تحریر:نسیم اکرم
عالمی اور علاقائی سیاست کے تیزی سے بدلتے رجحانات پر نگاہ ڈالتے ہی پاکستان اور بھارت کی ترجیحات اور معاملات کی یکسر مختلف سمتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان داخلی محاذوں کی دلدل میں گھرا جبکہ پڑوسی ملک بھارت جی 20 ممالک کی میزبانی کی تیاریوں میں مصروف عمل ہے اور وہ بھی ایسی سر زمین پر جو 7 دہائیوں سے زائد عرصے سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود متنازع ریاست جموں کشمیر کہلاتی ہے۔ اس تقریب میں جی 20 ممبران کے علاوہ مہمان ممالک اور دیگر کئی بین الاقوامی تنظیموں کے مندوبین شرکت کرنے جا رہے ہیں۔
جی 20 ممالک کی مجوزہ کانفرنس پر بات کرنے سے قبل اس عالمی معاشی فورم کے حوالے سے نمایاں حقائق نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ جی 20 ممالک، دنیا کے جی ڈی پی کا تقریباً 85 فیصد، عالمی تجارت کے 75 فیصد اور آبادی کے 60 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دنیا کی 20 ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی ترقی پذیر معیشتیں جی 20 بین الحکومتی فورم کی ممبر ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیا دنیا کی کل آبادی کا تقریباً % 25 انسانوں کا خطہ ہے اور منڈی کی معیشت کے دور میں اتنی وسیع اور ان ڈیپتھ مارکیٹ مسلمہ اہمیت کی حامل ہے جس کو نظر انداز کرنا کسی طور بھی ممکن نہیں ہے۔ حالیہ دہائیوں میں بھارت اپنی معاشی ترقی کے وژن کو تیز رفتاری سے بروئے کار لاتے ہوئے علاقائی اور بین الاقوامی اہمیت حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ جنوری 2022 سے دسمبر 2022 کے دوران بھارت کی بین الاقوامی تجارت کا حجم گزشتہ سال کی نسبت 21 فیصد اضافے کے بعد 1.17 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
بھارت کے معاشی اہداف و امکانات اور دنیا کی تجارتی و معاشی سرگرمیوں میں اس کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے سرکردہ معاشی فورمز پر اس کی پذیرائی اور اہمیت سمجھی جا سکتی ہے۔ جی 20 فورم کے حالیہ صدر کی حیثیت سے بھارت میں کانفرنس کا انعقاد جنوبی ایشیائی خطے کے لیے انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ 21 صدی میں براعظم ایشیا کو گلوبل معیشت کا انجن قرار دیا جا رہا ہے اور اس تناظر میں چین، روس، بھارت، جاپان انڈونیشیا، ملائشیا، جنوبی کوریا، سنگاپور کی معیشتوں کا کلیدی کردار ہے۔
عالمی معاشی ترقی کے اہداف و امکانات کے تحت سرگرم عمل دنیا کے اس اہم معاشی فورم کے مجوزہ اجلاس سے پہلے بھارت، جی 20 ممالک کے ساتھ ساتھ 30 ممالک کے 100 سے زائد نوجوان لیڈروں کو متنازع ریاست جموں کشمیر کے صوبہ لداخ میں مجتمع کر کے Y۔ 20 پری سمٹ جس میں لوگوں کی ترقی کے قابل عمل منصوبوں پر بغور جائزہ لیا گیا کی کامیابیاں سمیٹ چکا ہے۔
پاکستان کو بھی جی 20 سمٹ میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے مگر اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور تنازعات کے بھاری بوجھ کے ساتھ پاکستان کے لیے اس کانفرنس میں شرکت کوئی آسان فیصلہ نہیں ہو گی۔ اگست 2019 میں کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے اور ریاست جموں و کشمیر کی بھارت میں ادغام کے مودی حکومت کے اعلان کے بعد جنم لینے والی صورتحال میں پاکستان اور بھارت کے مابین اعلیٰ سطح کے سفارتی رابطے تقریباً منجمد ہیں۔
کشمیر کی متنازع حیثیت کو لے کر دونوں ممالک کے درمیان چپقلش کی سات دہائیوں سے زیادہ پر مشتمل تاریخ کے تابع دونوں جانب کی سیاسی قیادت کو اب خطے کے یکسر بدلے اسٹیٹس کی عوامی توثیق کا چیلنج درپیش ہے۔ دوسری جانب تمام بڑی طاقتوں بشمول اسلامی ممالک سعودی عرب، یو اے ای اور ایران کے ساتھ تجارتی و معاشی تعلقات کے ذریعے جڑے رہنے کی وجہ سے بھارت کی بین الاقوامی ساکھ اور اہداف نہایت واضح اور طویل المیعاد بنیادوں پر استوار ہیں جس کے برعکس پاکستان کے حوالے سے کسی حوصلہ افزا پیش رفت کے امکانات کے آثار مفقود ہیں۔
