از:جہاں زیب بٹ
حال ہی میںڈاکٹر کوثربخشی نامی ایک کشمیری کاروباری شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ پہلا کشمیری بن گیاہے جس نے چاند پرزمین خریدلی جو اس نے اپنے بابا کو تحفہ میں دے دی ۔مذکورہ ڈاکٹر کاکہناہے کہ وہ اپنے بابا سے والہانہ محبت کرتا ہے اور اسکے احسانا ت کی کچھ قیمت چکانے کے لیے اس نے چاند پرزمین خرید لی جس کے کاغذات اس کے پاس پہنچ گئے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کا دعوی ٰ کتناٹھوس اور مبنی حقیقت ہے اندازہ کرنامشکل نہیں ہے ۔ ہر کوئی پوچھ سکتا ہے کہ چاندکے مالکانہ حقوق کس کو حاصل ہیں ؟ اس کی زمین کون بیچ رہاہے ؟ اگر کسی کشمیری نے بابا کی پیارومحبت میں چاند پر پلاٹ خرید لیا تو اس کا مقامی ریونیو ریکارڑ میں اندراج ہوا ہے یانہیں ؟
چاند پر زمین خریدنے کی حرکت پہلے بھی ہوئی ہے اب بھی ہوئی اور آگے بھی ہوگی ۔ جب سے بھارتی سیٹلائٹ چندریان تین کی چاندپر کامیاب لینڈنگ ہوئی ملک میں اس قسم کا فیشن سر ابھارہاہے کہ چلوجی چاند پر زمین خرید لیں اور فلاں کوگفٹ کریں ۔اب ایک کشمیر ی کا نام بھی میڈیا میں آگیا کہ اس کو بھی چاند پر زمین خریدنے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل ہوگیا ۔ اس معاملے کو میڈیا تشہیر کیا مل گئی کہ کچھ حلقوںکو ہنسی مذاق کاسامان ہاتھ آگیا جبکہ کچھ اور حلقے ا س بات کو لیکر پریشان ہیں کہ کشمیر میں چاند پرزمین خریدنے کا ایک نیا دھندہ شروع ہونا خارج از امکان قرار نہیںدیا جاسکتا کیوں کہ ہم کشمیری کئی ایک معاملات میں’’بھیڑ چال‘‘کے حامل قرار پائے ہیں ۔لہذا بہت سے لوگوں کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ چاند پر پلاٹ خریدنے ایسے مسلے کی فی الواقع حقیقت کیا ہے؟
یہ بتانے کی ضرورت نہیںہے کہ خلائی تحقیق و تجربات ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔ چاندزمین کے بہت قریب ہے ۔لہذا انسان بڑے تجسس اور بے تابی کے ساتھ اس پر نظریںجمائے ہوئے ہے اور سائنسی معلومات اور ٹیکنالوجی کے تمام ذرایع بروئے کا ر لارہاہے تاکہ ایسا کوئی راستہ تلاش کیا جاسکے جس سے چاندپر آواجاہی ہوسکے یا انسانی بستیاںبسانا ممکن ہوسکے ۔ابھی تک اس طرح کا حسین خواب شرمندہ تعبیر ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے ۔ نیل آرم سٹرانگ نے چاند پر قدم رکھا۔ بھارت کا چندریان تین مشن بھی کامیابی سے ہمکنارہو ا لیکن کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں ہو سکاکہ آیا انسا ن کبھی چاند پربستی بساسکے گا یا نہیں ؟ رہی بات چاندپرزمین خریدنے کی تو اس حوالے سے 1967کا outer space Treaty اس حقیقت کا غماز ہے کہ چاندکسی کی ملکیت نہیںہے چاہے ملک ہو یاکوئی شخص۔ اسکے باوجود ڈینس ہوپ ایسے دلال موجود ہیں جنھوں نے چاند کی زمین بیچنے کا دھندہ شرو ع کیا ۔ ڈینس ہوپ بے روزگارتھا ۔ اس نے اسی کی دہائی میں دعوی ٰ کیا کہ اسے چاند کے مالکانہ حقوق حاصل ہیں اوراس زعم میں مبتلا ہوگیا کہ وہ دنیا کا امیر ترین انسان ہے ۔ وہ تیس برس سے چاند پر پلاٹ بیچ رہاہے ۔اب یہ عالمی پیمانے کا دھندہ بن گیا ہے ۔
چاندپر پلاٹ خریدنا خیالی پلائو ہے ۔مفروضہ ہے۔ جو لوگ زندگی کی دوڑ میںناکام ہیں۔کرہ ارض پر زمین خرید نہیں سکتے وہ دو تین ہزار کی رقم سے آن لائن چاند پر پلاٹ خریدنے کا مفروضہ کھڑ ا کرسکتے ہیں ۔جن کو کرہ ارض پر سماجی پہنچان ، روزی روٹی کا مسلہ درپیش ہے یا جو احساس کمتری کا شکار ہیں اور خیالی دنیاکے باسی ہیں وہ معمولی پیسہ سے چاند پر پلاٹ خرید نے کا ڈرامہ رچائیں تو اس میںتعجب کی کوئی بات نہیں ہے ۔البتہ افسوس اس بات کاہے کہ اس غلط رجحان کا جذباتی پہلو بنایاجارہاہے ۔ بابا،ممی یا گرل اور بوائے فرینڈ سے پیار و محبت جتلانے کا یہ کون سا حقیقت پسندانہ اپروچ اور مخلصانہ قربانی ہے کہ خیالی دنیامیںپناہ لیکر چاندپر زمین خرید کر اپنے اپنوںکوتحفہ کے طور پر پیش کریں ۔ ہم بس اتنا کہہ سکتے ہیں :
دل کے بہلانے کوغالب! یہ خیال اچھاہے۔
