از:مسرور احمد
ایران کے شہنشاہ خسرو پرویز کے دور میں سلطنت کسریٰ اپنے بام عروج پہ تھی۔ خسرو پرویز نے اپنے باپ کے وراثتی اقتدار کو بڑی جد و جہد کے بعد حاصل کیا تھا کیونکہ دونوں باپ بیٹوں کو محلاتی سازشوں کے نتیجے میں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا گیا اور یوں خسرو کا باپ جس کے کان میں یہ بات ڈالی گئی کہ خسرو بغاوت پر آمادہ ہے، اپنے بیٹے کی جان کا پیاسا ہو گیا۔ خسرو ایک عرصے تک بھٹکتا رہا یہاں تک کہ اس کی شیریں نام کی ایک دوشیزہ سے آنکھیں چار ہوئیں جو اس ملک کی شہزادی تھی جہاں اس نے پناہ لے رکھی تھی (یہ وہی شیریں ہے جس کی لوک داستان شیریں فرہاد کے نام سے مشہور ہے ) ۔
شہزادہ خسرو پرویز شیریں سے شادی کا طلبگار ہوا تو شیریں کے سرپرستوں نے شرط عائد کی کہ پہلے وہ کسریٰ کی وراثتی سلطنت حاصل کرے جس پراس کے والد کو سازشیوں نے قتل کر کے قبضہ کر لیا تھا اور وہ اس سلطنت کا جائز وارث تھا۔ خسرو کو بادل نخواستہ یہ شرط منظور کرنا پڑی اور بالآخر اس نے اپنے بہی خواہوں کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ اسی دوران وہ ایرانی سلطنت کے حصول کے لئے اپنے مشیروں کے کہنے پر قیصر روم سے جو ایرانی کسریٰ کا حریف تھا، فوجی امداد کا طالب ہوا۔
ایک طویل انتظار کے بعد قیصر روم نے اپنی ملکہ کے مشورے سے خسرو کی شادی اپنی بیٹی سے کر دی اور ایک معاہدہ کیا جس کے تحت اگر خسرو پرویز رومی امداد سے اپنی سلطنت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اپنے کچھ علاقے قیصر روم کی سلطنت میں داخل کرے گا اور قیصر روم کی بیٹی شہزادی مریم سے ہونے والی اولاد آئندہ کسریٰ کا تاج پہنے گی۔ خسرو پرویز ایک خون ریز لڑائی کے بعد رومیوں کی مدد سے ایران میں اپنے حریف کو شکست دینے میں کامیاب ہوا اور اس نے ایرانی سلطنت کو استحکام دینا شروع کر دیا جس میں اسے بہت کامیابیاں ملیں۔
سلطنت کے استحکام میں وہ اتنا مصروف ہوا کہ شیریں کو جسے وہ مریم کے بعد بیاہ کے لایا تھا اور اس سے شدید محبت کرتا تھا کو بھی بھول گیا یہاں تک کہ شیریں دل برداشتہ ہو کر اپنے وطن چلی گئی۔ حکومت مستحکم ہوتے ہی خسرو پرویز تکبر اور غرور کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر برائیوں میں مبتلا ہو گیا۔ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے اس نے اپنے محسن قیصر روم کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور حجاز اور چند دیگر علاقوں کے علاوہ جزیرہ نما عرب بھی قابض ہو گیا اور ایشیائے کوچک تک اپنی سلطنت وسیع کر لی جبکہ شام کی طرف عرب کے کچھ حصے پر رومی قابض تھے۔
اب خسرو کا تکبر اور غرور اپنی انتہا کو پہنچ گیا، اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے اس نے ظلم و جبر سمیت ہر چیز کا سہارا لیا اور عیش و عشرت کی لت میں بھی مبتلا ہو گیا۔ یمن اس وقت دیگر عرب علاقوں کی طرح ایران کا باج گزار تھا اور یہاں کا عرب گورنر سلطنت کسریٰ کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا۔ ایرانی دربار میں یمن کے گورنر کے کسی مخالف وزیر نے خسرو جو ہوس پرستی کا شدید مریض تھا کے سامنے اس کی بیٹی کے حسن کا کچھ ایسا نقشہ کھینچا کہ خسرو نے اسے یمن سے زبردستی لا کر حرم میں داخل کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔
عرب جو پہلے ہی ایران کی چیرہ دستیوں سے عاجز تھے لیکن نفاق کے سبب آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے اور قبائل میں منقسم تھے، شہنشاہ ایران کی اس حرکت پر بہت سیخ پا ہوئے۔ کیونکہ عربوں میں عرب تفاخر تھا اور وہ اپنے سوا سب کو عجمی کہتے تھے، ان کے یہاں غیر عربوں سے میل ملاپ خاص طور پر غیر عربوں کو بیٹیاں دینا انتہائی معیوب اور غیرت کے منافی سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ آج بھی عرب غیر عربوں کے ساتھ اپنی عورتوں کو بیاہنا معیوب سمجھتے ہیں اور نہ ہی غیر عربوں کو چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو، آسانی سے شہریت دیتے ہیں۔
