تحریر:ارشد عالم
جمال الدین افغانی (1839-97) مسلم دنیا کی سب سے دلچسپ شخصیات میں سے ایک ہیں۔ انہیں عام طور پر اسلامی جدیدیت کے بانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور وحدت اسلامیہ کا ایک علم بردار بھی سمجھا جاتا ہے جس نے برطانوی سامراج کے خلاف مہم جوئی کی۔ ایک جدیدیت پسند کے طور پر، کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مصری مصلح اور اسلام پسند محمد عبدہ پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ برطانوی سامراج کے خلاف ایک جنگجو کے طور پر، انہوں نے دنیا کا دورہ کیا، مسلمانوں کو غیر ملکی قبضے کا طوق اپنے گلے سے اتارنے کے لیے آمادہ کیا۔ وہ ہندوستان بھی آے اور یہ تجویز پیش کی کہ ہندو اور مسلمانوں کو انگریزوں سے لڑنے کے لیے متحد ہو جانا چاہیے۔ اس عمل میں، انہوں نے سید احمد خان پر زبردست تنقید کی اور انہیں برطانیہ کا ایجنٹ قرار دیا۔ اگرچہ ان کی سیاسی مہمات ایک الگ ہی کہانی کا موضوع ہے۔ اسلام اور سائنس کے بارے میں ان کے خیالات زیادہ دلچسپ تھے۔
فرانسیسی فلسفی ارنسٹ رینن (92-1823) نے پیرس میں اسلام اور سائنس کے درمیان تعلق پر سلسلہ وار لیکچر دیے تھے۔ یہ لیکچرز 29 مارچ 1883ء کو شائع ہوئے تھے۔ انہوں نے ان لیکچرز میں کئی تنقیدی تبصرے کیے لیکن ہمارے لیے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ انھوں نے کہا کہ اسلام نے سائنس کا گلا گھونٹ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان ترقی نہیں کر سکے۔ افغانی، جو اس وقت پیرس میں تھے، انہوں نے رینان کے مضامین پڑھے اور ایک جواب لکھا جو اسی جریدے میں 18 مئی 1883 کو شائع ہوا تھا۔ اس جواب میں، افغانی، جو کہ اسلامی جدیدیت کے بانی ہیں، درحقیقت رینان کے بنیادی دلائل کو قبول کرتے ہوئے نظر آتے۔ افغانی نے رینان سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر مذہب کے بارے میں ایک ارتقائی نظریہ پیش کیا، جو آگے چل کر 20ویں صدی میں سماجی علوم میں رائج ہوا۔
جمال الدین افغانی نے مسلمانو کے مقابلے میں یورپ کی ترقی کی وجہ عیسائیت کو قرار دیا جو کہ اسلام کے مقابلے میں (تقریباً 500 سال) قبل ہی شروع ہو چکی تھی۔ افغانی کہتے ہیں: "تمام مذاہب عدم روادار ہیں، ہر ایک اپنے طریقے سے عدم رواداری کو فروغ دیتے ہیں۔ مسیحی معاشرہ… پہلے دور سے ابھرا ہے جس کا میں نے ابھی اشارہ کیا ہے….یہ ترقی اور سائنس کی راہ پر تیزی سے آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ مسلم معاشرہ ابھی تک مذہب کی گرفت سے آزاد نہیں ہوا ہے۔ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ عیسائی مذہب اسلام سے کئی صدیاں قبل دنیا میں رائج ہو چکا ہے، میں اس امید سے مایوس نہیں ہو سکتا کہ ایک دن اسلامی معاشرہ بھی اپنے بندھنوں کو توڑنے میں کامیاب ہو جائے گا اور مغربی معاشرے کی طرح تہذیب کی راہ پر ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھے گا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ افغانی جو مغربی جدیدیت سے نفرت کرتے ہیں، اس کے برعکس م، درحقیقت وہ ایک ایسے شخص کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں جو مغربی تہذیب کو مستقبل کے مسلم معاشرے کے لیے ماڈل کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج وہ یہ جان کر انتہائی بے چین ہوئے ہوں گے کہ مسلم دنیا کی سائنسی ترقی جنوبی کوریا سے بھی کم ہے۔
افغانی نے مذہب اسلام کے بارے میں کچھ اور متنازعہ باتیں بھی کی ہیں۔ رینان نے کہا تھا کہ کہ مسلمان اپنے عقیدہ کے غلام ہیں۔ رینان کی مخالفت کرنے کے بجائے، ہم در حقیقت افغانی کو انہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، اور وہ بھی رینان سے بھی ذیادہ پرزور انداز میں: "ایک سچے مومن [مسلمان] کو درحقیقت اس راستے سے ہٹنا چاہیے جو ان کے مقصد کے لیے سائنسی سچائی ہے…. ہل کے ساتھ بندھے ہوئے بیل کی طرح، جس کا وہ غلام ہے، اسے ہمیشہ اسی راستے پر چلنا ہے جو قانون کے ترجمانوں نے اس کے لیے پہلے سے ہی بنا رکھا ہے۔ اس کے علاوہ، اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ ہمارے مذہب میں تمام اخلاقیات اور تمام علوم موجود ہیں، مسلمانوں نے خود کو مضبوطی سے اس سے باندھ لیا اور اس سے آگے جانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ سچ کی تلاش کا کیا فائدہ جب ایک مسلمان یہ مانتا ہے کہ اس کے پاس یہ سب کچھ ہے… اور اس لیے وہ سائنس کو حقیر سمجھتا ہے۔‘‘
