از:آصف اقبال
21فروری کو عالمی سطح یومِ مادری زبان کے طور منایا جاتا ہے۔ اس دن کے حوالے سے مُختلف تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے ماہرینِ لسانیات،ادباء،شعراء اور زبان دانی سے وابستہ لوگ اِن تقاریب کی زینت بن کر لچھے دار تقریریں کرتے ہیں۔مادری زبان کی اہمیت اور افادیت پر خوب روشنی ڈالی جاتی ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ مادری زبان قوم کا سرمایہ حیات ہوتا ہے اور اس زبان کے ساتھ ہمارا ایک لازوال رشتہ ہوتا ہے اور ان گنت تخلیقی،نفسیاتی و لسانی،ذہنی،جذباتی اور جبلتی جہتیں اس مادری زبان سے وابستہ ہوتی ہیں۔ 21فروری کو لسانی اور ثقافتی تنوع کے بارے آگاہی کو فروغ دینے کے لئے دُنیا بھر میں بڑے تُزک و احتشام سے بڑی بڑی تقاریب کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے۔ یومِ مادری زبان کی اپنی ایک خون آشام تاریخ ہے وہ یہ کہ 1952ء کی 21 فروری کو جب ڈھاکہ یونیورسٹی،جگن ناتھ یونیورسٹی اور ڈھاکہ میڈیکل کالیج میں پاکستان میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان بنانے کے لئے احتجاج کر رہے تھے تو پولیس نے گولی چلائ اور مظاہرین نے اپنی زبان کی بقا اور ارتقاء کے لئے اپنی جانیں نچھاور کردیں جسکے نتیجے میں پاکستان میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی قوم زبان بننے کا مقام حاصل ہوا ۔چنانچہ اس لئے ہر سال 21فروری کو مادری زبان کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر منایا جاتا ہے۔ یونیسکو نے 17نومبر 1999کو یہ فیصلہ لیا کہ 21فروری کو یومِ مادری زبان کے طور منایا جانا چاہئے اور 2000ء کے بعد ہر سال 21فروری کو بین الاقوامی یوم مادری زبان کے طور منایا جاتا ہے اور یو این کی عام اسمبلی نے سال 2008کو زبانوں کا عالمی سال قرار دیا۔ اس وقت پوری دُنیاء میں قریباً 6ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں اور ڈھائ زبانوں کا مستقبل مخدوش دکھائ دے رہا ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مادری زبان پر مبنی تعلیم سیکھنے والوں کو معاشرے میں آزادانہ طور حصہ لینے کا اختیار ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دُنیا بھر میں چالیس فیصد لوگوں کو اپنی مادری زبانوں میں تعلیم فراہم نہیں ہورہی ہے ۔
معروف ماہرِ لسانیات سنجھا چنا لکھتے ہیں کہ”
زبانوں کے عمل سے ہی قوموں کے عروج اور زوال کا سوال جڑا ہوا ہے۔ زبان کسی بھی قوم کی، جغرافیائی، تہذیبی، ثقافتی، سیاسی، سماجی، معاشی اور تاریخ کا آئینہ ہوتی ہے۔ زبان کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت کا جز ہوتی ہے۔ زبان ایک سماجی عمل ہے، کیونکہ سماجی پیداواری عمل کے ذریعے زبان وجود میں آئی۔ زبان انسانی عمل کو شعوری انداز سے جوڑے رکھنے کا کام کرتی ہے۔ زبان ایک طرف سے اظہار کا ذریعہ ہے،تو دوسری طرف معلومات کا ذریعہ ہے۔ انسانی سوچ براہ راست اظہار زبان ہے۔ ڈیوڈ کرسٹل کہتے ہیں کہ معاشرے کے اندر اپنی رائے کا اظہار کرنا، اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے، اپنے نظریات کو بیان کرنے کے لئے، زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ادبی مرکز کامراز کے صدر کا کہنا ہے کہ زبان قوموں کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے لیکن ٹیکنالوجی اور مادیت لوگوں کو زبان سے دور رکھنے میں ایک اہم روال ادا کرتے ہیں لیکن باشعور لوگ اپنے ماضی کو نسیاً منسیا نہیں کرتے بلکہ ایک شجرِ ہائے سایہ دار درخت کی طرح ترقی کے منازل تیزی سے طے کرتے رہتے ہیں لیکن اپنی زمین سے رشتہ منقطع نہیں کرتے ہیں۔ کشمیری زبان کی ابھی ایک اپنی درخشندہ تاریخ ہے اور زبان کی کوکھ سے ہم نے جنم لیا ہے اور یہ زبان ہماری پہچان ہے۔ کشمیری زبان کی مٹھاس اور حلاوت اپنی جگہ مسلّم ہے اور جو شیرینی اور محبت و مودت بھرے الفاظ ہماری مادری زبان میں موجود ہے وہ شائد ہی کسی اور زبان میں موجود ہونگے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ کشمیری زبان کو ہم نے وہ اہمیت نہیں دی جسکی یہ زبان مستحق ہے۔ گھروں سے لے کر بازاروں تک،دفتروں سے لے کر کھیل کے میدانوں تک ہر عام و خواص کشمیری زبان کے بجائے اردو اور انگریزی کو ترجیح دے رہا ہے اور نوخیز نسل کو بچپن ہی سے مادری زبان سیکھنےسے دور رکھا جارہا ہے۔ مادری زبان کے تحفظ کے سلسلے میں من الحیثُ القوم ہمیں سوچنا ہوگا اور اپنی نسل کو کشمیری زبان سیکھنے پر آمادہ کرنا ہوگا۔ وادی کشمیر میں کشمیری زبان میں دو یا تین اخبارات شائع ضرور ہوتے ہیں لیکن. پڑھنے والا کوئ نہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیری زبان سے ہمیں کتنی محبت ہے۔ ادبی انجمنوں،لسانیات سے وابستہ ماہرین اور ادیب و شعراء حضرات لوگ بھی کشمیری زبان کی بقاء کے سلسلے میں ایک اہم رول ادا کرسکتے ہیں بلکہ ایک مہم شروع کرکے لوگوں کو آگاہ کیا جانے کا کام بھی شروع کیا جاسکتا ہے تاکہ ہماری نئ پود اپنی مادری زبان سے بےگانہ نہ رہے۔ یومِ مادری زبان کے حوالے سے یک روزہ مشاعرے منعقد کرنا،لچھے دار تقریریں کرنا اور پھر رسمی محبت کا اظہار کرنے سے کشمیری زبان کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کے لئے انفرادی سطح سے لے کے اجتماعی سطح تک ہر کسی کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ اگر سکولوں میں نئ تعلیمی پالیسی کو خاطر میں لاتے ہوئے اساتذہ کرام مادری زبان میں پڑھانے کا کام ہاتھ میں لئینگے تو وہ بہتر شروعات ثابت ہوسکتی ہے۔ احساسِ کمتری کو زہن سے نکال کر بچّوں کو سمجھائں کہ مادری زبان ہماری پہچان ہے اور اس زبان میں بات کرنا فخر سمجھا جائے لیکن جب ہماری نوخیز نسل اردو اور انگریزی میں بات کرتے ہیں تو ہم خوشی سے جھوم اُٹھتے ہیں جس سے ہم اپنے پیروں پر خود کلہاڈی مارتے ہیں
