محفوظ عالم
مسلمانوں کو اپنے دستور پر فخر ہے۔ ہمارا دستور نہ صرف یہ کہ سماج کے سبھی طبقہ کو مساوی حقوق دیتا ہے بلکہ کمزور، غریب اور اقلیت کو خصوصی مراعات دیکر انکی ترقی اور تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ یوم جمہوریہ ہمارے لئے محض ایک تاریخی دن نہیں ہے بلکہ یہ وہ خاص اور اہم دن ہے جس موقع پر ہم یہ یاد کرتے ہیں کہ ہمارے اختیارات کیا ہیں اور ہمیں آئین نے کتنی سہولت فراہم کی ہے۔ ہم اس دن کو بابا صاحب امبیڈکر سمیت آئین ساز اسمبلی اور ڈرافٹینگ کمیٹی کے ان تمام میمبروں کا شکر ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے ملک کا آئین بہتر سے بہتر بنایا۔ یہ دستور ہی ہے جس کے سبب ہمارا ملک گزشتہ 75 سالوں سے ترقی کی نئی نئی منزلیں طے کر رہا ہے اور پوری طرح سے متحد ہے۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اظہار شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے کیا۔
دنیا میں منفرد ہے ہمارا دستور
مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم امارت شرعیہ بہار، جھارکھنڈ اور اڈیشہ کے ناظم مولانا شبلی قاسمی کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک بھارت کا دستور دنیا میں سب سے افضل اور اعلیٰ ہے، انکا کہنا ہے کہ ہمارا دستور مضبوط ہے اور سب کو ساتھ لیکر چلنے والا دستور سمجھا جاتا ہے۔ مولانا شبلی قاسمی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں بیحد تجربہ کار لوگوں کی ایک بڑی کمیٹی نے اس کام کو انجام دیا۔ انکا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے دنیا کی تاریخ کو اور اس کے عروج و زوال، مختلف قومیت اور ملکوں کی مضبوطی اور کمزوریوں کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا تھا۔ مختلف ملکوں کی ترقی کا راز اور انکی پستی کے اسباب پر غور کرتے ہوئے اور خود اس ملک میں رہنے والے مختلف مذاہب، تہذیب، زبان اور طور طریقے کو دیکھتے ہوئے، یہاں کی گنگا جمنی تہذیب اور جو صدیوں پورانی ایک روایت اور وراثت ہے ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ملک کے لئے ایک دستور، ایک آئین وضع کیا اور پھر اس کی خوبصورتی اور مضبوطی کو دیکھتے ہوئے اسے ملک کے لئے قبول کیاگیا اور اس کو عمل میں لایا گیا۔ مولانا شبلی قاسمی کے مطابق اس ملک کے ہر با شعور انسان اور ملک سے سچی محبت رکھنے والا ہر انسان یہاں کے دستور سے محبت کرتا ہے۔ اسی طرح مسلمان اس سر زمین سے، یہاں کے استحکام اور ترقی میں اپنی ترقی اور پوری قوم کی ترقی و خوشحالی سمجھتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کی ملک کو مستحکم کرنے میں مسلمانوں کی قربانیاں رہی ہے، نتیجہ کے طور پر دستور کے تحفظ کے متعلق دوسرے فکر مند لوگوں کی طرح مسلمان بھی فکر مند ہیں۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا دستور سب سے بلند اور مضبوط رہے اور تمام لوگ دستور پر عمل کریں۔ انکا کہنا ہے کہ جتنے لوگ ملک کے قوانین پر عمل کریں گے اتنا ہی ہمارا ملک مضبوط ہوگا۔ اس سے یہاں کی تہذیب، روایات، محبت، امن و سکون اور وہ ساری چیزیں جو ایک ملک کو آگے لے جانے والی ہوتی ہے وہ سب باقی رہے گی۔ انہوں نے کہا کی اگر ہمارا دستور کمزور ہوگا تو سارے ڈھانچے کمزور ہو جائیں گے۔ اسلئے ہم لوگوں سے گزارش کرتے ہیں اور خاص طور سے ان لوگوں سے جن کے ہاتھوں میں دستور کا تحفظ ہے اور اس پر عمل در آمد کرانے کی طاقتیں ہیں وہ اس کو یقینی بنائے۔
اسکولوں میں دستور پڑھانے کی ضرورت
مولانا شبلی قاسمی کا کہنا ہے کہ ہم تمام لوگوں سے یہ بھی گزارش کرتے ہیں کی دستور ہند پر مضبوطی کے ساتھ عمل کریں اور اس کو یقینی بنانے کے لئے باقاعدہ ایک تحریک چلائی جائے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ دستور کو سمجھیں اور سمجھائیں۔ انکا کہنا ہے کہ ہر علاقے کی زبان الگ ہے وہاں کے لوگوں کی مادری زبان میں دستور کی کاپی کو تقسیم کرنا چاہئے۔ تاکہ عوام کے درمیان ہمارا دستور عام ہو سکے۔ انہوں نے کہا کی اس سلسلے میں جتنا کام ہونا چاہئے تھا نہیں ہوا ہے، 26 جنوری اور 15 اگست کے موقع پر ہم دستور کے بارے میں خوب باتیں کرتے ہیں پھر اس پر خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ ہم حکمران وقت سے بھی گزارش کرتے ہیں اور ملک کی بڑی تنظیموں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ اس تعلق سے وہ پہل کریں۔ انکا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کا دستور کافی اہم ہوتا ہے۔ ہندوستان جیسے ملک کے لئے اور بھی اہم ہے جہاں کثیرالمذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کی بہتر تو یہ ہوتا کہ اسکولوں کے نصاب میں دستور کو پڑھنا ضروری قرار دیا جاتا۔ طلباء کے کورس میں اسے شامل کیا جائے تو شروعاتی دنوں میں ہی ہمارے نوجوان اپنے ملک کے قوانین سے واقف ہو جائیں گے۔ اور جو غلطیاں وہ کر بیٹھتیں ہیں اگر انہیں قوانین کا علم ہوگا تو وہ بہتر سے بہتر شہری بننے کی کوشش کریں گے، ہمیں امید ہے کہ یہ کام کیا جائے گا۔
دستور کے سبب ملک کر رہا ہے ترقی
معروف ادیب شفیع مشہدی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا دستور سیکولر ہے اور اس میں تمام مذاہب کے لوگوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں، بلکہ اقلیتوں اور کمزور طبقے کے لئے خصوصی اختیارات دئے گئے ہیں، جیسے ان کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق ہے۔ انکا کہنا ہے کہ میرا خیال ہیکہ ہندوستان کا جو دستور ہے ساری دنیا میں اس کی شہرت ہے۔ بہترین دستور ہے اس سے بہتر دستور تو نہیں ہو سکتا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسی دستور کے بدولت ہندوستان آج 75 سالوں سے ترقی بھی کر رہا ہے اور ہر لحاظ سے متحد بھی ہے۔ ہاں کچھ لوگ ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب تک دستور قائم ہے یہاں کوئی منافرت اور نفرت نہیں پھیلی گی۔ انہوں نے کہا کی ہمارے دستور میں اظہار رائے کی آزادی ہے، بنیادی حقوق ہر فرد کو دیا گیا ہے، یہ تو پوری دنیا کے لئے ایک مثال ہے۔ انکا کہنا ہے کہ جہاں تک اقلیت کا سوال ہے وہ دستور سے بہت مطمئین ہے۔ ظاہر ہے ان 75 سالوں سے جو ملک ترقی کر رہا ہے نئی نئی منزلیں طے کر رہا ہے اس میں ہمارے جمہوری اور سیکولر آئین کا بڑا حصہ ہے۔ انکا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے دستور کو بنایا وہ کافی بڑے اور تجربہ کار لوگ تھے انہوں نے کافی سونچ سمجھ کر ہندوستان کے لئے ایک آڈیل دستور بنایا۔ شفیع مشہدی کا کہنا ہے کہ آپ دیکھ رہے ہیں کی جس طرح سے ہمارے پڑوسی ملکوں میں افرا تفری پھیلی، ہمارے ملک میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ ایک متحد ملک ہے اور اس میں سب سے بڑا رول ہمارے دستور کا رہا ہے۔
دستور اور باہمی ہم آہنگی
ادیب و شاعر پروفیسر علیم اللہ حالی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے دستور ہند میں تمام طبقات کا خیال رکھا گیا ہے اور اس بات کی کوشش کی گئی ہیکہ ایک ایسا کلچر تیار کیا جائے جو باہمی ہم آہنگی کی صورت پیدا کرے۔ اگر دنیا کے نقشہ میں ہندوستان کو رکھا جائے تو ہمارا دستور ایک منفرد نظر آئے گا۔ انکا کہنا ہے کہ یہاں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے اقلیت اور کمزور طبقات کو یکساں حقوق حاصل ہو اور جو رعائتیں اور آسانیاں اقلیت کو ملنی چاہئے وہ مختلف اقلیتی طبقے کے سبھی یونٹس کو ملتی رہے۔ دستور کی روشنی میں قانون ہوتا ہے اور قانون کی حفاظت کرنے والے دستور کے محافظ ہوتے ہیں اور اس بات کا خیال بھی رکھا گیا ہے کہ جو ملک ترقی کر رہا ہے یا ترقی کے جو طریقہ ہو سکتے ہیں یا جو وسیلہ ہیں اس میں اقلیت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس بات کو ذہن نشین رکھ لینا چاہئے کہ دستور وہی کامیاب ہوتا ہے جس میں اقلیتوں کے تحفظ اور ان کی بقا و ترقی کی صورت حال پیدا کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کی کچھ لوگ دستور پر ضرب لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ٹھیک نہیں ہے۔ اگر کوئی مطمئین نہیں رہے گا تو ملک میں انارکی کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ ہمارے دستور میں اس بات کی رعائت رکھی گئی ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے حدود میں خوش اور مطمئین رہے۔ انکا کہنا ہے کہ ہمارا دستور یہ بھی اجازت دیتا ہے کہ ہم پر امن احتجاج کر سکیں۔ انہوں نے کہا کی ہم اپنے دستور کے سلسلے میں اگر مطمئین ہیں اور سنجیدہ ہیں اور دستور سے محبت کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں ہاں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کسی بھی حال میں دستور کا غلط استعمال نہیں ہو۔
کمزور طبقات کے لئے دستور جسم میں روح کی طرح ہے
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر آف انڈین لینگویجز کے سابق صدر، پروفیسر انور پاشا کے مطابق اس پر گفتگو کرتے ہوئے میں چاہونگا کہ اپنے آئین کے کردار کے حوالہ سے بات کروں۔ ہندوستان کا جو آئین ہے اس کی تشکیل بابا صاحب امبیڈکر کی رہنمائی میں ہوئی تھی کیونکہ بابا صاحب امبیڈکر آئین ساز اسمبلی میں جو ڈرافٹینگ کمیٹی بنی تھی اس کے چیرمین تھے اسلئے ان کا رول سب سے اہم رہا ہے۔ وہ سیکولر کردار میں یقین رکھتے تھے اور ہندوستان کے سب سے کمزور طبقہ سے آتے تھے، انہوں نے دستور کو صد فیصد سیکولر اور جمہوری بنانے کی کوشش کی۔ بلا شبہ ہمارا آئین دنیا کی بہترین آئین میں سے ایک ہے اور اس کا کردار سیکولر اور جمہوری رہا ہے۔ جس میں مساوات اور انصاف کو برتری حاصل ہے۔ ملک کے ہر شہری کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ ہمارے آئین میں کسی قسم کی تفریق اور امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے بلکہ کمزور طبقات کو یکساں سطح پر لانے کے لئے، کئی طرح کی دوسری مراعات بھی دئے گئے ہیں۔ جیسے سماج کے کمزور طبقوں کے لئے ریزرویشن کی سہولت ہے تاکہ ان کی نمائندگی بھی مختلف شعبہ حیات میں ہو سکے یہ جو کردار ہے ہمارے آئین کا یہ منفرد ہے۔ یعنی جو کمزور طبقات ہیں جو دیگر طبقات کے ساتھ ریس میں آگے نہیں چل سکتے، ان کے ساتھ برابری لانے کے لئے اس طرح کے جواز موجود ہیں۔ اسی طرح ہمارے آئین میں مذہبی اقلیتوں کے لئے اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ آزادانہ جو بھی ان کا طریقہ ہے وہ اختیار کریں اور اس پر گامزن رہیں اور اس میں کسی بھی طرح کی کوئی دشواری ان کو نہیں ہو۔ یہی نہیں ان کو یہ بھی حق دیا گیا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر خود کے ادارہ بھی قائم کر سکتیں ہیں۔ اسکول کھولیں، مدرسہ کھولیں، تعلیمی ادارہ کھولیں۔ یعنی دستور ہمیں یکساں حقوق فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کی ہمارے آئین میں سب کے لئے یکساں قانون ہے۔ بنیادی حقوق سب کے لئے ایک جیسا ہے اور اپنے عقیدہ کو بھی اختیار کرنے کا اور اس پر عمل پیرا ہونے کا ایک جیسا حق دیا گیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ سب سے خاص بات یہ ہیکہ کسی بھی طرح کی تفریق قانونی سطح پر ہمارے آئین میں نہیں ہے۔ ہمارے آئین میں اس بات کی بھی ضمانت دی گئی ہے کہ ملک کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوگا۔ انہوں نے کہا کی دستور کو بنانے میں مسلمانوں کا بھی اہم حصہ رہا ہے۔
اس سال کا یوم جمہوریہ ہے کافی خاص
مگدھ یونیورسٹی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کے صدر شعبہ پروفیسر محمد احتشام خان کا کہنا ہے کہ 26 جنوری اس سال کا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ 75ویں یوم جمہوریہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا جو دستور ہے وہ دنیا کا بہترین دستور ہے۔ اس کو بچانے کی ضرورت ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اگر کچھ لوگوں کو تعلیم، روزگار، معیشت سب کچھ مل جائے اور باقی لوگ پیچھے چھوٹ جائے یہ صحیح نہیں ہے۔ اس موقع پر یہ احتساب کرنا چاہئے کہ ہم اپنے دستور کو پوری طرح سے زمین پر نافذ کر رہے ہیں یا نہیں۔ اگر کمیاں ہو تو اس کو درست کیا جائے۔ پروفیسر احتشام خان کا کہنا ہے کہ ہمارا دستور سب کو برابری کا درجہ دیتا ہے یہ اپنے آپ میں ایک ایسی بات ہے جس پر عمل کرنا ملک کی ترقی اور خوشحالی کا ضمانت بن سکتا ہے۔ ان کے مطابق مسلمانوں کو بھی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا دستور کافی اہم ہے اسے بچا کر رکھا جانا چاہئے۔ انکے مطابق 6 سے 14 سال کے بچوں کو فری ایجوکیشن دینے کا قانون ہے اس کا بھی فائدہ مسلمان نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔ دستور نے تو سب کو یکساں حق دیا ہے، کمزوروں کا خاص خیال رکھا گیا ہے، اب ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مساجد میں دستور کے بارے میں لوگوں کو بتایا جائے
پروفیسر احتشام خان کا کہنا ہے کہ صرف حکومت سے شکایت کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے، انہوں نے کہا کی مسلمانوں کے حوالہ سے دیکھیں تو آج کی تاریخ میں بھی کم ہی لوگ ہیں جو دستور کو جانتیں اور سمجھتیں ہیں، ایسے میں لوگوں کو اس تعلق سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ کم جانکاری کے سبب دستور میں دئے گئے اختیارات کا بھی مسلمان فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ وہ دستور کو پڑھیں بلکہ مساجد میں بھی اس حوالہ سے انہیں بتایا جائے۔ انکے مطابق مسلمان ہی ایک ایسے قوم ہیں جن کے پاس لوگوں سے رابطہ بنانے کا سب سے بڑا مرکز مساجد کے شکل میں موجود ہے۔ جب ڈیجیٹلائجیشن نہیں تھا تب بھی مسلمانوں کے پاس یہ نظام تھا اور آج بھی ہے۔ ایسے میں جمعہ کے دن خاص طور سے لوگوں کو دستور سے واقف کرانے کا سلسلہ قائم ہونا چاہئے۔ اس سے جہاں انہیں قانون کی جانکاری حاصل ہوگی وہیں انہیں دستور میں دئے گئے حقوق کو حاصل کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔ جمعہ میں ہم لوگوں کو بتا سکتیں ہیں کی ہمارا دستور کیسا ہے اور کس طرح اس کی تحفظ کا اور اس پر عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے۔
