• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
بدھ, مئی ۱۴, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم رائے

عبدالغفار خان ایک امن پسند پٹھان

Online Editor by Online Editor
2024-01-23
in رائے
A A
عبدالغفار خان ایک امن پسند پٹھان
FacebookTwitterWhatsappEmail

از:نعیم اشرف

1972 ء کی وہ سہ پہر یاد رکھنے کے لائق ہے جس دن عبدالغفار خان افغانستان میں اپنی طویل جلا وطنی کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔ جب وہ پشاور کے مشہور جناح پارک میں جلسہ گاہ پہنچے تو مجمعے نے پر جوش نعروں سے ان کا استقبال کیا۔ دور سے وہ لاغر، ضعیف اور نازک لگتے تھے۔ مگر جب انھوں نے خطاب کیا تو ان کی آواز چاروں طرف سے اس طرح گونجی جیسے کوئی شیر دھاڑ رہا ہو۔ وہ ایک شیر کی طرح مضبوط اور پر اعتماد محسوس ہو رہے تھے۔

عبدالغفار خان اپنے خطاب میں خطرناک حد تک سچے تھے۔ انھوں نے محمد علی جناح، مسلم لیگ اور پاکستان کے قیام میں ان کے کردار کو سر عام تنقید کا نشانہ بنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ وہ جناح پارک میں ہی محمد علی جناح پر تنقید کر رہے تھے۔ عبدالغفار خان نے اپنی بے خوفی اور ایماندارانہ روش کی وجہ سے جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلا کی طرح ایک ربع صدی سے زائد کا عرصہ برطانوی، ہندوستانی اور پاکستانی جیلوں میں گزار دیا۔ حتیٰ کہ 1988 میں 98 سال کی عمر میں وفات سے قبل بھی جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے خلاف بیان دینے کی پاداش میں آخری چند سال انھوں نے اپنے گھر میں نظر بندی کی اذیت میں بسر کیے۔

معروف عوامی شاعر حبیب جالبؔ کی طرح، عبدالغفار خان بھی کسی جرنیل، بادشاہ یا نواب سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ وہ ایسا پٹھان تھا جو امن اور آزادی کا علمبردار تھا۔ وہ ایک غیر معمولی لیڈر تھا جس نے قبائلی جنگجو پٹھانوں کو ایک امن پسند قوم میں بدلنے کی سعی کی۔ پٹھان ان سے محبت کرتے تھے کیونکہ وہ ان کے دلوں میں بستے تھے۔

عبدالغفار خان 1890 ء میں پشاور سے 20 میل شمال میں اتمازئی نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک خوشحال خان وادے سے تھا۔ وہ بہرام خان کے چار بچوں میں سے سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد ایک ہمدرد اور کنبہ پرور انسان تھے جب کہ والدہ کشادہ دل اور مہربان خاتون تھیں۔ کم عمری میں ہی انھوں نے ’ملا مستان‘ کا نام سنا جو اس زمانے میں پٹھانوں کے دل کی دھڑکن تھے کیونکہ وہ قابض برطانوی فوج کے خلاف بغاوت کر چکے تھے۔

ملا مستان نے مختلف دیہات کا دورہ کیا اور اپنی ولولہ انگیز تقاریر سے دس ہزار کا ایک لشکر تیار کیا۔ یہ لشکر برطانوی فوج سے لڑا اور آزادی کے لیے متعدد قربانیاں دیں۔ ملامستان کی روداد نے سترہ سالہ عبدالغفار خان کے دل و دماغ پر گہرے نقوش ثبت کر دیے۔ جب عبدالغفار خان اٹھارہ انیس برس کے تھے تو ان کے اسکول کی طرف سے انھیں برطانوی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ بہت سے خاندانوں کے لیے اس زمانے میں برطانوی فوج میں بھرتی ہونا ایک اعزاز کی بات تھی مگر عبدالغفار خان نے یہ کہہ کر برٹش انڈین آرمی میں بھرتی ہونے سے انکار کر دیا کہ برطانیہ نے بہادر پٹھانوں کو غلام بنا رکھا ہے۔