انھی دنوں نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف فرما تھے اور مختلف ممالک کے حکمرانوں کو اسلام کی دعوت کے لئے خطوط ارسال کر رہے تھے۔ اسلام ایک نئی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہا تھا، غزوہ بدر کا معرکہ وقوع پذیر ہو چکا تھا جس سے عربوں میں اسلام کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ عرب پہلے ہی ایران سے بدلہ چکانے کے لئے بیتاب تھے لیکن ان کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہ تھا جو انھیں متحد کر سکے، اسلام کی صورت میں انھیں یہ پلیٹ فارم میسر آ گیا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب کرنے کے لئے حالات اور وسائل میسر فرما دیے اور عرب قبائل آہستہ آہستہ اسلام کی طرف رجوع کرنے لگے۔ اسی اثناء میں سلطنت مدینہ کا قاصد آقائے دو جہاں سرکار مدینہ کا خط اقدس لے کر خسرو پرویز کے دربار میں حاضر ہوا اور شاہی طور اطوار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے اسلام کی دعوت دی۔ خسرو جو عربوں کو اپنا باج گزار اور ماتحت سمجھتا تھا اسے یہ حرکت انتہائی ناگوار محسوس ہوئی اور اس نے غصے میں نعوذ باللہ آپ ﷺ کا خط چاک کر دیا اور گرفتاری کے لئے ایک دستہ مدینہ روانہ کر نے کا حکم دیا۔
آپ ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے خسرو پرویز کے حق میں بددعا کی کہ اس کی سلطنت بھی اسی طرح پرزے پرزے ہو گی۔ اسی دوران ایران میں خسرو پرویز کی مختلف بیویوں سے پیدا ہونے والے بیٹوں میں درون پردہ اقتدار کے حصول کے لئے محلاتی سازشیں بھی عروج پر تھیں جس میں خسرو پرویز کے بیٹے شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔ جب شہنشاہ ایران کا بھیجا ہوا دستہ مدینہ پہنچا تو انھیں حضور ﷺکی وساطت سے معلوم ہو کہ ان کا بادشاہ تو قتل ہو چکا تھا جس پر تحیر میں ڈوبا ہوا یہ فوجی دستہ تحقیق حال کے بعد واپس روانہ ہوا۔
بعد میں اسلام نے عربوں کو متحد کر کے نہ صرف ایرانی علاقوں بلکہ سلطنت رومیٰ پر بھی اپنی بقا اور دفاع کے لئے یلغار کر دی کیونکہ یہ دونوں طاقتیں اس نئی قوت کو کچلنے کے لئے تگ و دو میں تھیں، اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو ایک مضبوط نظریاتی اساس فراہم کر دی تھی جس کی بنیاد سماجی نا ہمواری اور اور نا انصافی کے خاتمے، امن، مساوات اور انسانیت پر تھی سو مسلمان کامیاب ٹھہرے اور اس دور کی دونوں سپر پاورز قیصر و کسریٰ قصہ پارینہ بن گئیں۔
اسلام سے قبل کے دور کو عربی ادب کی تاریخ میں دور جاہلیت کہا جاتا ہے کہ وہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا دور تھا۔ اسلام نے ایک بہترین اور متوازن سماجی نظام کی بنیاد رکھ کے دور جاہلیت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ لگتا ہے دور جاہلیت سے شروع ہونے والے ایران عرب تنازعات اب دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں۔ مسلم امہ کی بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے بعض دوست ممالک کے حکمران علاقائی، نسلی اور تاریخی تعصبات کو مسلکی رنگ دے کر اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں اور اپنے مفادات کے لئے دیگر مسلم ممالک میں بے جا مداخلت سے بھی باز نہیں آتے۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں وزیر اعظم آفس میں وزارت خٓارجہ کے سپیشل سیکرٹری ظفر ہلالی کو ایک دن بے نظیر بھٹو نے بلایا اور کہا کہ ایرانی سفیر کو بلاؤ اور اسے بتاؤ کہ ان کا سفارت خانہ جس قسم کا لٹریچر اور کیسٹ وغیرہ پاکستان میں تقسیم کر رہا ہے، اس سے ہمارے لیے بہت مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ ظفر ہلالی نے ایرانی سفیر محمد مہدی اخوند زادہ بستی کو بلایا۔ ظفر ہلالی نے جب ان کے سامنے ایرانی لٹریچر کی تقسیم پر پاکستانی حکومت کے تحفظات کا اظہار کیا تو انھوں نے الٹا سوال کر دیا کہ آپ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو ایران کے کہنے پر ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔
ظفر ہلالی نے کہا مجھے کیا معلوم۔ مہدی اخوند زادہ نے کہا کہ پچھتر ہزار افراد ہمارے کہنے پر ہتھیار اٹھا سکتے ہیں لیکن ہم آپ کو ایک برادر ملک سمجھتے ہیں اس لیے آپ کے لئے مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ کچھ اسی طرح بعض خلیجی ممالک بھی پاکستان میں اپنے مسلک کے فروغ اور یہاں شیعوں کے اثر کو کم کرنے کے لئے مداخلت کرتے آر ہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کی اکثریت نہ وہابی ہے نہ شیعہ لیکن ان دونوں مسالک کی نمائندگی کرنے والے حکمرانوں کی آپس کی مفاداتی جنگ نے صرف پاکستان بلکہ دیگر کئی مسلم ممالک کو بھی عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں صدیوں سے دو طاقتیں برسرپیکار رہی ہیں، ایک ایران یا فارس اور دوسرا روم۔ جزیرہ نما عرب کے ساحلی علاقے جو اب چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہیں، وہاں فارس کے حکمرانوں کے زیر اثر قبائلی رہنما بر سر اقتدار تھے۔
یزد گرد کا وہ فقرہ تاریخ کا حصہ ہے جو اس نے حضرت عمر ؓکے زمانے میں حملہ آور افواج کے وفد سے کہا تھا۔ ”اے گوہ کا گوشت کھانے اور اونٹنیوں کا دودھ پینے والے عربو! تمھارا دماغ تو نہیں چل گیا جو کیہان کے تخت کی آرزو کر رہے ہو۔ تمھارے قبائل میں سے اگر کوئی سرکشی کرتا تو ہم اپنے سرحدی حاکم سے کہتے اور وہ تمھارا دماغ سیدھا کر دیتا تھا۔“ آج بھی اگر ایک عام ایرانی وسط ایشیاء سے لے کر مشرق وسطیٰ تک پھیلی ہوئی اپنی وسیع ریاست کا تصور دل میں لاتا ہے تو اسے اپنی عظمت رفتہ یاد آ جاتی ہے۔
سائرس اعظم اور نوشیروان کی حکایات ایرانیوں کی روز مرہ گفتگو کا حصہ ہیں۔ فردوسی کا شاہ نامہ اسی وارفتگی کی داستان ہے اور اسی ٹریجڈی کا نوحہ ہے کہ کیسے عرب کے ان خانہ بدوشوں نے ان کی عظیم سلطنت کو تباہ و برباد کر دیا۔ اسی لیے وہاں کا اجتماعی شعور اپنی عظمت رفتہ کے حصول کے لئے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ ایرانی انقلاب کے بعد بھی اپنی زبان اور ثقافت کے معاملے پر بہت حساس ہیں اور دنیا بھر میں جہاں بس چلے اپنے سفارت خانوں کے ذریعے اس کے فروغ کے لئے کام کرتے ہیں۔
قدیم ایران کے پرانے علاقوں کی زبان اور ثقافت میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں اور ان پر عربی چھاپ غالب ہے۔ مڈل ایسٹ میں ایرانی مداخلت کے پیش نظر اس مفروضے کے لئے کافی شواہد ہیں کہ شاید ایران اپنی عظمت رفتہ کو زندہ کرنے کے لئے عرب و عجم کی لڑائی کو ہوا دینا چاہتا ہو۔ ایران کے شام، عراق اور یمن میں بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ نے اسرائیل کے لئے بھی معاملات سنگین کر ڈالے ہیں۔ اسرائیل ایرانی خطرے سے نبرد آزما ہونے کے لئے فرقہ واریت کو ایک ہتھیار کے طور پر دیکھتا ہے۔ تاکہ فرقہ وارانہ رنگ سے ایرانی خطرے کا قلع قمع کیا جا سکے۔ 1998۔ 2002 کے عرصہ کے دوران موساد کے سربراہ رہنے والے افریم ہلیوی (Efraim Halevy) نے اپنی خود نوشت میں یہ خون جلانے والا فقرہ رقم کیا تھا کہ ”اسرائیل شیعہ سنی تصادم کو خوب ہوا دیتا رہا“ ۔ بشار الاسد علوی ہے جس کے عقائد کی بنا پر تمام اثناء عشریہ انھیں اپنے سے الگ تصور کرتے ہیں لیکن ایران کی جانب سے سیاسی اور علاقائی صورتحال میں اس کا ساتھ دینا عرب علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ اور اختیار بڑھانے کے لئے ہے۔
