
ہر فرد بشر اس بات سے واقف ہےکہ 15اگست 1947کو ہماراملک انگریز سامراج سے آزاد ہوا۔ جو ایک صدی سے زیادہ انگریزوں کے تسلط میں رہا۔ انگریز نے یہاں کو چاہا وہ کیا۔جیسے چاہاایسے ہی اس ملک کو تباہ وبرباد کیا۔ یہاں کے انمول خزانوں کو لوٹ کر اپنے ملک میں لے گیا۔ اس سونے کی چڑیاکو بھوسابناکر اپنے ناپاک عزائیم کو پوراکیا۔ لیکن ہندوستان کے جانثاروں نے آزادی کی خاطر روز اول سے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ کبھی تحریک ریشمی رومال،کبھی تحریک تو کبھی دیگر تحریکیں عروج زوال دیکھتی ہوئیں اپنے منزل کی طرف رواں دواں رہی۔جیلوں کے قیدوبند کی صحبتیں برداشت کرلیں۔کالاپانی جیسی بدنام زمانہ جیلوں میں انسانیت سوز تکلیفیں برداشت کیں۔ جان مال وجائیداد کی تباہی برداشت کی۔ جلیاں والا باغ جیسے قتل عام پر بھی صبروتحمل سے کام لیا۔ہمت نہیں ہارے ۔سب کا ایک ہی مشن تھا۔ایک آواز تھی کہ اپنے ملک سے قابض سامراج انگریز کو نکال کر ہی دم لیں گے۔ ہم رہیں نہ رہیں ہماری نسلیں تو ازادی سے سرشار ہونگی۔غرض کوئی ایسا حربہ اور پروپگنڈہ نہیں تھاجو انگریز نے اس ملک کی تاریخ ازادی کو روکنے کے لئے نہ کیاہو۔ وہ ہر کوشش میں مصروف تھا۔لیکن یہاں ہمارے اسلاف سپاہ سالار مجاہدین ازادی کے متوالے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اپنے مشن میں ڈٹے رہے۔ 1857سے 1947 تک اس جدوجہد میں بلالحاظ مذہب وملت رنگ ونسل ذات پات ہر ایک نے شرکت کی۔
بلاآخر ایک طویل جدوجہد کے بعد یہ ملک ان خونخوار انگریزوں سے 15اگست 1947کو آزاد ہوا۔ اور ہندوستانی قوم نے راحت کی سانس لی۔ اس جدوجہد کے دوران اقتدار کرسی اور عہدہ منشاء ومقصد نہیں تھا۔بلکہ مشترکہ طور پر ایک ہی مقصد تھاکہ ہمارا ملک ایک آزاد مملکت بنے۔اور دشمن کو کسی نہ کسی طرح سات سمندر پار کیاجاے۔آج جو ہم اس ملک میں آزاد سانس لے رہے ہیں۔یہ ان مجاہدین آزادی کی قربانیوں کا صلاح ہے۔ جنہوں نے وطن کی مٹی کو محبوب سمجھ کر انگریز سامراج کے عہدے منصب مال ودولت جاوجلال عزت اور شہرت کو حاصل نہیں کیا۔بلکہ سب کچھ وطن کی آزادی پر قربان کردیا۔