جب عبدالغفار خان جوان ہوئے تو انھیں احساس ہوا کہ پٹھان ثقافت میں پرورش پانا رحمت اور زحمت کا ملغوبہ ہے۔ اس کلچر میں جہاں بہادری، سخاوت اور امانت داری جیسی عظیم الشان اقدار موجود ہیں وہاں مخالفین سے بدلہ لینے جیسی قباحتیں بھی موجود ہیں۔ پٹھان انتقام لینے کو فخریہ کام سمجھتے ہیں۔ اگر ایک قبیلے کے کسی فرد سے دوسرے قبیلے کا کوئی فرد قتل ہو جاتا تو دوسرے قبیلے پر لازم ہو جاتا کہ وہ فریق اول کے کسی فرد کو قتل کر دے۔ انتقام کی یہ روایت نسلوں سے چلی آ رہی تھی۔ جب تک بدلہ نہ لے لیتا وہ قبیلہ شرمندگی کی دلدل میں پھنسا ہوا محسوس کرتا تھا۔

جوانی کے زمانے میں ہی عبدالغفار خان کو معلوم ہو چکا تھا کہ پٹھان قوم آزادی کی بہت قدر کرتی ہے کیونکہ پٹھانوں کے نزدیک آزادی سے جینا ہی پر وقار زندگی ہے۔ اس جذبے کی وجہ سے ہی پٹھانوں نے انگریزوں کو جو پورے ہندوستان پر قابض تھے اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا۔ انگریز ”درہ خیبر“ کا سیاسی اور فوجی کنٹرول حاصل کرنا چاہتے تھے مگر پٹھانوں نے مزاحمت کی اور ہندوستان میں داخل ہونے کی یہ اہم گزر گاہ اپنے کنٹرول میں رکھی۔

پٹھان جنگجو رات کو برطانوی کیمپوں پر حملہ کرتے اور انگریزوں کو نقصان پہنچا کر پہاڑوں میں جا چھپتے۔ بالآخر انگریزوں کو تسلیم کرنا پڑا کہ پٹھان گوریلا دنیا کے بہترین جنگجو ہیں۔ وہ صدیوں سے آزاد زندگی گزارتے آئے تھے اور اس آزادی کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ ایک پٹھان کے نزدیک آزادی کے بغیر زندگی کے کوئی معنی نہیں تھے۔ ان کے نزدیک ایک غلام کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔

انگریزوں نے حتی الوسع کوشش کی کہ پٹھانوں کے اس جذبے کو بزور طاقت اور ہر قسم کے مظالم سے خاتمہ کر دیں۔ ان کے ظلم و ستم اس قدر شدید ہوتے گئے کہ ایسے انگریز جو اس وقت انسانی حقوق کے علمبردار تھے برطانوی فوج کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ ’اینی بسانت‘ جو ہندوستان کی مقامی ثقافت محفوظ رکھنے کی پرچارک تھیں، نے برطانیہ کے منافقانہ رویے کی ان الفاظ میں مخالفت کی:

”ہم بلند بانگ یہ دعٰوے تو کرتے ہیں کہ ہماری پٹھان قوم سے کوئی دشمنی نہیں جبکہ ہندوستان میں ہم پٹھانوں کے گاؤں جلا رہے ہیں، ان کی فصلیں تباہ کر رہے ہیں، مکان لوٹ رہے ہیں، مویشی چرا رہے ہیں، ان کے جوانوں کو باغی کہہ کر پھانسی پر لٹکا رہے ہیں۔ جب وہ مزاحمت کرتے ہیں تو ہم ان کی عورتوں اور بچوں کو برفانی وادیوں میں لے جا کر ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔“

عبد الغفار جہاں جہاں گئے اپنے علاقے کے دیہاتوں میں غربت اور جہالت دیکھی۔ اب وہ ایک اصلاح کار ’حاجی واحد‘ کے ساتھ مل کر بچوں کے لیے اسکول بنانے کے کام میں شامل ہو گئے۔ حالات کی ستم ظریفی کہ عبدالغفار خان کے عوامی تعلیم عام کرنے کے عمل کو برطانوی حکومت نے اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ان کو جیل میں ڈال دیا۔ عبدالغفار خان نے انگریزوں کی سزاؤں کو تو بہادری سے برداشت کر لیا مگر وہ ان بنیاد پرست ملاؤں کو کسی طور برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو مسلمان بچوں کو مغربی غیر مذہبی تعلیم دینے کی مخالفت کر رہے تھے۔ وہ صرف مدرسوں میں دی جانے والی مذہبی تعلیم کو ہی درست سمجھتے تھے۔ عبدالغفار خان دلبرداشتہ تھے کہ ان کے اپنے ہم وطن ہی اپنی برداری کی بہتری کی راہ میں دیوار بن کر ان کی اصلاح کارانہ کوششوں کی مخالفت کر رہے تھے۔