زیر بحث موضوع کو مدنظر رکھتے ہوئے اصل مدعے پر آتے ہیں، بھارتی صدارت میں جی 20 ممالک کے سیاحت سے متعلق گروپ کا اجلاس متنازع ریاست جموں کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں 22 سے 24 مئی کو ہونے جا رہا ہے۔ اگست 2019 میں مودی سرکار نے بھارتی آئین میں دی گئی کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کر کے آرٹیکل 370 اور 35 A کو غیر موثر کر دیا تھا، 7 دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری تنازعے کے متحارب فریقین بھارت اور پاکستان کے عوام کے لئے اس فیصلے کو حیران کن اور غیر متوقع پیش رفت سمجھا گیا تھا۔
ایک جانب بھارت میں اس فیصلے سے خوشی کا اظہار کیا گیا جبکہ دوسری طرف پاکستان سمیت آر پار کے کشمیریوں کے لیے اس فیصلے کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ بھارت کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف وادی کشمیر میں کسی ردعمل کو پیشگی اقدامات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف کرنا بھی لازم ہے کہ پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال، اس وقت کی عمران خان حکومت اور جنرل باجوہ کی عسکری اسٹیبلشمنٹ کے نیم دلانہ ردعمل نے کسی بھونچال جیسی کیفیت کو وقوع پذیر ہونے کا موقع فراہم نہیں کیا تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک آزادیٔ کشمیر کی پشت بانی کے دعویدار پاکستان اور آزاد کشمیر کی مذہبی جماعتوں نے بھی بوجوہ خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور پاکستانی عوام، دونوں ممالک کے درمیان کسی درپردہ ڈائیلاگ سے یکسر بے خبر تھے۔ اس دوران کسی ناخوشگوار ردعمل کو روکنے کی حکمت عملی کے تحت آزاد کشمیر کے اس وقت کے وزیراعظم جناب فاروق حیدر کو ملک سے باہر روانہ کر دیا گیا تھا۔
کیونکہ پاکستان اور بھارت کی جانب سے درپردہ کسی مبینہ پیش رفت کی بنا پر کشمیر پر لئے گئے فیصلے کو قبول کیا جا چکا تھا لہذا پاکستان سمیت آزاد کشمیر میں عمومی طور پر کوئی قابل ذکر احتجاج منظم نہیں ہو سکا تھا۔ ایک اور اہم بات 90 کی دہائی کی تحریک آزادی کے بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہجرت کر کے آزاد کشمیر اور پاکستان آنے والے کشمیری مجاہدین و مہاجرین کی خاموشی معنی خیز تو تھی مگر نان نفقے کے خوف میں مبتلا کشمیری مہاجرین و مجاہدین اور ان کی قیادت لب کشائی سے گریزاں ہی رہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ خطے کے اہم ترین ایٹمی طاقت کے حامل پاکستان اور ہندوستان کے مابین کشمیر کے دیرینہ تنازعے کی ایسی سیٹلمنٹ کی توقع کم از کم کشمیری اور پاکستانی عوام کو بالکل بھی نہیں تھی۔ یوں تو قضیہ کشمیر کے حل کے مختلف فارمولے گاہے گاہے زیر بحث رہے ہیں مگر جنرل مشرف کے بعد اس ایشو کو بظاہر پس منظر میں رکھ کر در پردہ آگے بڑھایا گیا تھا۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کر کے بھارت کی جانب سے تنازع کشمیر کو لپیٹنے کے بعد بین الاقوامی اہمیت اور افادیت کے حامل اس فیصلے کے بارے عالمی برادری خاص طور پر مسلم بلاک سے جس قسم کے ردعمل کی توقع تھی وہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ چین اور اسلامی دنیا کا ردعمل بھارتی اقدام کو من و عمل قبول کرنے کا واضح پیغام سمجھا گیا۔ اب چار سال گزرنے کے بعد متنازع ریاست جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں جی 20 ممالک کے سیاحتی گروپ کے اجلاس کے ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے حق دعویٰ کو بین الاقوامی سند جاری کرنا ہے۔
