• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
بدھ, مئی ۱۴, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم رائے

عیادت کیجئے بیمارکو پیام اجل نہ سنایئے

Online Editor by Online Editor
2024-01-17
in رائے
A A
نیا اسلامی سال مبارک ہو
FacebookTwitterWhatsappEmail
ایم شفیع میر

ہمارے دین ااسلام نے مریض کی عیادت کرنے پر بڑا زور دیاہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں حکم دیا’’مریض کی عیادت کرو‘‘،پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’جب بھی کوئی مسلمان صبح کو کسی مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو شام تک پچاس ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں اور اگر شام کو عیادت کرتا ہے توصبح تک پچاس ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں اور جنت میں اس کے لیے چنے ہوئے پھل ہوں گے‘‘۔لیکن موجود وقت میں عیادت داروں کی طرزِ عیادت مریض کیلئے وبال جان بن گئی ہے۔
محلہ میں کوئی بیمار پڑ جائے اور یہ خبر عام ہوجائے عیادت داروں کی قطاریں لگ جاتی ہیں، نہ آنے کاکوئی پتہ نہ جانے کی خبر،جب مرضی آئی بغیر سوچے سمجھے عیادت کیلئے مریض کے کمرے میں آکر مہمان بن جانا ،گھنٹوں بیٹھ کر خوب گپیں چھوڑنا،بحث و مباحثے کرنا ایک معمول بن گیا ہےـ ادھر عیادت داروں کی اچانک سے لمبی لمبی قطاریں مریض کیلئے وبال جان بن جاتی ہیں ،مریض اچانک سے بدلی ہوئی اِس صورتحال کو دیکھ کر خوف کا شکار ہو جاتا ہے، مرض سے کم اور عیادت داروں کے ہجوم سے مریض زیادہ تکلیف کا شکار ہو جاتا ہے ۔مریض پوری طرح سے یہ یقین کر لیتا ہے کہ ہونہ ہو میری زندگی کا اب خاتمہ ہونے والا ہے،اب بچنے کی کوئی اُمید باقی نہیں ہے۔مریض کے من میں یہ سوالات ضرور ابھر تے ہونگے کہ آخر وجہ کیا ہے ؟ کوئی تو معاملہ ہے ؟ورنہ لوگ یونہی قطار در قطار عیادت کرنے کیوں آتے؟ جس شخص کو برسوں سے اپنے گھر میں آتے نہیں دیکھاآج وہ بھی میراحال جاننے آپہنچا ہے ،دہائیوں کے بھولے بسرے رشتہ دار اچانک سے آنکھوں کے سامنے گردش کرتے دکھائی دے رہے ہیں، یہ ملاقاتیں،یہ اچانک سے اُمڈ آنے والی اپنائت اورمحبت یہ سب کیا ہے؟یہ معافی تلافی ؟یہ نرم لہجوں بھرےکلام؟یہ کلام کہیں آخر سلام تو نہیں؟کہیں میں (مریض)کسی لاعلاج مرض کا شکار تو نہیں؟ کہیں ڈاکٹروں نے میری زندگی کے آخری ایام کااشارہ تو نہیں دیا ہے ؟؟یہ ساری کی ساری صورتحال ایک مریض کیلئے کس قدر اذیت ناک ثابت ہوتی ہےاِس پر عیادت داروں کا خیال کبھی جاتاہی نہیں ہے ۔بہت سے عیادت کرنے والوں میں یہ ‘بیماری بھی ہوتی ہے کہ وہ مریض سے اس کے لاحق مرض کی تفصیلات سننا چاہتے ہیں،اس لیے وہ مریض سے اس کی خیر خیریت لینے کے ساتھ اگلے ہی سانس میں اس کی بیماری کی ساری تفصیلات کریدنے لگتے ہیں، کیا ہوا تھا؟ کیسے ہوا؟ کہاں ہوا؟ پھر اس کے بعد کیا ہوا؟ اور اب کیا ہوگا؟کچھ عیادت دار تو اِس قدر بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ کمرۂ مریض میں ہی سگریٹ کے کش لگانے میں گریز نہیں کرتے،ہمارے یہاں کشمیری کلچر میں تو حقہ بھی خوب پھونکا جاتا ہے ۔