بالآخر وہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک (NATIONAL LIBERATION MOVEMENT) میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے ہندوستان کے شہروں دہلی، کلکتہ اور لکھنؤ کے دورے کیے اور انڈین کانگریس کے قومی سطح کے سیاسی رہنماؤں جن میں جواہر لال نہرو، سردار پاٹیل اور عبدالکلام آزاد شامل تھے، ملاقاتیں کیں۔ مگر جس شخص نے ان سب کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ موہن داس گاندھی تھے انھوں نے ان الفاظ میں گاندھی کو خراج تحسین پیش کیا: ”جب میں گاندھی جی سے ملا تو ان کے عدم تشدد کے افکار سے آگاہی ملی۔ انھوں نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔“

جواب میں گاندھی بھی عبدالغفار خان کی جرات، تحریک سے وابستگی اور جذبۂ ایثار سے متاثر ہوئے اور ان کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں کے دورے کر کے اپنے عدم تشدد کے فلسفے کی تبلیغ کی۔ 1920 ء میں عبدالغفار خان نے انڈین نیشنل کانگریس کی میٹنگ میں شمولیت کی۔ قومی آزادی کے متوالوں سے متاثر ہو کر جب وہ واپس اپنے لوگوں میں آئے تو ایک ولولۂ تازہ سے سرشار تھے۔ گھر واپس پہنچے تو پولیس نے ان کو مستقبل کا خطرناک باغی لیڈر گردانتے ہوئے گرفتار کر لیا اور عدالت نے 4 سال کی قید سنا دی۔

چار سال بعد 1924 ء میں وہ جیل سے رہا ہوئے تو ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہو گئے۔ اس مجمعے سے عبدالغفار خان نے ایک تاریخی خطاب کیا جس میں انھوں نے اپنے لوگوں کو اس شیرنی کی کہانی سنائی جو اپنا بچہ بھیڑوں کے ایک ریوڑ میں چھوڑ کر مر گئی تھی۔ شیر کا بچہ بھیڑوں میں پرورش پاتے ہوئے بھیڑوں جیسا بن گیا تھا۔ عبدالغفار خان نے پٹھانوں کو متنبہ کیا کہ انگریزوں کا مقصد پٹھان قوم کو بھیڑیں بنانا ہے مگر وہ شیر ہیں اور وہ ہمت، بہادری اور آزادی سے جئیں۔ دہلی میں حریت پسندوں سے ملنے کے بعد انھوں نے پٹھانوں کی غیر لڑاکا سپاہیوں کی فوج کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس کا نام انھوں نے خدائی خدمت گار رکھا۔ ان کا نعرہ تھا ”لوگوں کی خدمت کے ذریعے خدا کی خدمت۔“

عبدالغفار خان نے اپنے خاندان کی امارت، نمود و نمائش اور پر تعیش زندگی چھوڑ کر ایک سادہ اور درویشانہ طرز زندگی اپنا لیا۔ انھوں نے لوگوں کو اس قدر اپنا گرویدہ بنا لیا کہ انھوں نے عبدالغفار کو باچا خان (بادشاہ خان ) کا لقب دے دیا۔ اور چونکہ ان کی زندگی اور کام موہن داس گاندھی کے نقش قدم پر تھا اس لیے اکثر لوگ ان کو ”سرحدی گاندھی“ بھی پکارنے لگے۔ انھوں نے تاریخ کی سب سے پہلی غیر لڑاکا سپاہ قائم کی جس کی وردی سرخ تھی۔

ان کی غیر تشدد پسندانہ روش قابل دید تھی اس فوج کا مطمح نظر انگریزی فوج کے علاوہ پٹھانوں میں موجود تشدد، نفرت اور انتقامی روایت کا خاتمہ تھا۔ وہ پٹھانوں کے جارحانہ مزاج کو امن پسندی میں بدلنا چاہتے تھے۔ عبدالغفار خان خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے کے قائل تھے وہ پٹھان خواتین پر زور دیتے کہ وہ گھروں سے باہر نکل کر سماجی، تعلیمی اور سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بنیں۔ وہ ہر مذہبی بنیاد پرست اور قدامت پسند پٹھان سے یوں مخاطب ہوتے : ”اے پٹھانو! تم اپنے اپنے لیے آزادی مانگتے ہو اور اپنی عورتوں کو پابندیوں میں جکڑ کر کیوں رکھنا چاہتے ہو؟“

