تحریر: اعجاز مجید
نوجوان قوم کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔یہ ایک بیش بہا خزانہ سے کم نہیں ہے۔ اسے ایک ایسی موتی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو اپنی کرنوں سے ارد گرد کی تاریکی کو روشن کرتی ہے۔ جس قوم کی آبادی کا اکثر حصہ نوجوان نسل پر مشتمل ہو اس قوم کا مستقبل تابناک ہوتا ہے ۔ نوجوان کو اگر سرحد پر تعینات کیا جائے تو چٹان کی مانند ثابت ہوتا ہے ، اسکے ہاتھ میں اگر ملک کی بھاگ ڈور دی جائے تو ملک ترقی کے عروج پر پہنچتا ہے ۔ اسکے ہاتھ میں اگر قلم تھمایا جائے تو وہ ایک کامیاب ادیب، بہترین قلمکار اور پُر جوش شاعر ابھر کر آتا ہے۔ غرض علم ،سیاست ،کھیل یا میدانِ کار زار ہو نوجوان چار سُو اپنا لوہا منواتا ہے۔ لیکن نوجوان اگر راہِ راست سے بھٹک جائے اور اسے صحیح تربیت کرنے والے کوئی نہ ملے تو یہ سماج کے لیے پھر زہرِ قاتل سے بھی زیادہ مضر ثابت ہوتا ہے۔
کتنے ہی ایسے نوجوان ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار کے لیے در بہ در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ کچھ ان میں سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو زہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔اور آرام آرام سے یہی نوجوان پھر منشیات کے شکار ہوتے ہیں۔ اور پھر انہی سے وہ کام بھی سرزد ہوتے ہیں جسے سننا یا دیکھنا نا قابلِ برداشت ہوتا ہے۔ ہر وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کی پڑھائی میں اپنی ساری جمع پونجی خرچ کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے نوازتے ہیں۔ وہ یہ خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ آج نہیں تو کل ہمارا بچہ ہماری خوابوں کی تعبیر بنے گا۔ وہ جوان اس انتظار میں آخر کار تھک کر بیٹھ ہی جاتا ہے کہ گورنمنٹ مختلف محکموں کی خالی اسامیوں کو پُر کرنے کے لیے نہایت ہی مناسب اور انصاف پر مبنی طریقے سے امتحانات منعقد کرنے میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرینگے ۔ لیکن اسکی مایوسی میں اس وقت اصافہ ہوتا ہے جب وہ یہ خبر سنتا ہے کہ امتحان کا پرچہ پہلے ہی منتخب افراد تک پہنچا تھا، یا یہ خبر شائع ہوتی ہے کہ اس میں بہت رشوت کا لین دین ہوا تھا۔ اور کبھی وہ اس خبر سے دو چار ہوتا ہے کہ وہ امتحان دینے کے بعد وہ کامیابی کے لیے پُر امید ہوتا ہے لیکن چند دنوں کے بعد وہ یہ خبر سنتا ہے کہ امتحان ملتوی ہو چکا ہے۔یوں اس کے خوابوں کا چکنا چور ہوتا ہے۔اور پھر اسی طرح کے واقعات سے اس کی زندگی میں اور مایوسی چھا جاتی ہے۔غرض وہ اپنا ذہنی تناؤ کم کرنے کے لیے نشہ کا سہارا لیتا ہے اور آہستہ آہستہ اسے منشیات کی لت لگ جاتی ہے۔ اور وہ نوجوان جو اوروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا تھا مگر افسوس کہ کسی خاص وجہ سے وہ خود کے لیے بھی اور سماج کے لیے بھی ناسور ثابت ہوتا ہے۔
نوجوان ہو اور پڑھا لکھا ہو اور پھر اسے کہیں بھی کسی میدان میں موقع دیا جائے تو وہ اس میدان میں کارہائے نمایاں کام انجام دیتا ہے۔ حال ہی میں حکومت کشمیر نے سال2023 کے اوائل میں ایک ایسا قدم اٹھایا جس میں انہوں نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ایک موقع فراہم کیا. انہیں حکومت وقت نے چوکیدار اور نمبردار کا عہدہ دیا اور پرانے چوکیداروں اور نمبر داروں کو برطرف کیا۔ابھی ان کے صحیح سے آرڈرز بھی فراہم نہیں کیے گئے تھے تھے ۔ اور جو تنخواہ انکے لیے مقرر کیا وہ نہایت ہی کم ہے ۔ گاؤں میں مزدوری کرنے والے ان سے پانچ سے چھ گنا زیادہ رقم لیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود انہوں نے اپنے کام نہایت ہی جوش وجذبہ اور ولولہ سے شروع کیے۔کئی سالوں سے حکومت نے بذریعہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ خشخاش اور بنگ کی کاشت کے خلاف مختلف کوششیں کیں لیکن ہر سال اس کی پیداوار بڑھتی ہی جاتی تھی اور منشیات کا غیر قانونی طریقے سے کاروبار کرنے والے لوگ اسے نشہ آور اشیاء بناتے اور اس کی خریدوفروخت دن بہ دن پروان چڑھتی تھی ۔ اس سال یہ کام نئے منتخب نوجوان چوکیداروں اور نمبرداروں کو یہ کام سپرد کیا گیا ۔ عقل حیراں ہے کہ انہوں نے یہ کام کس خوش اسلوبی سے انجام دیا۔سرتاج احمد اور شاہد احمد دو ایسے نوجوان ہیں جو حال ہی میں نمبردار اور چوکیدار کے عہدے سے سرفراز ہوئے۔ انہوں نے اپنے منصب کو بخوشی قبول کیا اور اس قدر خشخاش کو مٹانے کی محنت کرنے لگے کہ چند ہی دنوں میں نا قابلِ یقین کام انجام دیا۔ انہوں نے انتھک لگن اور محنت سے خشخاش کی کاشت کو جڑ سے ہی اکھیڑ دیا یوں بہت سالوں کے بعد یہ پہلی دفعہ ممکن ہوا کہ گاؤں میں اگایے ہوے سارے خشخاش کا صفایا ہوا۔ چونکہ وہ پڑھے لکھے ہیں اور اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ خشخاش سے جو نشہ آور اشیاء بنائے جاتے ہیں وہ سماج کے لیے کتنا مضر ہے۔ اس سے کتنے نوجوان ضایع ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے مصمم ارادہ کیا کہ اس وباء کو پھیلنے سے بچایا جائے ۔ انہوں نے دن رات کام کیا اور یہ پہلی بار ممکن ہوا کہ خشخاش کا گاؤں میں تقریبا سو فیصد صفایا ہوا اور ارد گرد کے گاؤں کا حال بھی بالکل اسی طرح ہوا اور یوں نوجوان نمبرداروں اور چوکیداروں کی مدد سے اور محکمہ ریونیو کے باقی ماندہ ملازمین کی مدد سے یہ دیرینہ مطلوبہ کام اپنے انجام کو پہنچا۔ اسی طرح اگر نوجوانوں کی ہنر اور صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے تو شاید ہی کوئی ایسا کام کرنے سے رہ جائے جسے خوش اسلوبی سے انجام نہ دیا جائے۔
