
26جون 2000کونیشنل کانفرنس جس کو اُس وقت اسمبلی کے اندر واضح اکثریت حاصل تھی ، نے جموں وکشمیر کی 1953سے قبل کی صورتحال کو بحال کرنے یعنی ’اندرونی خود مختیاری‘کے لئے قانون سازیہ میں قرار داد پاس کی ۔ اگر چہ مرکز میںاُس وقت اٹل بہاری واجپئی سربراہی والی متحدہ ترقی پسند محاذ(NDA) حکومت نے اس قرار داد کویکسرمسترد کردیا لیکن ریاست کو جموں وکشمیر سے متعلق اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانے پر غوروخوض ضرور کرناپڑا۔سیاسی پنڈت مانتے ہیں کہ کئی دیگر وجوہات تو تھیں ہی لیکن ’اٹانومی قرار داد 2001-02کے بعد جموں وکشمیر میں سیاسی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلی کے لئے اہم محرک ثابت ہوئی ، اگر چہ جموں وکشمیر کی سیاسی جماعتیں اِس پر کلی طور متفق نہیں اور وہ الگ الگ رائے رکھتی ہیں۔
کئی دہائیوں تک جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس ہی حزب اقتدار تھی اور حزب اختلاف بھی، یہی کبھی کانگریس بن جاتی تو کبھی نیشنل کانفرنس مگر پیپلز ڈیموکریٹک (PDP)کی انٹری اور پھر اقتدار میں رہنے کے بعد اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ جموں وکشمیر میں کسی بھی سیاسی جماعت کا اکثریت میں آنا مشکل ہے ۔5اگست2019کو خصوصی درجہ کی تنسیخ اور جموں وکشمیر تنظیم ِ نو قانون کو ایوان ِ پارلیمان میں پیش کرتے وقت وزیر داخلہ نے کہا تھا”جب جموں وکشمیر میں حالات معمول پر آجائیں گے ، تب ریاستی درجہ بحال کر دیاجائے گا“۔اِس جُملے پر ملکی ، عالمی سطح پر جموں وکشمیر کی سیاسی امور کے جانکاروںنے اپنے اپنے نقطہ نظر سے تبصرے کئے اور کئی تفصیلی وتحقیقی مضامین بھی ہمیں پڑھنے کو ملے۔
جموں وکشمیر ہائی کورٹ جموں ونگ جہاں مختلف سیاسی نظریات رکھنے والے کئی مشہور قانون دان، سیاستدان وکالت کرتے ہیں، کی ہائی کورٹ لائیرز چیمبر میںسیاسی امور اور حالات ِ حاضر ہ پراکثر ڈسکشن ہوتی ہے، جہاں سال2020کے جنوری ماہ میں چند سنیئر وکلاءحالات پر ہی بات کر رہے تھے، تو ایک وکیل صاحب نے وزیر داخلہ کے متذکرہ بالا جُملے پر جوبات کہی وہ کافی دلچسپ تھی ۔ اُنہوں نے کہا”جموں وکشمیر اسٹیٹ ہڈ کی بحالی اُس وقت ممکن ہوگی جب سبھی سیاسی جماعتیں یک زباں ہوکر صرف ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ کریں گیں اور یہ سب کااہم مطالبہ ہوگا، پھر عوامی وترقیاتی نوعیت کے ایسے مسائل کا ہم کو سامناہوگا جوسیاسی جماعتوں کے منشور کا اہم حصہ بن جائیں گے ۔370اور35A، اٹانومی، سیلف رول، آزادی، خودمختار ریاست کی باتیں کرنے والوں کی اہمیت نہ رہے گی اور ایسا کرنے والوں کا قافیہ حیات اِتنا تنگ ہوگا کہ اُنہیں عوامی پذیرائی کسی بھی سطح پر ملنے کے امکانات کم سے کم رہیں گے“۔اُس وقت اِس بات پر اتنا غور نہیں کیا لیکن آج وکیل ِ موصوف کی سیاست بصیر ت پتہ چلی؟، آ ج اُن کی ہربات کچھ حد تک صحیح معلوم ہوتی ہے۔
آئندہ اسمبلی انتخابات (جن کے ابھی آثار نہیں)میں کسی ایک سیاسی جماعت کو ’فیورٹ ‘کہا نہیں جاسکتا ، کیونکہ میدان میں کئی کھلاڑی موجود ہیں۔ سب سے پرانی علاقائی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کو جہاں عوام کی زیادہ ہمدردی ملنے کی توقع ہے تو وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لئے پیشہ وارانہ طور پر ہر گھر، گلی، محلہ، وارڈ تک عوامی رسائی حاصل کرنے میں سرگر م ِ عمل ہے۔ سابقہ وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کی سربراہی والی نئی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پروگریسیو آزاد پارٹی بھی عوامی اجتماعات کے ذریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔دفعہ370کی منسوخی کے بعد جموں وکشمیر میں پہلی مرتبہ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرنے والی سید محمد الطاف بخاری کی سربراہی والی جموں وکشمیر اپنی پارٹی بھی یوٹی بھر میں اپنا کیڈر مضبوط کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اپنی پارٹی قیادت کا ماننا ہے کہ اُنہوں نے جموں وکشمیر میں حقیقت پسندانہ اور صداقت پر مبنی سیاست کی داغ بیل ڈالی ہے۔عوام سے وہی وعدے کر رہے ہیں جوقابل ِ حصول ہوں جبکہ روایتی سیاسی جماعتیں آسمان سے چاند تارے توڑ لانے اور جذباتی نعرو ¿ں سے عوام کا استحصال کیا۔
سابقہ ریاست جموں وکشمیر کی آخری اور پہلی خاتون وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی سربراہی والی پی ڈی پی بھی اپنے روایتی حلقوں میں دبدبہ قائم رکھنے میں کوشاںہے، سجاد غنی لون کی سربراہی والی پیپلز کانفرنس بھی اِس دوڑ میں پیچھے نہیں۔ ملکی سطح پر بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس بھی سیاسی سرگرمیوں کو پرجوش طریقہ سے جاری رکھے ہوئے ہے اور راہل گاندھی کی سزا اُن کے لئے فائیدہ مندثابت ہورہی ہے۔2019کے بعد سابقہ اراکین قانون سازیہ اور دیگر سنیئرسیاسی لیڈران نے بڑے پیمانے پر پارٹی وفاداریاں بھی بدلیں۔ پی ڈی پی سے بڑا کیڈراپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس میں چلاگیا وہیں کانگریس لیڈران کی بڑی تعداد ڈیموکریٹک پروگریسیو آزاد پارٹی میں چلی گئی جبکہ سبھی سیاسی جماعتوں سے غیر متوقع طور بہت سارے لوگوں نے بھاجپا کا بھی دامن تھاما۔
متذکرہ سیاسی جماعتوں کے پروگراموں میں اُٹھائے جانے والے اہم مسائل کا مشاہدہ کریں تواُس میں اسمبلی انتخابات کا انعقاد، ریاستی درجہ ، دربار موو ¿، نوکریوں ، اراضی اور وسائل کا تحفظ، زمین کے مالکانہ حقوق ، بے روزگاری ،بھرتی اداروں میں دھاندلیاںوغیرہ نمایاں نظر آتے ہیں۔ جہاں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا موقف سیاسی معاملات پر زیادہ ہے تو وہیں 2020کے بعد معرض ِ وجود میں آئی سیاسی جماعتیں جموں وکشمیراپنی پارٹی اور ڈیموکریٹک پروگریسیو آزاد پارٹی تعمیرو ترقی اور عوامی فلاح وبہبود کے اقدامات پر بات کرتی ہیں۔نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے اپنے رویہ میں لچک لاتے ہوئے اب ہر انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اپنی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اگراقتدار میں آئے توگرمائی ایام کے دوران صوبہ جموں میں500اور سرما میں300یونٹ جبکہ کشمیر صوبہ میں موسم سرما میں500اور گرمیوں کے دنوں میں300یونٹ بجلی مفت دی جائے گی۔ اجولا یوجنہ اسکیم کے تحت سال میں چار گیس سلنڈر مفت دیئے جائیں گے، بیوہ ، معذوری اور ضعیف العمر پنشن ماہانہ پانچ ہزار روپے کی جائے گی، غریب بچیوں کو شادی کیلئے ایک لاکھ روپے مالی امداد فراہم کی جائے گی، حکومت کے اقتدار میں آنے کے تیس دنوں کے اندر دربارموو ¿ روایت بحال کی جائے گی، سرکاری اراضی کے مالکانہ حقوق دئیے جائیں گے، پرانی پنشن اسکیم کو بحال کیاجائے گا اور 60دنوں کے اندر سبھی سرکاری محکمہ جات میں کام کر رہے ڈیلی ویجروں کو مستقل کیاجائے گا۔ پارٹی خواتین کو 33فیصد ریزرویشن دینے کی بھی وعدہ بند ہے۔
