تحریر:پروفیسر اوپندرا کول
انگریزی سے ترجمہ۔۔ڈاکٹر جی ایم بٹ
نام ایک آدمی کی پہچان ہوتی ہے ۔ اس کے ساتھ جو ذات یا سرنام لگا ہوتا ہے وہ اس کی شناخت اور فیملی پس منظر کو اجاگر کرتا ہے ۔ کسی شخص کے ذاتی اوصاف اور اس کا خاندانی حسب و جاننا ہوتو یہی فیملی نام اس کو اجاگر کرتا ہے ۔ اس کے ذریعے سے اس کی مذہبی شناخت ہوتی ہے ۔ بلکہ وہ کس نسل اور علاقے سے تعلق رکھتا ہے اس کا اندازہ بھی اسی سے ہوتا ہے ۔ جب ہم کسی کے نام کے ساتھ اگروال ، متل ، جنڈل ، گوئل ، بنسل یا کنسل جڑا دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخص بنیا ذات کا ہندو ہے اور شمالی ہندوستان کے کسی حصے کا رہنے والا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ مذکورہ آدمی خالص سبزی خور ہے ، ہندی زبان بولتا ہے اور اس کی معاشی حالت مضبوط ہوگی ۔ یہ ذاتی نام کے ساتھ جڑے محض ایک لفظ کا کمال ہے ۔ ایسے ہی سبرامنیم کسی کے نام سے وابستہ ہو تو معلوم ہوگا کہ بندہ تامل ناڈو یا کیرالہ کا رہنے والا ہے اور برہمن ذات سے تعلق رکھتا ہے ۔ سبرامنیم سنسکرت میں برہمن کا قریبی دوست مانا جاتا ہے ۔ ان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ذہین ہونے کے علاوہ اسکالر ٹائپ کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ایسے کئی اشخاص ہمارے ہاں بڑی اہمیت کے حامل رہے ہیں ۔ ڈاکٹر سی سبرامنیم کابینہ میں منسٹر ہونے کے علاوہ پلاننگ کمیشن کے چیرمین بھی رہے ہیں ۔ اسی طرح سبرامنیم سوامی سیاست دان ہونے کے علاوہ معیشت کے شعبے کے بھی ماہر تھے ۔ گوپال سبرامنیم جی سے کون واقف نہیں ۔ آپ عالمی شہرت کے مالک تھے ۔ ایک متاز قانون دان ہونے کے علاوہ ملک کے اٹارنی جنرل بھی رہے ہیں ۔ تامل ناڈو کے بغل میں ایک اور ریاست ہے آندھرا پردیش ۔ اب تلنگانہ کے نام سے دوسری ریاست بھی قائم ہے ۔ یہاں اکثر لوگوں کے ساتھ ریڈی کا لاحقہ موجود ہے ۔ اس نام کے بہت سے لوگوں کو آپ نے سیاست کے میدان میں دیکھا ہوگا ۔ اس کے علاوہ یہ بڑے زمیندار ہیں ۔ ایک اور بات ہے ۔ بینر جی ، مکھر جی ، چٹرجی ، بٹاچاریہ اور گنگولی بہت ہی نمایاں ذاتیں ہیں ۔یہ سب لوگ اصلی برہمن بتائے جاتے ہیں ۔ ایسے بیشتر لوگوں کی جڑیں اجین سے تلاش کی گئی ہیں ۔ اصل مقام آندھرا لیکن اب بنگال ان کا وطن بن گیا ہے ۔ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اس کی زندہ مثال ہے ۔
انڈیا ملک ہی ایسا ہے جہاں اس طرح کی بیشتر ذاتیں تلاش کی جاسکتی ہیں ۔ لیکن یہ فارمولہ کشمیر آتے آتے غلط ثابت ہوتا ہے ۔ یہاں کسی کی ذات معلوم کرکے اس کے اوصاف یا کام کاج اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے ۔ بلکہ اس حوالے سے کسی شخص کو مذہبی رنگ دینا بھی ممکن نہیں ۔ کشمیر میں عجیب بات ہے ۔ یہاں کسی کا نام معلوم کرکے اس کی مذہبی شناخت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔ پیر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو بھی ہیں ۔ ولی اور مرزا ہندو بھی ہوسکتا ہے اور مسلمان بھی ۔ کوئی ریشی یا پنڈت ہو تو اس سے دھوکہ مت کھائے ۔ اس نام کے لوگ ہندووں میں بھی ہیں اور مسلمانوں میں بھی ایسی ذاتیں پائی جاتی ہیں ۔ ملک کے دوسرے علاقوں کے برعکس یہاں ہندو اور مسلمانوں کے ناموں میں مماثلت پائی جاتی ہے ۔ ولی اصل میں عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی دوست کے ہیں ۔ یہ لفظ زیادہ تر دینی بزرگوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جس کے معنی ہیں اللہ کا دوست ۔ لیکن یہ نام مسلمانوں کے بجائے زیادہ تر ہندو وں میں پایا جاتا ہے ۔ کشمیری پنڈت اس نام کو اپنے لئے زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ اب مسلمانوں کی پہچان کی طرف آیئے ۔ پبلک سروس کمیشن کے سابق چیرمین محمد شفیع پنڈت رہے ہیں ۔ ایک مسلمان ہونے کے باوجود ان کے نام کے ساتھ پنڈت کا لفظ جڑا ہواہے ۔ غلام جیلانی پنڈت اپنے زمانے کا مشہور پولیس آفیسر رہا ہے ۔ بعد میں آپ پولیس کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے ۔ معروف معالج مہاراج کشن پیر کوئی مسلمان نہیں بلکہ کشمیری پنڈت تھا ۔ من موہن ولی دہلی کا اسی کی دہائی میں دہلی کا ایل جی تھا ۔ جیوتی پرکاش ولی ایمز میں زبان زد عام نام تھا ۔ مرزا ، در ، ڈار ، بٹ ، چیکو، درانی ، کاچرو، درابو ، کلو، کنا، کائو ، کھر ، کھڈا، کچلو ، منشی ، مچاما ، پڈر ، پارمو اور رعنا ایسے نام ہیں جو ہندو اور مسلمانوں میں بغیر کسی تشخیص کے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اندازہ لگائے کہ کچھ نام ایسے ہیں جو بنیادی طور چرندوں پرندوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔ پھر بھی ان کو بطور نام کے لوگ استعمال کرتے ہیں ۔ مثلاََ ہانگلو ، کھر، بریور، کانٹرو، کوکرو، کائو، بمبرو، کوترو، داند، ہون ، یچھ ، کوکلو وغیرہ ایسے نام ہیں جو یہاں بہت سے لوگ استعمال کرتے رہے ہیں ۔ کئی مشہور اشخاص ان ناموں کے حامل رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں میں سابق بیرو کریٹ ایم کے کائو مرکز تک مشہور رہے ہیں ۔ اخبار نویس ایم ایل کوترو سے کون واقف نہیں ہوگا ۔ انہوں نے اپنے انموں سے جڑے یہ الفاظ معیوب نہیں سمجھے ۔ جانوروں اور حیوانوں کے ناموں کے علاوہ کشمیر میں سبزیوں اور میووں کے نام بھی لوگوں کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں ۔ مجو ، بم ژونٹ ، ہاکھ، وانگنو، ندرووغیرہ ایسے ہی کچھ نام ہیں ۔ اس کے علاوہ جد و اجداد کے کام کاج سے جڑے نام بھی موجود پائے جاتے ہیں ۔ لوگوں نے یہ کام ترک کئے ہیں لیکن ایسے خاندان ابھی تک اسی نام سے جانے جاتے ہیں ۔ آرم ، کرال، گورو، حکیم ، وازہ ، بزاز وغیرہ ایسے نام ہیں جو کام یا خاندانی پیشوں کا حوالہ دیتے ہیں ۔ زیر نظر مضمون کے قلم کار کا نام تو کول ہے ۔ لیکن ریونیو ریکارڈ میں اصل لفظ خان استعمال ہوا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ اس کے اجداد بہت عرصہ پہلے افغانی گورنر خانوں کے ساتھ بطور منشی کام کرتے تھے ۔ کول بھی مسلمان اور پنڈتوں میں مشترکہ طور استعمال ہوتا ہے ۔ ایسی کئی باتوں کو دیکھ کر غلام نبی آزاد نے حال ہی میں ایک بیان دیا جس میں انہوں نے کہا کہ کشمیر میں رہنے والے مسلمان اصل میں ہندو ہیں اور کسی وجہ سے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے ۔ ان کا اصل نام غلام نبی بٹ ہے جو ان کے بیان کے تناظر میں اصل میں پنڈتوں سے متعلق ہے ۔ شیخ محمد عبداللہ کا جد بھی ایک پنڈت تھا جس کا اصل نام راگھو رام کول تھا ۔ اس کا ذکر ان کی کتاب آتش چنار میں آیا ۔ اس تاریخی حقیقت کو تنگ نظری سے نہیں بلکہ آنے والے زمانے کے وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہئے ۔
