تحریر : سبزار رشید بانڈے
عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ جاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے
والدین دنیا کی لاکھوں، کروڑوں نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہیں۔ اللہ کا ہم پر خاص کرم ہے کہ اس نے ہمیں والدین جیسی نعمت سے نوازا۔ ماں زندگی کی تاریک راتوں میں روشنی کے ایک مینار کی مانند ہے جبکہ باپ دنیا کی ٹھوکروں سے بچانے والا سب سے مضبوط سہارا ہے۔والدین ہی دنیا میں وہ ہستیاں جو اولاد کی خاطر دنیا کی ہر مشکل سے لڑتے ہیں مگر دیکھا گیا ہے کہ آج کی اولاد والدین سے زیادہ دوستوں کو عزیز رکھتی ہے۔ہم لوگ عبادات تو خوب کرتے ہیں مگر ماں باپ کی ناراضی کو بُرا نہیں جانتے۔ یہ نماز، زکوۃ، روزہ اورحج کس کام کا کہ جب والدین ہی اپنی اولاد سے خوش نہ ہوں۔ہمیں ماں باپ کی فیصلوں پر اعتراض ہوتا ہے، انہیں ’’آئوٹ ڈیٹڈ‘‘ سمجھتے ہیں کہ وہ نئے زمانے کو نہیں جانتے حالانکہ والدین کبھی غلط نہیں ہوتے،کبھی ان سے کوئی غلط فیصلہ ہوجائے تب بھی ان کی نیت صاف ہوتی ہے۔
جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین کے دل میں کیا کیا ارمان پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اسی اولاد کی سلامتی اور لمبی عمر کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔ اسی اولاد کی خاطر والد سارا دن گرمی اور سردی کی پرواہ کیے بغیر حلال رزق کی تلاش میں اپنے تمام خوابوں کی فکر کیے بغیر بس ایک ہی کام میں لگ جاتا ہے۔ وہ کام اولاد کے لیے اچھا رزق اور اچھی رہائش اور ہر وہ چیز جو انسانی زندگی کے لئے لازم ہوتی ہے۔ اس طرح والدہ بھی اپنی زندگی کا تمام سکون اسی بچے میں تلاش کرنا شروع کر دیتی ہے والدہ کی محبت اور پیار کی کوئی مثال نہیں۔
یہی والدہ اپنے ننھے سے بچے کی زندگی میں سکون کے لیے ہر طرح کی کوشش کرتی ہے کہ میرے بچے کو آرام اور سکون کی نیند میسر ہو سکے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ والدہ کی محبت نہ سردی اور نہ ہی گرمی دیکھتی ہے وہ اپنے لخت جگر کو چین و سکون کی نیند کے لیے پوری رات جاگ کر خشک بستر میسر کرتی رہتی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ والدہ اپنے مزاجی خدا کی خدمت کا بھی پورا پورا خیال رکھتی ہے آخر ان ساری باتوں کو یہ جو بچہ ماں کی کوک میں دن رات پرورش پا رہا ہوتا ہے۔
کیا یہ محسوس نہیں کرتا۔ میرے خیال میں یہ سارا معاملہ اس بچے کی فطرت کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو والدین کو بڑھاپے میں دشواریوں کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے۔ والدین کی تربیت میں کچھ کمی رہ جاتی ہے۔ یہاں پر میں اپنی بات کرتا ہوں۔ والدین کی ذات ایک ایسا انمول رشتہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال نہ دنیا میں ہے اور نہ ہی ہوگی۔ والدین چاہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہوں یا حصول علم سے ناواقف ہوں۔مگر اولاد کے لئے ان کی محبت اور قربانی ایک جیسی ہوتی ہے۔ والد محترم کے والد صاحب ان کو بچپن میں ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ دن بہت غربت کے دن تھے میرے والد محترم ایک نہایت شفیق طبیعت کے مالک ہے۔ یہ بات 1999 کی ہے جب میرے والد صاحب نے مجھے ایک پرایویٹ اسکول میں داخلہ کرایا حالانکہ میرے والد کے پاس پیسوں کی کافی قلعت تھی لیکن انھوں نے اسکی پروا کیے بغیر ہمیں ہر وہ چیز دیا جس کی ہمیں ضرورت تھی۔مجھے یاد ہے جب ابو جان علیحدہ ہو گئے تو حلال رزق کی فکر آ پڑی اور اماں کی فکر علیحدہ تھی۔وہ سونچتے تھے کہ بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ ان دنوں اماں انتہائی تکلیف میں مبتلا ہو گی اور باقی جو میرے چاچو اور تایا تھے وہ بھی آنا چھوڑ گئے۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب خدا کی ذات کے علاوہ میرے والد کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔میرے والد محترم کو ہماری تعلیم سے بے حد لگاؤ رہتا تھا۔
