تحریر:جہاں زیب بٹ
کچھ دنوں سے کیوریٹوسروے نامی فرم کانام گھر گھر لیا جارہا ہے کہ اس نے کشمیر میں ہزاروںگاہک پیدا کئے جوگزشتہ ایک برس کے دوران آن لائن انسوٹنمنٹ کیا کرتے تھے اس بھروسے پر کہ وہ جتناپیسہ فرم کے پاس جمع کریں گے اس کے بدلے ان کو بھاری منافع ملے گا اتناکہ ان کی جمع کی گئی رقم صرف پندرہ دن میںدوگنی ہوجائے گی ۔ شروع شروع میںچند ایک گاہک شکم سیر ہوگئے کہ فرم نے ان کے اکاونٹ میںواقعی دوگنی رقم جمع کردی لیکن بہت جلد فرم جعلساز نکلی اور اس نے ٹال مٹول کرنا شروع کیا ۔ پھر فرم ہی رفو چکر ہوگئی اور اب جموں وکشمیر میں ہزاروںگاہک کف افسوس سے ہاتھ مل رہے ہیں ۔یہ گھوٹالہ یہ سیکنڈل کیسے ہوا ۔گاہکوں کاالزام ہے کہ کچھ مقامی یوٹوبرس کے بھروسے پر انھوںنے فرم کو حقیقی سمجھ لیا اور وہ فراڈفرم کا آسان نشانہ بن گئے ۔
تازہ سکینڈل میںجو گاہک دھوکہ کھاگئے وہ کچھ بھی کہیں تو اس پر کان دھر اجائے گا۔ ہنگامہ آرائی میںادھر ادھر سے بھی راہ گیر تماشہ دیکھنے آئیں گے ۔ نیو ز چینلوں اور فیس بک جرنلسٹ چوراہوں پر مائیکیں اور کیمرے سجادیں گے اور سینہ کوبی میںآگے آگے دکھیں گے ۔ آخر ان کو بھی گاہک چاہیے جو سوشل میڈیا پرسو ہزار اورلاکھ کی تعداد میں لائیک اور شییر کریں ۔پھر یہ حضرات آپسی رسہ کشی کی آگ میں بھی جل رہے ہیں ۔ حسد اور بغض سینوں میںپال رہے ہیں ۔لہذا انھیں اس سے زیادہ سروکار نہیںکہ کون لٹ گیا ؟ کس کی کمائی پونجی پر ہاتھ صاف ہوگیا؟انھیں دلچسپی ہے مصالحہ ملنے سے ۔ وہ جلتی دھاڑی پر ہاتھ سینکنے سے دلچسپی رکھتے ہیں اوربس۔ وہ بڑے بڑے دلنشین سوالات اٹھائیں گے اور لٹے گاہکوں سے داد تحسین حاصل کریں گے ۔ اس قسم کے کئی ایک سوالات اٹھائے بھی جاسکتے ہیں کہ جب جعلی فرم نے سرینگر اور جموں میں دفاتر کھول دئیے اور وہاں گاہکوں کا تانتا بند ھ گیا تو مقامی پولیس تھانے کیا کررہے تھے؟لیکن اس چیز کو بھی اجاگر کیاجاناچاہیے کہ پولیس بار بار سائبر کرائم کے بارے عام لوگوں کو خبردار کرتی رہتی ہے ۔ سائبر کرائم ایک ایسا جال ہے ایسا سلسلہ ہے جو جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ اس تعلق سے کچھ سنسنی خیز واقعات میڈیا سپرد ہوتے ہیں او ر کچھ حضرات منہ کھولنے میں بھی شرم محسوس کرتے ہیں اوراند رہی اندر ان کا دم گھٹ جاتاہے ۔ جیسے جیسے انٹرنیٹ کی دنیا وسیع ہوتی جائیگی جعلساز اور مکار نسل بھی پھل پھول جائے گیا ۔ اس کی روک تھام ممکن نہیں ۔ پولیس اور حکومت کی ذمہ داریاںاپنی جگہ لیکن لٹیروں اور جعلسازوں سے محفوظ رہنا انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ اسے خود ہی احتیاط برتنی ہے اور عقل سے کام لینا ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جب دنیا کی لالچ میں پھنس جاتے ہیں راتوں رات گداسے شاہ اور شاہ سے شہنشاہ بننے کے خوا ب دیکھتے ہیں تو پھر از خود ہماری گمراہی کے راستے کھل جاتے ہیں ۔پھر کوئی ہمیں یہ لقمہ منہ میںڈال دے کہ پانچ لاکھ پندرہ دنوں میں دس لاکھ ہوجائیں گے تو یہ چیز عقل سے ماوراء ہونے کے باوجود ہم منہ میںلیا ہوا لقمہ چباتے ہیں ،ہضم کرتے ہیں اور ڈکار چھوڑتے ہیں ۔دولت کمانا تو ٹھیک ہے لیکن یہ جائز طریقوں سے حاصل کرلینی چاہیے ، حلال اور حرام کی تمیز رہنی چاہیے ، حرص وطمع محدود دائرے میں رہنا چاہیے ۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ اس کو احد پہاڑ کے برابر بھی سونا دے دووہ دوسرا پہاڑ مانگے گا ۔ حرص کی پیاس کبھی بجھتی نہیں ۔ یہ تب بجھتی ہے جب آنکھوں پر قبر کی مٹی پڑ جاتی ہے ۔ لہذا سلامت رہنے کا بس یہ ایک راستہ ہے کہ دنیا جم کر کمائو مگر جائز طریقے سے ۔ جب کبھی نفس بے لگام ہوجائے تو موت کا ازیت ناک واقعہ یاد کرو۔