موہن داس گاندھی کی طرح عبدالغفار خان کا ماننا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم غیر فطری تھی ان کو اچھی طرح علم تھا کہ مختلف ثقافت اور لسانی پہچان کی حامل اقوام صدیوں سے ہندوستان میں ہم آہنگی کے ساتھ بستی آ رہی ہیں اب ان کے بیچ مذہبی اختلافات، تعصب اور نفرت کے بیچ بونا خطرناک ہے کیونکہ ایسا کرنے کا نتیجہ ہمیشہ تشدد اور قتل و غارت کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور ایسے فسادات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتے ہیں جو ایک دفعہ بھڑک اٹھنے کے بعد قابو کرنا مشکل ہو جاتے ہیں۔

اکثر مسلمان بالخصوص مسلم لیگ کے ارکان اس بات پر حیرت زدہ تھے کہ ابوالکلام آزاد کی طرح عبدالغفار بھی ہندوستان کو تقسیم کر کے ایک مسلم ریاست بنانے کے خلاف تھے۔ عبد الغفار خان کے غیر متشددانہ فلسفے پر عمل پیرا دیکھ کر گاندھی بہت متاثر ہوئے وہ کہا کرتے تھے : ”انگریز عدم تشدد سے خوف زدہ ہیں۔ ایک غیر متشدد پٹھان، ایک لڑاکا پٹھان سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔“

عبدالغفار خان اس وقت بہت مایوس ہوئے جب پاکستان کے قیام کے بعد آنے والی پاکستانی حکومتوں نے پٹھانوں کو تعلیم دینے پر توجہ نہ دی۔ پٹھانوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے اور ملک کو ایک غیر مذہبی ریاست بنانے کے لیے ان کے تابعین نے ایک سیاسی جماعت بنالی جس کا نام ”نیشنل عوامی پارٹی“ رکھا۔ اور اس کی سربراہی عبدالغفار کے فرزند ولی خان نے سنبھال لی۔ عبدالغفار خان نے اپنی پیران سالی میں بھی جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کی جدوجہد جاری رکھی۔

جب انھوں نے جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کی مخالفت کی تو ان کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ انھوں نے وصیت کی کہ فوت ہونے پر ان کو افغانستان میں دفن کیا جائے۔ 1988 ء میں ان کی وفات کے وقت روسی فوج اور مجاہدین کے درمیان جنگ اپنے عروج پر تھی مگر ان کے جنازے کے دن دونوں اطراف نے ایک دن کا سیز فائر کیا گیا۔ اور پاک۔ افغان سرحد ایک دن کے لیے کھول دی گئی تاکہ عبدالغفار خان کا جسد خاکی ان کی وصیت کے مطابق افغانستان لے جایا جا سکے۔ چنانچہ ان کو افغانستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

عبدالغفار تمام عمر امن کی علامت بن کر زندہ رہے۔ حتیٰ کہ ان کی موت پر بھی لڑائی بند کر دی گئی۔ ان کا ایمان تھا کہ عدم تشدد نہ صرف زندگی کا بہترین طریقہ ہے بلکہ ایک پر امن دنیا بنانے کا واحد طریقہ ہے۔ پٹھان قوم آج بھی ایک اور عبدالغفار کی منتظر ہے جو ان کو اعلیٰ تعلیم، روشن خیالی اور امن سے ہمکنار کر دے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ نوبل انعام کے حقدار تھے۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

رام سے مسلمانوں کی محبت

Next Post

ریتک روشن اور دیپیکا پاڈوکون کی فلم ’فائٹر‘ کی پہلے ہی دن 3 کروڑ کی ایڈوانس بکنگ

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
عمر عبداللہ کی حلف برداری آج، جانیں کس کس کو ملے گی کابینہ میں جگہ

عمر عبداللہ کا "جموں جموں”

2024-12-18
عمر عبداللہ: رکن پارلیمنٹ سے دوسری بار وزیر اعلیٰ بننے تک، سیاسی سفر پر ایک نظر

ایل جی کا حکمنامہ۔۔۔دو وائس چانسلر وں کی معیاد میں توسیع

2024-12-17
ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن

ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن

2024-12-15
انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل

انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل

2024-12-11
Next Post
ریتک روشن اور دیپیکا پاڈوکون کی فلم ’فائٹر‘ کی پہلے ہی دن 3 کروڑ کی ایڈوانس بکنگ

ریتک روشن اور دیپیکا پاڈوکون کی فلم ’فائٹر‘ کی پہلے ہی دن 3 کروڑ کی ایڈوانس بکنگ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan