تحریر: عرفان رعنا
معروف گجر لیڈر اور مذہبی رہنما میاں بشیر احمد لاروی کا یوم وصال سوموار کو پورے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ گاندربل کنگن کے وانگت علاقے میں اس سلسلے میں سب سے بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ تقریب میں کئی حلقوں کے عوام نے شرکت کی ۔ خاص طور سے گجر طبقے سے وابستہ بہت سے مرد وخواتین نے شرکت کرکے اپنے مرحوم رہنما کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ یہ لوگ پورے جموں کشمیر کے مختلف علاقوں سے یہاں آئے تھے ۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ مرحوم میاں بشیر ایک شخص نہیں بلکہ اپنے اندر ایک انجمن تھے ۔ گجر طبقے میں آپ ہر دلعزیز تو تھے ہی ۔ دوسرے طبقے بھی ان سے رہنمائی حاصل کرتے رہتے تھے ۔ آپ بنیادی طور بابا جی صاحب لاروی کے دربار میں ان کے سجادہ نشین کے طور مسند نشین تھے ۔ اپنی موت سے دو سال پہلے انہوں نے اس منصب کے لئے اپنے بیٹے اور سابق وزیر میاں الطاف کو منتخب کرکے گدی پر بٹھایا تھا ۔آپ ابھی تک بقید حیات ہیں اور اپنے والد کی طرح عوام میں بڑی قبولیت کے مالک ہیں ۔ باباجی کی درگاہ ایک پہاڑی کے نشیب میں واقع ہے جہاں گھنے جنگلات کی بہتات ہیں ۔ یہاں کے قدرتی مناظر قابل دید ہیں ۔ یہ جگہ مذہبی تقریبات کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے ۔
میاں بشیر 14 اگست 2021 کو وانگت میں انتقال کرگئے ۔ اس مقام کو بابا نگری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 98 سال کے لگ بھگ تھی ۔ انہوں نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ سیاست میں گزارا ۔ تاہم ان کی شہرت ایک مذہبی اور روحانی رہنما کے طور ہوئی ۔ لوگ انہیں ایک دینی بزرگ اور اللہ کے مقرب بندے کے طور جانتے مانتے تھے ۔ ان کے عقیدت مند ان کی ہر بات کو دل و جان سے قبول کرتے تھے ۔ ایسے رہنما بہت کم پیدا ہوتے ہیں ۔ ان کے دنیا سے چلے جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا جو پر کرنا بہت مشکل ہے ۔ آپ ایک تاریخ ساز شخص تھے ۔ ان کی وفات سے ان تاریخی واقعات کی پہچان بھی ان کے ساتھ ہی دب گئی ۔ آپ یہاں کی بہت سی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے چشم دید گواہ تھے ۔ اب ان روایات کو بیان کرنے والا یہاں کوئی نہ رہا ۔ انہوں نے جتنا بھی عرصہ دنیا میں گزارا بڑے شاندار انداز میں گزارا ۔ آپ ایک ایسے خاندان کے چشم و چراغ تھے جو ان کی ولادت سے پہلے بھی مذہبی اور روحانی حلقوں میں بڑی قدر ومنزلت رکھتا تھا ۔ میاں بشیر نے اپنے دادا میاں عبداللہ سے تربیت حاصل کی جو بعد میں آپ کے مرشد بھی بن گئے ۔ بعد میں ان کے والد نے ان کی تربیت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ان کے والد نقش بندی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے ۔ یہ صوفی سلسلے کی ایسی کڑی ہے جس کے ساتھ کئی معروف صوفی بزرگ وابستہ رہے ہیں ۔ میاں بشیر اس سلسلے کو آگے بڑھاتے رہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کے حلقہ اثر میں آگئے ۔ یہ لوگ انہیں اللہ کی ایک عنایت سمجھتے تھے اور روزانہ ایسے عقیدت مند بڑی تعداد میں بابا نگری آکر ان سے دعا و تعویز حاصل کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنے عقیدت مندوں کی صرف روحانی تربیت نہیں کی ۔ بلکہ۰ گجر کمیونٹی کو آگے بڑھانے میں بھی ایک اہم رول ادا کیا ۔ گجر ، بکروالوں اور پہاڑی لوگوں کی ترقی کے حوالے سے جب بھی بات کی جائے گی میاں بشیر کا نام بڑی عزت سے لیا جائے گا ۔ آپ لوگوں سے میل جول رکھنا پسند کرتے تھے اور صوفی عقیدے کے مطابق اسے بڑی اہمیت دیتے تھے ۔ لوگ ان کے حجرے میں آکر حاضری دیتے تھے ۔ اس کے باوجود آپ چل کے دور دراز علاقوں میں جاتے تھے اور وہاں مختلف طبقوں کے لوگوں کے مسائل کا جائزہ لیتے تھے ۔ سیاست میں ان کا ایک الگ مقام تھا ۔ پورے سیاسی کیریر کے دوران جو بھی اس کے مقابلے میں ایا شکست کھاگیا ۔ آپ تین بار اسمبلی کے ممبر رہے ۔ پہلی بار 1967 میں انہوں نے الیکشن جیتا ۔ بعد میں 1972 اور 1977 میں ہوئے انتخابات میں بھی انہوں نے آسانی سے الیکشن جیت لیا ۔ 1983 کا الیکشن درہال راجوری کے حلقے سے جیت لیا ۔ دو بار آپ کابینہ کے وزیر بنائے گئے ۔ پھر ڈپٹی منسٹر بھی رہے ۔ ایک بار اسٹیٹ منسٹر بھی رہے ۔ اس دوران ان کی کوشش رہی کہ پسماندہ طبقوں کی اس دوری کو ختم کریں جو ان کی سیاسی لیڈروں سے سالہا سال سے پائی جاتی تھی ۔ اس میں کامیابی حاصل کرکے آپ بڑی شان و شوکت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ یہی ان کی کامیابی کا روز ہے ۔