ڈیموکریٹک پروگریسیو آزاد پارٹی دونوں خطوں کی یکساں تعمیر وترقی، خوشحالی کی بات کر رہی ہے۔عوامی اجتماعات کے دوران غلام نبی آزاد نے جو بڑا اعلان کیا،وہ یہ تھاکہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو روشنی اسکیم کے تحت جن لوگوں کو سرکاری اراضی کے مالکانہ حقوق ملیں ہیں، اُنہیں بحال کیاجائے گا اور حکومت کے حالیہ فیصلوں کو واپس کر دیاجائے گا۔ عوامی اجتماعات کے دوران ایک دلچسپ بات یہ بھی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں ایکدوسرے پر یہ الزام تراشیاں بھی کر رہی ہیں کہ فلاح جماعت فلاں پارٹی کی بی ٹیم ہے، سی ٹیم ہے، وغیرہ وغیرہ۔کون جماعت کس کی ٹیم ہے، اِس بارے تو وہی بہتر بتاسکتے ہیں لیکن اس بات میں کافی حد تک صداقت ہے کہ جموں وکشمیر میں مرکز کے آشروارد کے بغیر سیاست کرنا آسان نہیں ۔کئی سیاسی پنڈت تو سیاسی جماعتوں کے اُتار چڑھاو ¿ اور عروج وزوال میں بھی کچھ حد تک اس فیکٹر کو خارج از المکان قرار نہیں دیتے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی جوکہ اِس وقت ملکی سطح پر سب سے بڑی اور طاقتورسیاسی جماعت بن کر اُبھری ہے، کا مقابلہ کرنے کےلئے جہاں دیگر ریاستوں میں سیاسی جماعتیں متحدہورہی ہیں ، وہیں جموں وکشمیر میں سبھی دیگر سیاسی جماعتیں ایکدوسرے کے پتے کاٹنے کے لئے جی توڑ کوششیں کر رہی ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ماسوائے کانگریس دیگر سبھی جماعتوں کی طرف سے بھاجپا متعلق کھل کر نہ بولنے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ آپشن کھلا رکھنا چاہتے ہیں کہ کل انتخابات کے بعد اگر امکانات ہوں تو وہ بھی حکومت سازی کے شراکت دار بھی ہوسکتے ہیں۔
پچھلے چند روز سے پیپلز کانفرنس چیئرمین سجاد لون کا دی وائر کے لئے معروف صحافی کرن تھاپر کو دیاگیا انٹرویو کافی موضوع بحث ہے جس میں انہوں نے یہ دعویٰ کیاتھاکہ جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں ساز باز ہے اور دونوں اگھٹے اگلی سرکار بنائیں گے جس کی جہاں نیشنل کانفرنس نے سختی سے تردید کی تو وہیں بھاجپا جموں وکشمیر اکائی صدر راویندر رینہ نے بھی کہا” بی جے پی اپنے دم پر جموں وکشمیر میں اگلی سرکار بنائے گی،نیشنل کانفرنس اور نہ کسی دیگر سیاسی پارٹی کا سہارا لیاجائے گا۔خیریہ توسیاسی بیان بازیاں ہوتی ہیں، کوئی بھی سیاسی جماعت جو الیکشن لڑتی ہے، اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہی اکثریت حاصل کرے۔ مگر جموں وکشمیر میں جس طرح کے حالات واقعات ہیں، اُس میں کوئی ایک سیاسی جماعت کا اکثریت حاصل کرے، اِس کے آثار بہت کم ہیں، جو بھی ہوگی مخلوط حکومت ہی ہوگی لیکن بھاجپا کیڈر جس تندہی کے ساتھ عوامی رابطہ مہم کے دوران پارٹی کی پالیسیوں اور پروگراموں کو لوگوں تک پہنچارہا ہے ، وہ دیگر جماعتوں کے لئے سبق ہے۔
سب سے دلچسپ اور حیران کن امر عام لوگوں کی خاموشی ہے۔ خصوصی درجہ کی تنسیخ کے بعد جموں وکشمیر میں یکے بعد دیگر رونما ہونے والے واقعات، حادثات ، انتظامی و حکومتی سطح پرہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے لوگ بہت محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور خاموشی سے ہر سیاسی جماعت کی سرگرمی کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ لوگوں کی یہ خاموشی ہر سیاسی جماعت کے لئے کچھ حد تک فکر مندی کا باعث بھی ہے، کہ کہیں کوئی ’سرپرائز ‘نہ مل جائے۔یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ جموں وکشمیر کی سیاست کے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنا انتہائی مشکل ہے۔یہاں اکثر سیاسی پنڈتوں کی پیشن گوئیاں غلط بھی ثابت ہوئی ہیں۔سٹاک ایکسچینج کی طرح یہاں حالات پل پل کروٹ بدلتے رہتے ہیں۔