وہ سیانے کہتے ہیں نہ کہ پیٹ کی بھوک انسان کو ہر چیز بھلا دیتی ہے۔ والد صاحب کو میری اماں نے فرمایا کہ جناب اب بڈے بیٹے کی شادی کر لیں۔ کیونکہ میں اب کمزور ہو گئی ہوں۔ اور میں اس قابل نہیں کہ کچھ کام کر سکوں۔ اماں ان دنوں رو رو کے حال برا کر لیتی تھیں کیونکہ آدھے خاندان والے تو پہلے سے الگ ہو گئے۔ کافی سالوں بعد بھایی جان کی شادی ہوگی۔ شادی کے بعد میری ابو جان اور میری اماں کے دکھوں میں کچھ کمی واقع ہوئی۔
خیر دکھوں میں تو کمی ہوئی مگر غربت مسلسل سر کا تاج بن چکی تھی۔ میرے والد محترم مسلسل محنت مزدوری کرتے اور اپنے گھر کا چولہا جلانے میں کامیاب ہوتے۔ اسی طرح سب سلسلہ چلتا رہا اللہ کریم کی ذات کے صدقے ہمیں مالک نے بہن جیسی رحمت سے نوازا جو اپنے بھاییوں کا انتہایی خیال رکھا کرتی تھی۔ اور ۔ میں اپنے ساتھ بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹا ہوں۔ میرے والدین مجھے بہت پیار کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔ ہمارے والدیں آج حج کے لیے مکہ مکرمہ میں معجود ہیں اللہ انکا حج قبول فرماییں۔مگر وہ ہر گھڑی ہماری رہنمائی کرتے ہیں ان کی ایک ایک بات میرے دل پر نقش ہو چکی ہے۔
میرے ابو جان اپنی کیی خواب پورا نہ کر سکےاور وہ اپنا خواب اپنی اولاد کو پورا کرنا کی تلقین فرماتے۔ دن رات محنت کرتے اور تمام بچوں کو پڑھنے کی تلقین کرتے۔ کیوں کے اب وہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں اچھی تربیت کے ساتھ تعلیم کے زیور کا ہونا بھی ضروری ہے۔ شاید یہی دور جدید کی حقیقت ہے اور آج ہمارے سامنے بھی ہے۔ ابو جان میری والدہ محترمہ سے بہت خوش تھے کیونکہ میری والدہ محترمہ نے ہم تمام بہن بھائیوں کی اچھی فطرت بنائی اور اچھی تربیت کی۔
یہ الگ بات ہے کہ والدین کی لاکھ کوششوں کے بعد کبھی کبھار بچہ تعلیمی سرگرمیوں میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس میں والدین کے ساتھ ساتھ علم مکتب کے اساتذہ کرام کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ جو بنا کسی تحقیق کے بچے کی قابلیت پر نا اہلی کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ استاد کی ذات یہ اہلیت نہیں رکھتی کہ جو بچے کے اندر چھپا ہوا انسان ہے اس کو نکال سکیں۔ چھپے ہوئے انسان کی تلاش کر سکے۔ اسی لیے نامناسب باتیں بچے کی زندگی کے لئے وبال جان بن جاتی ہیں۔
جب بچہ جوان ہوتا ہے تو وہ والدین کو کوسنا شروع کر دیتا ہے۔ شاید ایسے ہی کتنے والدین بچوں کی محبت سے دور ہو جاتے ہیں۔ میرے والد محترم کا بھی ایسا ہی سپنا تھا کہ میری اولاد پڑھ لکھ جائے بے شک کوئی اعلی درجے کی نوکری حاصل کر سکے۔ اکثر اوقات میرے بابا یہ ہی قیاس کرتے نظر آتے تو میں بھی دل و دماغ کو مضبوط کرتا اور اپنی منزل کی فکر کرنے لگ جاتا۔ اور اسی وجہ سے سے میری تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے تھے۔
ابو جان نے ایک دن مجھے فرمایا بیٹا مجھے ابو اس وقت کہنا جب آپ کے ہاتھ میں میٹرک کا سرٹیفکیٹ ہو۔ اور ساتھ میں یہ عندیہ بھی دیا کہ یہ دس جماعتیں آپ نے اپنے بل بوتے پر کرنی ہیں۔ آپ کی کسی قسم کی مدد نہیں کروں گا۔ خیر یہی ہی وہ بات تھی جس کی بنا پر مجھے میرے والد صاحب کی بہت فکر ہوتی اور میں یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح 10 کلاس کا سرٹیفکیٹ حاصل کر ہی لوں۔ میں صبح سکول جاتا اور دوپہر کو سکول سے آنے کے بعد اپنے کزن کے ساتھ مزدوری پر چلا جاتا۔
خیر یہ زندگی کا سلسلہ تھا ایسے ہی چلتا رہا میں پانچویں میں پہنچا اور پانچویں میں اول پوزیشن حاصل کی۔ والد صاحب نے کوئی خوشی کا اظہار نہ کیا۔ اسی طرح چند سال بعد میں نے مڈل امتحانات میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور کامیاب ہوا۔ اس میں میرا کوئی کمال نہ تھا یہ میرے اساتذہ کرام اور میرے والدین کی محبت اور محنت اور سبق تھا جو مجھے اس مقام تک لے آیا۔ میں تو ادنیٰ سا بندہ تھا جو اس قابل بھی نہ تھا کہ اپنا نام لکھ سکتا۔
آٹھوں کلاس بعد ہم نائنتھ کلاس میں بیٹھ گئے۔ جے کے بوس کے ایگزام ہوئے تو رزلٹ آنے پر میں نے نائنتھ کلاس میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ میرے والد کے دل میں ایک ہی خواب سجا تھا اور وہ تھا میٹرک کا سرٹیفکیٹ۔ الحمدللہ جب دسویں کلاس کے امتحان ہوئے تو میں نے اچھے نمبروں سے دسویں کلاس پاس کر لیں۔
دسویں کلاس پاس کرنے میں میرا کوئی کمال نہیں ہے اس میں میرے اساتذہ کرام کی محبت شفقت اور ان کی انتھک محنت رنگ لائی۔ جب رزلٹ اناؤنس ہوا اور مجھے میٹرک کلاس رزلٹ کارڈ ملا اور میں گھر اپنے والد محترم کے پاس گیا تو اس وقت ان کے چہرے پہ جو خوشی کے اثرات مرتب ہوئے وہ آج بھی میں یاد کر کے روتا ہوں۔ ہمارے والدین اپنی اولاد سے اتنی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں جن کا خیال تو کیا ہماری سوچ بھی سوچنے سے قاصر ہے۔
اسی لیے میں عرض کرتا ہوں ان نوجوانوں سے جو اپنے والدین کی بے حرمتی کرتے ہیں اور بزرگی میں ان کی بے عزتی کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہماری دنیا میں پہچان بنتی ہے انہی کی بدولت ہم اپنے آپ کو کچھ بنا پاتے ہیں۔ ان کی زبان مبارک سے ایک لفظ بھی بد دعا کا نکلا تو خدا کے عرش کو ہلا دے گا۔ اپنے والدین بہن بھائیوں کو چھوڑ کر لوگوں کو اپنا رہبر بنا لیتے ہیں۔ خود تو زندگی میں کچھ بن نہیں پاتے اور ہمیں ہمارے حقیقی منزل سے دور کرنے کے لیے ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں۔
نہیں چاہتے کہ ہم اپنے والدین کا فرمانبردار بن سکیں۔ اور ہم کچھ اچھا کام کر سکیں وہ خود اپنی زندگی میں کچھ کمال نہیں رکھتے اور نہ ہی ہمیں ایسا کرنے دیتے ہیں۔ اس لئے اکثر یہ بات کہتا ہوں کہ والدین اور خاندان کے بعد معاشرہ بچے کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہوتا ہے۔ اور یہ وہ سبق ہے جس کو ہم اپنی جوانی میں غور و فکر کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ اچھے برے کی تمیز کرنے کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ ہم جوانی کے جوشیلے خون میں اپنے والدین کی محبت اور ان کا پیار اور ان کی تربیت سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ تو آ ہیں ابھی وقت ہاتھ میں ہے۔ ہمیں ہمارے والدین کو راضی کرنا ہوگا۔ اپنی آنے والی نسلوں کو اس چیز کی ترغیب و تربیت دینی ہوگی کی حقیقی رشتہ اور حقیقی محبت عزت والدین کی محبت ہے۔ ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ اور اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ اللہ پاک ہم تمام بھائیوں کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں والدین کی خدمت کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں
اس پیڑ کا سایا مرے بچوں کو ملے گا