
ہر ملک اپنے لیے کچھ جاسوس پیدا کرتا ہے۔ کسی بھی ملک کے قومی اور سلامتی مفادات کے تحفظ کے لیے جاسوسوں کا ہونا ضروری ہے۔ وہ اپنا کام خاموشی کے ساتھ انجام دیتے ہیں، کسی بھی طرح کی شہرت اور نام و نمود سے ہمیشہ دور رہتے ہیں اور اکثر ان کی خدمات اور قربانیاں گمنامی میں ہی رہ جاتی ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ دشمن ملک میں کام کرنے والا جاسوس اگر پکڑا جاتا ہے تو اس کا ملک اس سے اظہار برات کر دیتا ہے اور اسکی زندگی ضائع ہو جاتی ہے۔ زیادہ تر جاسوسوں کا انجام یہی ہوتا ہے کہ ان کا استعمال کیا جاتا ہے اور پھر ان کا ملک سفارتی، تجارتی اور دیگر پالیسیوں کے پیش نظر ان سے بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر ممالک جاسوسوں کو استعمال کرنے کے بعد چھوڑ دیتے ہیں، کیونکہ ان کی زندگی خطرے اور انتقام سے بھری ہوتی ہے۔ ایسے مختلف عوامل ہیں جو نوجوانوں کو جاسوسی ناولوں اور فلموں کے ذریعہ پیش کیے گئے خطرے، مہم سازی اور جھوٹے نام و شہرت سے بھری دنیا کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن ہر جاسوس کے لیے حالات اتنے سنگین اور پر خطر نہیں ہوتے۔ اگر کوئی اعلٰی عہدے پر ہے، خود فیصلے کر سکتا ہے، اقتدار کے قریب ہے، پالیسی سازی میں شامل ہے اور بعد میں جاسوسی کرنے والے ادارے کا سربراہ بن جائے، تو اس کے لیے خطرات کچھ کم ہو جاتے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ تر سرکاری ملازمین اچھی زندگی گزارتے ہیں۔ کیونکہ اب ان کے پاس اپنے شوق کو پورا کرنے کا وقت ہوتا ہے۔ ہندوستان کی پریمیئر انٹیلی جنس ایجنسی RAW کے سابق ڈائریکٹر اے ایس دولت نے بطور ایک مصنف اور دوسروں کے ساتھ مل کر تین کتابیں شائع کیں۔ تازہ ترین کتاب ایک سرگزشت ہے، جس کا عنوان A Life in the Shadows ہے۔ ان کی سب سے پہلی کتاب، کشمیر: دی واجپائی ایئرز، نے بہت سے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، اور کشمیر کے بہت سے علیحدگی پسند رہنماؤں کو بے نقاب کیا تھا، جن کے بارے میں ان کا الزام تھا کہ حکومت ہند انہیں باخبر رکھنے کے لیے خفیہ طور پر کافی زیادہ رقم ادا کر رہی تھی۔ اگرچہ عوام کے سامنے انہوں نے یہ موقف پیش کیا تھا کہ وہ اسلام اور کشمیر کے تنازع کی حمایت کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے سب کچھ کر رہے تھے۔
یہ نئی کتاب ایک سرگزشت ہے، جس میں انہوں نے اپنی زندگی، اپنے بچپن، اپنے والدین اور اپنے سوتیلے بھائی کے ساتھ اپنے رشتے کی تفصیلات درج کی ہیں۔ کسی بھی بچے کی طرح، اسکول کی زندگی اے ایس دولت کے لیے ایک یادگار ہے، اسی طرح ان کی محبت کی کہانی اور آئی پی ایس کا امتحان پاس کرنے کا ان کا سفر بھی کافی دلچسپ ہے۔ وہ قارئین کو بتاتے ہیں کہ کس طرح جاسوسی کی دنیا خیانت اور دھوکے بازی سے ہموار ہوتی ہے، جبکہ انٹیلی جنس اکٹھا کرنا صبر اور انتظار کا کھیل ہے۔ ایک انٹیلی جنس افسر کے طور پر ان کی صلاحیت کو کشمیر میں ان کی تعیناتی کے دوران آزمایا گیا، کیونکہ انہوں نے وحشی اور طاقتور لوگو کو بات چیت پر قائل کیا۔ کشمیر میں دشمنوں کے ساتھ یہ بات چیت ان کے لیے بڑی سخت آزمائش تھی، جبکہ پاکستان کے ساتھ ان کا جنون کسی بھی دوسرے انٹیلی جنس آفیسر کی طرح عیاں ہے۔ ہندوستانی اور پاکستانی سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ایک دوسرے کے جنون میں مبتلا ہیں، جب کہ دوسرے ممالک بھی ان کے دشمن ہیں، لیکن جب بات دشمنی کی آتی ہے تو وہ ایک دوسرے کو ترجیح دیتے ہے۔ اس لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اے ایس دولت جیسے جاسوسوں کے لیے کشمیر کا تنازعہ ایک پاکستانی منصوبہ شاخسانہ ہے، اس لیے یہ ایجنسیاں پاکستان کی امداد یافتہ قیادت میں فساد پیدا کر کے پاکستان کو شکست دینے پر زور دیتی ہیں۔ شبیر احمد شاہ، اے ایس دولت کے ہم پلہ معلوم ہوتے ہیں، جو سب سے طویل عرصے تک قید میں رہنے والے علیحدگی پسند رہنما ہونے کے ناطے کبھی کشمیر کے نیلسن منڈیلا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کے زوال کی داستان اس کتاب اور اے ایس دولت کی ماقبل کتاب میں بھی بیان کی گئی ہے۔
اے ایس دولت I.B سے RAW تک کے اپنے کیریئر کی داستان بیان کرتے ہیں، لیکن یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ آج تک کوئی بھی خاتون RAW کے اعلیٰ ترین عہدے تک نہیں پہنچ سکی۔ قومی سلامتی کے اداروں میں انٹیلی جنس اکٹھا کرنے اور ان کی قیادت کرنے میں اب بھی مردوں کا ہی بول بالا ہے۔ اے ایس دولت نے نیپال میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ نیپال ایک چھوٹا ملک ہے، جو ہندوستان کی سرحد سے متصل ہے، اس کی بے وقعتی کو دیکھتے ہوئے حکمت عملی اور اقتصادی دونوں لحاظ سے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ لیکن اے ایس دولت نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت نیپال کو دوست کے طور پر فروغ دینے میں ناکام رہا ہے۔ ان کے مشاہدات عملی ہیں کیونکہ ان کا وہاں ایک عہدہ تھا۔ صدر گیانی زیل سنگھ کے ساتھ اے ایس دولت کے سفر اور گزرے ہوئے اوقات کی روداد سے ان کی شخصیت کے بارے میں کافی اہم باتیں جاننے کو ملتی ہیں اور ان کی عوامی اور ذاتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ اے ایس دولت موجودہ ہندوستان کے فیصلہ کن اور المناک سانحات سے آگاہ تھے، چاہے وہ بھوپال گیس سانحہ ہو، اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی ہو، آپریشن بلیو سٹار ہو، یا فرقہ وارانہ فسادات میں سکھوں کی بے شمار اموات ہوں۔ انہوں نے بھوپال گیس سانحہ کے چشم دید تجربات کی تفصیل پیش کی ہے۔ اے ایس دولت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہندوستان کے سکھ 1984 کی ہولناکیوں کو نہیں بھولیں گے (ص-159)، جبکہ مسلمانوں اور کشمیریوں کے حوالے سے وہ ایسی کوئی بات نہیں کرتے، جو منصوبہ بند اور منظم فرقہ وارانہ فسادات کی چکی میں پس رہے ہیں۔
کشمیر، اس کی سیاست، وہاں کے سیاسی عناصر اور پیچیدہ تنازعات کے مختلف مراحل میں اے ایس دولت کی دخل اندازی رہی ہے، جیسا کہ ان کی کتابوں سے ظاہر ہے۔ وہ ہمیشہ کشمیر کی سیاست میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے کردار کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ وہ انہیں کشمیر میں مستقبل کی کسی بھی سیاسی پیش رفت کے لیے سب سے اہم اور کلیدی کردار سمجھتے ہیں۔ اور یہی حال ان کے اپنے بیٹے عمر عبداللہ اور حتیٰ کہ حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے سربراہ عمر فاروق سے بھی محبت کا حال ہے۔ 1986 کے دو فاروق معاہدے کی طرح، وہ پھر سے عمر-عمر کا دوہرا معاہدہ چاہتے ہیں، کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ عمر بھی علیحدگی پسندی کو پیچھے چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ بہر صورت، مرکزی حکومت کے لیے ان کا مشورہ ہے کہ فاروق عبداللہ کو ہندوستان کا حامی مانا جائے (ص-174)، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کی حکومت اب بھی فاروق عبداللہ جیسے شخص پر بھروسہ نہیں کرتی۔ فاروق عبداللہ کی سربراہی میں نیشنل کانفرنس کو باغیوں کے ہاتھوں بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس کے سینکڑوں افراد اور ممبران کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے، لیکن مرکز کی حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بی جے پی نے نیشنل کانفرنس کے دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ فاروق کو مہینوں تک حراست میں رکھا تھا، اور مرکزی حکومت کا یہ قدم نیشنل کانفرنس پر عدم اعتماد کا ایک بہترین مظہر ہے۔ اے ایس دولت، بار بار اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ قارئین یہ مان لیں کہ فاروق عبداللہ ایک زبردست اور ایک بڑے قدآور لیڈر ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں عوام میں کبھی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ اب بھی ان پر نہ تو دلی کو بھروسہ ہے اور نہ ہی کشمیر کی عوام کو۔ اب اے ایس دولت کے مطابق، فاروق نے 370 کی منسوخی کے بعد مذہب میں پناہ لینے کی کوشش کی ہے، خاص طور پر بی جے پی کے ہاتھوں ذلت اٹھانے کے بعد۔ اے ایس دولت کو ایک کشمیریت کے من گھڑت تصور سے بڑا لگاؤ ہے جس کے حوالے بالعموم یہ تصور قائم ہے کہ یہ کشمیر اور کشمیریوں کی پہچان ہے۔ یہ اصطلاح 1975 کے بعد وضع کی گئی تھی، تاکہ عوامی حمایت حاصل کی جا سکے کیونکہ شیخ عبداللہ نے حق خود ارادیت کی اپنی تحریک سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ کشمیر کو سمجھنا اب بھی کافی پیچیدہ امر ہے اور یہ صحافتی، سماجی اور فرضی اصطلاحات کشمیر کے تجزیہ اور اس کی سمجھ میں کسی کام کے نہیں۔
1990 کی دہائی کے اوائل میں کشمیر میں مسلح شورش کی صورت میں کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی کشمیر کی ہم آہنگی اور ثقافتی تکثیریت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔ اے ایس دولت واضح طور پر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ I.B کو 1990 کی دہائی میں زمینی حقائق کا کوئی ادراک نہیں تھا (ص-179)، یہ کھلا اعتراف بالکل درست ہے کیونکہ اس وقت تمام کشمیری ایک ساتھ مل کر حکومت ہند کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ تاہم، دیگر ہندوستانیوں کی طرح اے ایس دولت نے بھی اس وقت کے قدامت پسند گورنر جگموہن کو کلین چٹ دی ہے، جو بجائے اس کے کہ انہیں تحفظ فراہم کرتے، کشمیری پنڈتوں کی نقل کے لیے ذمہ دار ہیں۔ اے ایس دولت، اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے کہ 1990 کی دہائی میں حکومت اور سیکورٹی اداروں کا نظام تباہ و برباد ہو گیا تھا اور ہر طرف باغیوں کا راج تھا۔ اب، وہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی اور کشمیر پالیسی میں بھارت کی ناکامی کے بارے میں فکر مند ہیں (P-71)۔ یہ ایک بہترین سرگزشت ہے، تاہم اتنی دھماکہ خیز نہیں جتنی کشمیر پر ان کی پہلی کتاب تھی، تاہم یہ کتاب یہ کامیابی اور ناکامی کے درمیان حکومت ہند کے معاملات کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں ممد و معاون ہے۔