اسی طرح زیدیہ فرقے کے حوثی حضرت زید بن علی کے ماننے والے ہیں جن کے عقائد وہاں کے سنی عوام سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ بلکہ زید بن علی نے حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے بارے میں اپنی یہ رائے دی تھی کہ میں نے اپنے گھرانے میں ان کے بارے میں ہمیشہ اچھی بات ہی سنی۔ لیکن یمن کے حوثیوں کا ساتھ مسلک کی وجہ سے نہیں بلکہ عرب و عجم کی کشمکش میں دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب اپنے ارد گرد کے تمام علاقوں بحرین، کویت، یمن اور خصوصاً اپنے مشرقی علاقوں وغیرہ پر اپنا کنٹرول چاہتا ہے۔
اس کے نزدیک یہاں کی شیعہ اکثریت اس کے اقتدار کے لئے خطرہ ہے۔ اس کا اقتدار جو امریکی آشیر باد کا مرہون منت ہے، اسے صرف شیعہ آبادی سے ہی نہیں بلکہ ہر اس سنی آبادی کی تحریک سے بھی خطرہ ہے جو بادشاہت کے خلاف ہو۔ اسی لیے جب مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت آئی تو سعودی عرب نے وہاں کی فوج کو اکسایا، اس نے اقتدار پر قبضہ کیا اور پھر فوج کو دس ارب ڈالر تحفے میں دیے گئے تاکہ ان لوگوں کا قتل عام کیا جائے جن کے نظریات بادشاہت کے خلاف ہیں، اسی طرح بحرین میں سعودی حمایت سے اپوزیشن کو کچل دیا گیا۔
یمنی باغیوں کا الزام ہے کہ سعودی عرب ان کے خلاف جارحیت کے لئے یمنی حکومت کو معاونت فراہم کرتا رہا ہے۔ سعودی عرب کا خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے یمن پر ائر سٹرائیک معاملات کو سلجھانے کی بجائے مزید گمبھیر کرنے کا باعث بنے گی۔ ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے حوالے سے انجانے خوف میں مبتلا ہیں۔ یہ خوف 1979 میں انقلاب ایران کا شاخسانہ تھا جب خمینی نے خطے کے تمام پسے ہوئے لوگوں کو اپیل کی کہ وہ آزادی، مساوات کے حصول اور نا انصافی کے خاتمے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور یہ کہ ایران ان کی جدوجہد کی حمایت کرے گا۔
دوسرے لفظوں میں ایرانی اپنا انقلاب خطے کے دیگر ممالک میں ایکسپورٹ کرنے کی شدید آرزو رکھتے ہیں۔ سعودی عرب نے خمینی کے خطابانہ جوش کی اہمیت کو مسلکی تناظر میں کم کرنے کی کوشش کی اور شیعوں کے مقابل وہابی ازم کو ہوا دینا شروع کر دی۔ سعودی عرب کی ان کوششوں کے باوجود ایران کو عرب دنیا میں اسرائیل اور مغرب کے مقابلے میں واضح سٹینڈ لینے کی بنا پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ حزب اللہ اور حماس کی اسرائیل کے مقابلے میں علانیہ مدد کی وجہ سے عرب دنیا میں ایران مقبول ہو گیا۔
2006 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق عرب اور مسلم دنیا میں ایران کی مقبولیت کا گراف 75 %اور سعودی عوام میں یہ گراف 85 % کی متاثر کن سطح پر تھا۔ مسلک کو اس لڑائی سے علیحدہ کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ تمام شیعہ علما ء اور سنی علماء فتویٰ دیں کہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے باغی ہیں اور یہ بھی کہ کسی دوسرے کے علاقے پر بمباری کر کے انسانی جانوں کو ہلاک کرنا قتل کے مترادف ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر نسل، زبان اور علاقے کی یہ جنگ جس میں اب مسلکی تعصب بھی شامل ہو چکا ہے پوری امت کو بہت بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اسلام دشمن قوتوں کے مقاصد پورے ہو جائیں گے۔
دور جاہلیت کے تعصبات اور جھگڑے جنھیں اسلام نے ختم کر دیا تھا اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی بے وقوفیوں کی بدولت دوبارہ مشرق وسطیٰ میں سر اٹھا رہے ہیں۔ سنی اکثریت کی آبادی میں گھرا ہوا ایران خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ اسی لیے امریکہ کی عراق سے روانگی کے ساتھ ہی ایران نے عراق میں سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی اور عراقی سیاست اور شیعہ آبادی پر کنٹرول حاصل کرنا شروع کر دیا جس سے سعودی عرب کو بہت تکلیف پہنچی۔
وکی لیکس کے مطابق سعودی عرب امریکہ پر زور دیتا رہا ہے کہ ”Cut off the heads of the snake“ یعنی سانپ کا سر کچل دو یا دوسرے لفظوں میں ایران کے اوپر چڑھائی کردو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ یعنی ہم خود دوسروں کو اپنے معاملات میں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں۔ حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کے درمیان جب چپقلش شروع ہوئی تو قیصر روم نے دونوں شخصیات کی طرف علیحدہ علیحدہ قاصد بھجوائے اور مدد فراہم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو ان دونوں حضرات نے نہایت سختی کے ساتھ اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے قیصر روم کو وارننگ بھجوائی کہ اگر اس نے مسلمانوں کے باہمی تصادم کی وجہ سے ان کے خلاف کسی مہم جوئی کی کوشش کی تو مسلمانوں کے دونوں گروہ اپنی جنگ چھوڑ کر پہلے قیصر روم کو سبق سکھائیں گے۔
یوں قیصر روم کی سازش ناکام ہو گئی۔ در حقیقت سعودی حکمرانوں کو حرمین شریفین سے زیادہ خطرہ اپنے اقتدار کا ہے اور وہ اپنے اقتدار کو درپیش ہر چیلنج کو فرقہ واریت کا رنگ دے کر اس کا قلع قمع کرنے کی کوشش کریں گے۔ مڈل ایسٹ میں جمہوریت کے رجحانات پر تحقیق کرنے والے ریسرچ سکالر ڈاکٹر نصیب اللہ کے مطابق اگر سعودی عرب واقعی خطے میں ایران کے خطرے کا تدارک کرنا چاہتا ہے تو اسے مڈل ایسٹ میں سیاسی طور پر پسے ہوئے طبقات کی مصیبتوں اور تکالیف کا خیال کرنا پڑے گا اور انھیں ان کے حقوق دیتے ہوئے مذاکرات کی میز پر لانا ہو گا۔
اس سارے تناظر میں پاکستان کو بہت احتیاط برتنا ہو گی۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہاں جیسی تیسی جمہوریت ہے اور پارلیمنٹ ہے جس میں عوام کی نمائندگی کرنے والی مختلف پارٹیوں کی نمائندگی ہے اور شاید اسی لیے ہم اب تک کسی بڑی آگ سے بچے ہوئے ہیں اور دشمن دہشت گردی کی صورت میں یہاں چنگاریاں لگا کر ہمارا دامن خاکستر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا میں ایک واحد ایٹمی ملک ہے۔ ہمیں مشرق وسطیٰ کی جنگ میں فریق بننے کی بجائے اس آگ کو بجھانے کے لئے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
حالیہ ایران پاکستان کشیدگی کے بعد ہمیں تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز مشرق وسطیٰ کے معاملے میں احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ماضی میں تمام اہم فیصلوں پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہ لینے کی وجہ سے ہم نے بہت نقصانات اٹھائے ہیں۔ ہمیں فروری میں لازمی الیکشن کروانے چاہئیں۔ اس بار ہمیں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر مشترکہ موقف اختیار کرنا ہو گا اور یہ پیغام دینا ہو گا کہ پاکستان ایک ذمہ دار اور امن پسند ملک ہے اور اس کی فوج میں کرائے کے سپاہی نہیں ہیں تاآنکہ اقوام متحدہ یا او آئی سی جنگ کے شکار کسی ملک میں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنے کے لئے نہیں بلاتی۔
