھی ایک وجہ ہے۔
اردو اخبارات آج مالی طور پر مستحکم اورتکنیکی طور پر بہتر ہیں لیکن زبان اور مواد کے معاملے میں قومی میڈیا سے پیچھے ہیں۔ لہذا، اردو صحافت کے معیار کو بلند کرنے اور اسے اپنے عوام کا صحیح معنوں میں ترجمان اور نمائندہ بنانے کے لئے کچھ اجتماعی اقدامات کرنے ہوں گے۔
