
گزشتہ دو ماہ سے بین الاقوامی توجہ غزہ کے جاری بحران پر مرکوز ہے، لیکن اس کے پس منظر میں پاکستان میں ایک اور انسانی المیہ سامنے آ رہا ہے، جسے انسانی ہمدردی کے اداروں کے علاوہ شاید ہی کسی نے محسوس کیا ہو۔ اطلاعات کے مطابق، یکم اکتوبر سے اب تک 370,000 سے زیادہ افغان شہری پاکستان سے دوبارہ افغانستان پہنچ چکے ہیں۔ جب پاکستان نے دس لاکھ سے زائد غیر دستاویزی مہاجرین کو نکالنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، جن میں زیادہ تر افغان تھے۔
تاہم، پاکستان کی سپریم کورٹ نے 2 دسمبر 2023 کو ایک اہم فیصلے میں مشاہدہ کیا کہ پاکستان مہاجرین کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے کنونشنز پر دستخط کرنے والا ملک ہے اور یہ معاہدے پاکستان کو پناہ گزینوں کی امداد کے لیے پابند کرتے ہیں۔اس سے قبل، نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ کمیٹی نے 3 اکتوبر 2023 کو غیر ملکی شہریوں کے لیے 31 اکتوبر تک رضاکارانہ طور پر پاکستان سے نکلنے یا ملک بدری کا خطرہ مول لینے کی آخری تاریخ جاری کی تھی۔اطلاعات کے مطابق، اس فیصلہ نے پاکستان میں تقریباً 1.7 ملین افغان مہاجرین کے علاوہ ایغور اور میانمار کے روہنگیا سمیت دیگر مظلوم کمیونٹیز کے ارکان کو بھی متاثر کیا ہے۔ افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد سے پاکستان میں رہنے والے 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی اکثریت پاکستان ہجرت کرچکی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ 2021 میں طالبان 2.0 کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 600,000 سے 800,000 کے درمیان مزید افغانی شہری مہاجرین کے طور پر پاکستان پہنچے تھے۔
پاکستانی کریک ڈاؤن
میڈیا رپورٹس کے مطابق، پولیس اور دیگر اہلکاروں نے افغانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر حراست، رات کو چھاپے اور مار پیٹ کی شروعات کردی ہے۔ انہوں نے افغان پناہ گزینوں کی املاک اور مویشیوں پر قبضہ کر لیا ہے اور گھروں کو بلڈوز کر دیا ہے۔ انہوں نے زیورات ضبط کرنے اور شناختی دستاویزات کو تباہ کرنے کے علاوہ رشوت کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ پاکستانی پولیس نے بعض اوقات افغان خواتین اور لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا ہے اور انہیں جنسی حملوں کی دھمکیاں دی ہیں۔ جن لوگوں کو واپس افغانستان جانے پر مجبور کیا گیا ہے ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں افغانستان میں ظلم و ستم کا زیادہ خطرہ لاحق ہوگا، جن میں خواتین اور لڑکیاں، انسانی حقوق کے محافظ، صحافی، اور سابق سرکاری ملازمین شامل ہیں جو اگست 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے پاکستان پہنچے تھے۔خطرے سے دوچار افراد میں سے کچھ کو پہلے امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا میں دوبارہ آباد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا،کیونکہ وہ لوگ ان ملکوں کے سفارت خانوں میں کام کرتے تھے، لیکن دوبارہ آبادکاری کے عمل تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے کہا ہے کہ افغانستان میں لاکھوں افراد کی آمد کا’’اس سے برا وقت نہیں ہوسکتا تھا‘‘ کیونکہ ملک کو ایک طویل معاشی بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے دو تہائی افغان آبادی کو انسانی امداد کیضرورت ہے اور اب چونکہ موسم سرما شروع ہوچکا ہے تو پناہ گزینوں کی صعوبتوں میں اور اضافہ ہوگا ۔
واپس افغانستان آنے والے اکثر کچھ بھی اپنے ساتھ نہیں لے کر آتے ہیں، کیونکہ پاکستانی حکام نے افغانوں کو 50,000 پاکستانی روپے (175 امریکی ڈالر) سے زیادہ لے جانے سے منع کیا ہے۔ اور ان پر مزید 873 امریکی ڈالر کا فی فرد کا ٹیکس بھی لاگو کردیا ہے جس کی ادائیگی کے لیے واپس جانے والے افغان پناہ گزین اپنا سارا اثاثہ کوڑیوں کے بھاؤ پاکستانیوں کو بیچ کو واپس جارہے ہیں۔
انسانی ہمدردی کے عالمی اداروں نے واپس پہنچنے والوں کے لیے خیموں اور دیگر بنیادی خدمات کی کمی بیان کی ہے۔اپنی طرف سے افغان حکومت نے جلال آباد کے شہر جو کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک کراسنگ پاؤنٹ ہے اس کے طورخم علاقہ میں ایک بڑا ٹینٹوں کا شہر تعمیر کردیا ہے۔ لیکن اس میں بنیادی شہری سہولیات نہ کے برابر ہیں۔