یہ تبصرے 140 سال پہلے کیے گئے تھے۔ مسلم دنیا کا بیشتر حصہ اب بھی اپنے مذہب کے کمال پر یقین رکھتا ہے۔ اور چونکہ کمال کی شئی کو مزید بہتر نہیں بنایا جا سکتا اس لیے وہ اسلام کو عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ مندرجہ بالا حوالے میں افغانی نے ایک جدید طریقہ کار کو بھی بیان کیا ہے۔ اسلامی علوم میں جس طرح تحقیق کی جاتی ہے وہ کبھی بھی سچائی کی طرف نہیں لے جا سکتے۔ یہ تحقیق تصدیقی تعصب کی نوعیت کی ہے، جہاں محقق کے فرض کردہ اکثر باتوں کی تحقیق کے ذریعے تصدیق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ذرا بریلوی علمائے کرام کو دیکھیں جو یہ "ثابت” کر رہے ہیں کہ سورج زمین کے گرد چکر لگاتا ہے! کوئی یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ مفروضہ بذات خود غلط بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ مفروضہ قرآن سے ماخوذ ہے اس لیے اس پر شک نہیں کیا جا سکتا اور اس طرح نسلیں بالکل بے نتیجہ علمیت میں ضائع ہو جاتی ہیں۔
افغانی رینان کو اس وقت کی یاد دلاتے ہیں جب عرب اور اسلامی علوم نے پوری دنیا کو روشن کیا تھا۔ لیکن جلد ہی، وہ واضح لیکن اہم سوال پوچھتے ہیں: "اس مشعل کو اس کے بعد پھر کیوں نہیں جلایا گیا؟ عرب دنیا ابھی تک گہری تاریکیوں میں کیوں پڑی ہوئی ہے؟ افغانی کی نظر میں سائنس اور فلسفے کی موت کے لیے مذہب اسلام کے علاوہ اور کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں: "یہاں واضح طور پر مذہب اسلام ذمہ دار دکھائی دیتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ یہ مذہب جہاں کہیں بھی قائم ہوا، اس نے علوم کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی اور استبداد کے ذریعے اس مقصد کی تکمیل میں شاندار کارنامہ انجام انجام دیا۔ …. خلیفہ الہادی نے سائنس کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے بغداد میں 5000 فلسفیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مجھے عیسائی مذہب کے ماضی میں ایسے ہی حقائق دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان مذاہب اور فلسفے کے درمیان کوئی معاہدہ اور کوئی مفاہمت ممکن ہی نہیں۔
ہم دیکھتے ہیں رینان کے جواب میں، افغانی واضح طور پر سائنس اور فلسفے کے حق میں تھے۔ مزید برآں، انہوں نے دلیل دی کہ ابتدائی اسلامی تہذیبوں نے دنیا کو بہت کچھ دیا کیونکہ وہ اس وقت کے علوم کے مالک تھے۔ لیکن جیسے ہی اسلامی راسخ العقیدگی پھیلی، یہ ترقی و پیشرفت کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوئی۔ ان صفحات میں افغانی اسلام پسند ہونے کے بجائے اپنے وقت سے آگے کے آدمی دکھائی دیتے ہیں۔
جب وہ ہندوستان آئے تو انہوں نے سید احمد خان کے پیروکاروں کو نیچری (مادہ پرست) قرار دیا۔ ہندوستان میں، افغانی کو قدامت پرست مانا جاتا ہے جو روایتی اسلام سے کسی بھی انحراف کو گمراہی مانتے ہیں اور ان لوگوں کی سخت تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو مغربی علوم کی نقل کر رہے تھے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ کہیں زیادہ پیچیدہ مفکر تھے، اور انہیں قدامت پرست/ترقی پسند قرار دینا حقائق کو نظر انداز کرنا ہے۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جب ان کے شاگرد محمد عبدہ کو افغانی کی پیرس اشاعت کے مواد کا علم ہوا تو انھوں نے اس کا عربی میں ترجمہ کروانے سے انکار کر دیا کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ ایسا مواد نوجوان مسلمانوں کے ذہنوں کے لیے خطرناک ہے۔ اس کے بعد ہم نے یہاں افغانی کے بارے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اسلامی روایت کی بعض راسخ الاعتقادی پر کاربند تھے۔
لیکن عبدہ کو شاید ابن رشد کی مشہور کہاوت نہیں ملی: "نظریات کے پنکھ ہوتے ہیں، انہیں لوگوں تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔”