برصغیر میں جاری سات عشروں کی مارا ماری کی بنیاد یعنی مسئلہ کشمیر کے جیسے تیسے حل کے بعد بدلی ہوئی صورتحال نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کور ایشو سے وابستہ آر پار کے کشمیریوں کے لئے اس تبدیل شدہ صورت حال سے کیا برآمد ہوا؟
دوسرا اور اہم سوال یہ کہ بھارتی فوج کے ہاتھوں کم و بیش ایک لاکھ کشمیریوں کو تہہ تیغ کرنے، ان گنت کشمیری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عفت کو تار تار کرنے، سینکڑوں کشمیری بچوں کو پیلٹ گنوں سے چھلنی کرنے، اربوں ڈالر کی املاک کو خاکستر ہونے، کشمیر کی صدیوں پر محیط تہذیب و ثقافت، سماجی اقدار و روایات، معیشت اور سیاست کو بری طرح مجروح کرنے، 50 ہزار کشمیری مہاجرین کو در دری اور کسمپرسی سے دوچار کر دینے والی اس بے سود جنگ کا ایندھن کیوں بنایا گیا؟
تیسرا سوال جس کے جواب پر خطے کے اربوں انسانوں کے مستقبل کا انحصار ہے یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاک و ہند کے درمیان تنازعہ کشمیر کے حل کے بعد کیا کچھ بدلنے کو ہے؟
چوتھا سوال کشمیر کے حوالے سے تاریخ ساز پیش رفت کے نتیجے میں دونوں ممالک سمیت جنوبی ایشیا میں معاشی اور معاشرتی میدان میں کیا تبدیلیاں رونما ہونے جا رہی ہیں؟
20 ویں صدی کے تنازعات کے خاتمے کی ہر کوشش قابل تحسین اور قابل تقلید ہے مگر غیر منصفانہ اور ان اورگینک ہتھکنڈوں سے بزور ٹھونسی جانے والے فیصلوں کے دیرپا نتائج برآمد ہونے کی توقع بھی مشکوک ہوا کرتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے راستے کا انتخاب کرنے کے باہمی مذاکرات اور پر عزم قیادت کے تحت سیاسی ڈائیلاگ کے راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ روشن خیال اور ترقی پسند سیاسی قیادت ہی دونوں ممالک کے درمیان گہرائی تک اتری بد اعتمادی اور ناپسندیدگی کو دور کر سکتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کوئی قابل ذکر ڈائیلاگ عوام کے سامنے نہیں ہے اور نہ ہی بین الاقوامی فورمز پر ایسی کوئی پیش رفت دکھائی دے رہی ہے۔ دیرینہ ہمسائیوں کے مابین قضیے کے جیسے تیسے خاتمے کے بعد جس قسم کی منطقی اور حقیقت پسندانہ صورت حال رونما ہونا چاہیے تھی وہ مکمل غائب ہے۔
قوموں کی زندگی میں موقع محل کی بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے مگر افسوس پاکستان کی داخلی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایسی کوئی سنجیدگی اور معاملہ فہمی دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔
تاریخ کے اس نہایت اہم موڑ کو 47 اور 71 کے بعد گیم چینجر کے طور پر ہی دیکھا جاسکتا اور غالب گمان ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی دھماچوکڑی 22 کروڑ پاکستانیوں کو خطے کے بدلتے رجحانات اور ترقی و خوشحالی کے امکانات سے محروم رکھنے کا سبب بن رہے ہیں۔ کشمیر سمیت پورے خطے کے عوام کو پر امن اور ترقی یافتہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنا پاکستان اور بھارت کی بنا دی ذمے داری ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے بجائے اپنے عوام کے مستقبل کی جانب توجہ اور وسائل مرکوز کرنا ہوں گے ۔
پاکستان کو جی 20 سمٹ میں بھرپور تیاری اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت شرکت کرنا چاہیے۔ ممالک کے مابین تنازعات کے باوجود معاشی و تجارتی تعلقات کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، خود بھارت چین کے کئی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے سے تعلقات منقطع کر کے نہیں بیٹھ رہے بلکہ اختلافات کو بیک برنر پر ڈال کر مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے صحت مند رابطوں پر اتفاق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ امید ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت بھی اپنے عوام کے لیے ترقی اور خوشحالی کے راستے مسدود کرنے کے بجائے کھولنے کی کوشش کرے گی۔
بشکریہ ہم سب اردو ڈاٹ کام