عیادت دار مریض کو بیماری سے متعلق اذیت ناک سوالات کرتے ہیں یہ فکر کئے بغیر کہ ان بے ہودہ اور غیر مناسب سوالات کا مریض پر کیا اثر پڑے گا۔چند روز قبل کا واقعہ ہے کہ راقم بھی حسبِ روایت ایک مریضہ کی عیادت کیلئے گیا،گھر کے اندر داخل ہوتے ہیں کمرہ ٔ مریض پہنچا تو کمرۂ مریض عیادت داروں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا ،چند ہی سکینڈ کھڑا رہنے کے بعد مریض کیساتھ بیٹھے تیمادار وں(اہل خانہ )نے خوب آؤ بھگت کی اور تشریف رکھنے کو کہا،اِس دوران پہلے سے بیٹھے عیادت دار اِدھر اُدھر کھسکے بیٹھنے کیلئے تھوڑی سی جگہ نصیب ہوگئی۔ چند منٹ بیٹھنے کے بعد مریض کے قریب جانے کا موقعہ ملا، میں نے بھی حسبِ روایت مریضہ سے حال دریافت کیا۔دو تین منٹ بیٹھنے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ اب اِس سے زیادہ وقت یہاں پر بیٹھنا مناسب نہیں ہے لیکن پہلے سے بیٹھے عیادت داروں کی مصروف ترین گپ خوری کو دیکھ کر میں کافی حیران ہوا لیکن مریضہ کیلئے اِس اذیت ناک صورتحال کا مکمل جائزہ لینے کیلئے راقم نے بھی ٹھان لی کہ آخر معلوم کیا جائے کہ گھنٹوں بھر یہ عیادت دار مریض کے پاس بیٹھ کر آخر کرتے کیا ہیں؟
اِتنی دیر میں ایک خاتون مریضہ کے قریب آئی اور اپنی آنکھیں نم دیدہ کرتے ہوئی مریضہ سے گویا ہوئی کیا کریں آپا جان ۔۔۔!!آخر کار مرنا ہی ہے ،مریضہ کو ہمت ،حوصلہ اور دلاسہ دیتے ہوئے کہ ’’مرض بہت چھوٹا ہے اور وہ شخص اس سے بہت بڑا اور ہمت والا ہے‘‘کہنے کے بجائے یہ فرمانی لگی کہ ’’یہ بیماری بھی کوئی چھوٹی بیماری نہیں ہے،ڈاکٹروں سے سنا ہے جس کو یہ بیماری لگ جاتی ہے اُس کا بچ پاناتو مشکل ہی ہے،مریضہ محترمہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑے ہی انہماک سے یہ سارا بھاشن سن رہی تھی۔اب مریضہ یہی بھاشن سن کر تکلیف سے دو چار تھی کہ دروازے پر عیادت دار کی صورت میں ایک اور نمونے نے دستک دی،سلام دعا کی اور آکر بیٹھے گئے ، دو تین منٹ سہارا لینے کے جلد ی جلدی اپنا بھاشن شروع کیا، مریضہ سے پوچھا کیا حال ہے اور فوراً آنکھیں میں آنسوؤں کا پانی چھلکا کر رنجیدہ آمیز لہجے میں مریضہ سے فرمانے لگے چچی جان ’’امی جان‘‘ نے سلامی کہی ہے اور کہہ رہی تھی کہ اگر مجھ سے کسی قسم کی گستاخی ہوئی ہو تومعاف کرنا،زندگی کاکیا بھروسہ ملاقات ہو نہ ہو،یہ طرز عیادت دیکھ کون پتھر دل خاموش رہتا، دیگر عیادت داروں نے بھی رونے والی شکلیں بنا لیں،یوں کمرہ مریض میں بیٹھنے دشمنان مریض ’عیادت داروں‘کی آنکھوں سے آنسوں چھلک پڑے۔ بستر پر پڑا مریض اور اِس کے اہل خانہ ’’تیمادار‘‘بھی آہیں، سسکیاں بھرنے لگے،اذیت ناک عیادت داری کی اِس صورتحال کے باعث کمرۂ مریض جیسے ماتم کدہ بن گیا ۔لیکن کیا کیجئے،ہر گھر، ہر محلے اور ہر علاقہ میں کچھ ایسے نمونے پائے جاتے ہیں جن کا نہ آنا ہی بہتر ہوتا ہے ۔اس وقت بغیر سوچے یہ جی چاہتا ہے کہ ایسے عیادت کرنے والوں کے منہ پر ہی کچھ خاطر مدارات کر دی جائے،کیونکہ ایسے عیادت دار بیمار کو مزید تکلیف پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے عیادت داروں کی غیر مناسب باتوں سے مریض وقت سے پہلے مرنے کو ترجیح دیتے ہیں،نہ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور نہ اِس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ مریض کی دلجوئی کرنے اور اہل خانہ کو حوصلہ دینے آئے ہیں یا پھر اُن کو ڈرانے دھمکانے؟بالکل بھی یہ خیال نہیں رکھا جاتا کہ میرا بے ہودہ کلام مریض اور اہل خانہ کیلئے پریشانی اور فکر کا باعث بن سکتا ہے۔
عیادت داری کے بھی کچھ اصول اور آداب ہوتے ہیں جس سے ہم سبھی لوگ مکمل طور یا تو ناواقف ہیں یا پھر غفلت برت رہے ہیں۔بیمار و علیل احباب کیساتھ ہماراعیادت کرنے کا طریقہ بالکل غلط ہے ، اب صورتحال ایسی ہے کہ بہت سے علیل یا بیمار احباب یہ کہنے لگے ہیں کہ ‘مجھے میرے ‘عیادت داروں سے بچاؤ!لہٰذا عیادت کے آداب ملحوظ نظر رکھیئے۔مریض کی کیفیت کو سمجھئے اُس کے بعد اُس سے کلا م کیجئے۔!!

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

خشک سالی پر ایل جی کو تشویش

Next Post

’امیروں کا پانی‘

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
عمر عبداللہ کی حلف برداری آج، جانیں کس کس کو ملے گی کابینہ میں جگہ

عمر عبداللہ کا "جموں جموں”

2024-12-18
عمر عبداللہ: رکن پارلیمنٹ سے دوسری بار وزیر اعلیٰ بننے تک، سیاسی سفر پر ایک نظر

ایل جی کا حکمنامہ۔۔۔دو وائس چانسلر وں کی معیاد میں توسیع

2024-12-17
ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن

ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن

2024-12-15
انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل

انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل

2024-12-11
Next Post
’امیروں کا پانی‘

’امیروں کا پانی‘

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan