از: محمد انیس
ایک میڈیکل کالج کے پروفیسر نے کلاس میں لڑکوں سے پوچھا کہ تم اس شخص کو کتنی گولیاں دوگے جس کو دل کا دورہ پڑا ہوا ھے۔ ایک لڑکے نے جواب دیا کہ چار۔ پھر ایک منٹ بعد ہی لڑکا نے کہا۔ سر ، کیا میں اپنا جواب بدل سکتا ہوں۔ پروفیسر نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا ۔ ہاں، مگر مجھے افسوس ہے کہ تمہارا مریض 40 سکنڈ پہلے مرچکا ھے۔
تقسیم کی صورت میں کم و بیش یہی واقعہ مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا۔ تقسیم سے قبل ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 40 فیصد اور غیر مسلم 60 فیصد تھی۔ یہ آبادی قرآنی معیار (نصف پر مقابلہ ۔ سورہ نحل ) سے کم نہیں تھی بلکہ زیادہ ہی تھی۔ مسلمانوں کے پاس عددی قوت تھی اور اس تناسب پر کوئی قوم مسلمانوں پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتی تھی۔
ہندوستان میں دعوت الی اللہ کا ایک بڑا میدان موجود تھا۔ دعوتی رخ پر کام ہوتا تو گذشتہ 75 سالوں میں ہندوستان کی تصویر بدل جاتی۔ عجب نہیں کہ یہاں کے SC/ST کا ایک بڑا حصہ اسلام اختیار کرلیتا اور مسلمان اس ملک میں اکثریت میں آجاتے ۔ لیکن جناح نے مسلمانوں کو تقسیم کی شکل میں چار گولیاں دے دیں۔ اس کی وجہ سے پوری ملت مدہوش ہوگئی ۔اس کا سائڈ افیکٹ اتنا زیادہ تھا کہ ہندوستان میں مسلمان کی ہوا اکھڑ گئی اور وہ کمزور ہوکر ہندؤں کے شکنجے میں آگئے۔ اس وقت مسلمان بظاہر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوئے تھے ۔ ہندوستان اور پاکستان۔ مگر اصل میں وہ چار ٹکڑوں میں بکھر گئے۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر۔ آج دو قومی نظریہ کے حاملین قیامِ پاکستان پر بھلے ہی بغلیں بجا لیں ، لیکن ایک قوم جب سرور میں آکر تقسیم کے ترانے گانےلگیں تو وہ کس قدر کمزور ہوسکتی ھے’ اس کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ھے۔ دنیا میں اس سے بڑی حماقت اور کیا ہوگی کہ ایک قوم از خود اپنے آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کرلے اور پھر کمزور ہوکر رہ جائے۔ موجودہ ہندوستان میں آج مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ تقسیم اور تقسیم کا یہی بھنورجال ھے جس کے جنجال سے ابھی تک وہ نکل نہیں پائے ہیں۔
تقسیم کا عمل مسلمانوں نے کیا، سو اس کا خمیازہ تنہا وہی بھگت رہے ہیں ۔ اب اس کا مجرم دوسری قوم میں تلاش کرنے سے کیا حاصل ؟ ان کی تو چاندی ھے ۔ اب ہمیں نئے حالات اور نئے عددی تناسب کے لحاظ سے منصوبہ بندی کرنی چاہئے ۔ تقسیم کے بعد ملک میں مسلمانوں کی آبادی 40 فیصد سے گھٹ کر 13 فیصد ہوگئی۔ اب اگر وہ 40 فیصد والا پرشور تیور اختیار کریگا (اور وہ بھی صرف سیاست میں’ نہ کہ تعمیری کاموں میں) تو ہر محاذ پر ٹھوکر کھائے گا’ خواہ مسلم اتحاد کی جڑیں کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں۔ کچھ احباب اقلیتوں کے تمام مسائل کا حل علحدہ سیاست میں بتارہے ہیں ۔ یہ وہی مغالطہ ھے جو تقسیم سے قبل مسلمانوں کو لاحق ہوگیا تھا۔ حقیقت یہ ھے کہ دنیا میں کہیں بھی کسی اقلیت کے مسائل کا حل اس کی سیاست میں نہیں بلکہ اس کے سماجی خدمات میں پنہا ہوتا ھے۔ مسلمانوں کا وقار تب بلند ہوگا جب وہ امت وسط اور خیر امت کا رول ادا کریگا، جب وہ سوسائٹی کیلئے اثاثہ (asset) بنےگا نہ کہ بوجھ ‘جب وہ دینے والا گروہ بنےگا ، نہ کہ مانگنے والا۔