پاک- افغان تعلقات
بظاہر، جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر دوبارہ قبضے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور وسیع ہونے کے امکان ظاہر کیے جارہے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دراصل طالبان 2.0 پہلے والے طالبان کی طرح نہیں ہیں۔ اس بار انھوں نے اپنے آپ پر یقین رکھتے ہوئے آئی ایس آئی کے ذریعے پاکستانی حکم پر عمل کرنے کے بجائے، خود اپنا ایک نیا طریقہ حکومت اختیار کیا ہے جو کہ اسلامی بنیادوں پر تعمیر کیا گیا ہے۔
گزشتہ سال طالبان کی نئی حکومت نے ڈیورنڈ لائن پر سرحد پر باڑ لگانا شروع کیا تھاتو یہ تعلقات اور بھی کشیدہ ہو گئے تھے۔ اس کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارت کا مسئلہ بھی شامل ہے، جس نے گزشتہ دو سالوں میں دو بار پاکستان کے راستے افغانستان میں سامان کی آمد و رفت روک دی تھی۔ پاکستان نے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (ATTA) کو سخت کرنے کے لیے کئی اقدامات بھی کیے ہیں، جن کا ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سامان کی اسمگلنگ کے لیے غلط استعمال کیا گیا ہے۔
مزید برآں، پچھلے ایک سال کے دوران، پاکستان کے اندر عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جن میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے، جو کہ افغان طالبان کی قریبی اتحادی ہے۔ پاکستانی حکام نے حملوں میں اضافے کے لیے جزوی طور پر افغان مہاجرین کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی، صوبہ پنجاب کے میانوالی میں فضائیہ کے ایک اڈے پر حملہ کیا گیا، حالانکہ زیادہ تر حملے افغانستان کے ساتھ طویل سرحد کے قریب ہوتے ہیں، جہاں اسلام آباد کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔جب مہاجرین کی ملک بدری کا فیصلہ سنایا گیا تو عبوری وزیر سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ اس سال پاکستان میں ہونے والے 24 خودکش حملوں میں سے 14 افغان شہریوں نے کیے تھے۔
کابل میں طالبان حکومت نے ان حملوں میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے تاہم اس نے اسلام آباد کے سیکورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں کیا ہے۔
مہاجرین کے موضوع پر تعلقات کے خراب ہونے کے ساتھ ہی ، افغان عبوری وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند نے مہاجرین کو ملک بدر کرنے کے پاکستان کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
شاید پاکستان کی حکومت اسلام کی ابتدائی تاریخ سے تارکین وطن کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے سبق لیتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اسلام کی تعلیم تارکین وطن اور شہریوں کے درمیان باہمی مدد فراہم کرنے کے لیے بہت اہم بنیادیں رکھتی ہے۔ قرآن پاک اور پیغمبر کے ارشادات میں پرامن معاشروں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو تارکین وطن کے ساتھ ساتھ باقاعدہ شہریوں سے بھی متعلق ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو۔ اگر واقعی وہ اسلام کی روایت سے سبق لیں تو اس معاملے میں زیادہ انسانی رویہ اپنا سکتے ہیں۔
اگرچہ موجودہ صورت حال پاکستان کی اپنی معاشی پریشانیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، لیکن اس کی ایک وجہ طالبان 2.0 کے ساتھ پاکستان کے خراب ہوتے تعلقات بھی ہیں، جو کہ جیسا پاکستان امید کررہا تھا، ان راستوں پر نہیں چلے۔ اس کے ساتھ ہی موجودہ معاملے میں سب سے زیادہ متاثر عام افغان شہری ہیں۔ اس پس منظر میں انسانی ہمدردی کی بین الاقوامی ایجنسیوں اور مغربی حکومتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس مسئلے کا نوٹس لیں اور افغان شہریوں کی دیکھ بھال کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اقدامات شروع کریں اور دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی بھی کوشش کریں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
