تحریر:ندیم خان
روزہ کی فرضیت کا بنیادی مقصد اور تقویٰ کا حصول کیا ہے؟
رمضان المبارک کا مہینہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ہر عاقل بالغ اور تندرست مسلمان پر اس مہینے کے روزے رکھنا فرض ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی ماہ مبارک میں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر قرآن کریم کا نزول فرما دیا ۔ ان حقائق کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 185 میں یوں فرماتے ہیں "رمضان کا مہینہ وہ ہے کہ نازل کیا گیا ہے اس میں قرآن (جو) ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور روشن دلائل ہیں ہدایت کے اور ( حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کے پس جو موجود ہو تم میں سے کوئی (اس) مہینے میں تو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے اس (مہینے) کے اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرے دو سرے دنوں سے ۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تمہارے ساتھ آسانی کرنا اور وہ نہیں چاہتا تمہارے ساتھ سختی کرنا اور تاکہ تم پورا کر لو گنتی (تعداد) کو اور تاکہ تم بڑائی بیان کرو اللہ کی اس (احسان) پر جو اس نے ہدایت دی تم کو اور (اس لیے بھی) تاکہ تم شکر ادا کرو“۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مہینے کی جس رات میں قرآن مجید کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر منتقل فرمایا اسے ایک ہزار مہینے کے برابر قرار دے دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ قدر میں ارشاد فرماتے ہیں ” بے شک ہم نے نازل کیا ہے اس (قرآن) کو شب قدر میں ۔ اور آپ کیا جانیں کیا ہے شب قدر۔ شب قدر کی عبادت) بہتر ہے ہزار مہینے کی عبادت) سے۔ فرشتے اور روح الامین ( جبریل علیہ السلام) اترتے ہیں اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام سے۔ سلامتی (ہی سلامتی) ہے وہ (رات) فجر طلوع ہونے تک“۔ سورہ بقرہ کی آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ روزہ کی فرضیت کا بنیادی مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔
انسان ان اعمال کے ارتکاب سے گناہ گار بنتا ہے جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی ہو ۔ جب انسان منتقی بن جاتا ہے تو اس کا دل اور تمام جوارح اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہو جاتے ہیں۔ روزے میں چند گھنٹوں کے لیے بھوک اور پیاس کو برداشت کیا جاتا اور شریک زندگی سے اجتناب کیا جاتا ہے اور اس برداشت اور صبر کے پس منظر میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے ان تمام حلال کاموں کو عارضی طور پر چھوڑ دیا جائے گا۔ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے چند گھنٹوں کے لیے حلال کاموں سے اجتناب کیا جا سکتا ہے تو انسان کو اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جن چیزوں کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیا ہے ان سے بھی مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 189 میں اس حقیقت کا ذکر یوں فرماتے ہیں ” اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پا جاؤ“۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر ان کامیابیوں کا ذکر کیا جو انسان کو تقویٰ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بیان کردہ چند کامیابیاں درج ذیل ہیں :
1: تنگی سے نجات اور بلا حساب رزق کا حصول: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص متقی بن جاتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرما دیتے ہیں اور اس کو رزق وہاں سے دیتے ہیں جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر 23 میں ارشاد ہوا اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اُس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اسے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرتا“۔
2: معاملات میں آسانی: تمام انسان مختلف طرح کے معاملات میں مصروف رہتے ہیں، جو و شخص تقوی کو اختیار کر لیتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے جملہ معاملات کو آسان بنا دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر 4 میں ارشاد ہوا:” اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ کر دے گا اس کے لیے اس کے کام میں آسانی“۔
3: گناہوں کی معافی اور اجر کا دو چند ہونا: بہت سے لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس لیے یہ کام نہیں کر پاتے کہ وہ ماضی کے گناہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تصور کرتے ہیں کہ شاید ان کے گناہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے راستے میں رکاوٹ نہ بن جائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس وہم کا بڑے ہی خوبصورت انداز میں ازالہ فرما دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ طلاق کی آیت نمبر 5 میں اس امر کا اعلان فرما دیا : ” اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ دور کر دے گا اُس سے اُس کی برائیاں اور وہ زیادہ دے گا اُس کو اجر۔”
اجر 4: عزت کا حصول: دنیا میں ہر شخص عزت والی زندگی کو پسند کرتا ہے اور بہت سے لوگ عزت کے حصول کے لیے ہی اپنی معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں۔ دنیا میں بالعموم عزت، چہرے مہرے “ حسب و نسب اور مال و متاع کی وجہ سے ملتی ہے لیکن حدیث پاک کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کے چہروں اور ان کے اموال کو نہیں دیکھتے بلکہ ان کے دلوں اور اعمال کو دیکھتے ہیں، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ سوره حجرات کی آیت نمبر 13 میں ارشاد فرماتے ہیں” اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا ایک مرد سے اور ایک عورت (سے) اور ہم نے بنا دیا تمہیں قومیں اور قبیلے تاکہ تم ایک
دوسرے کو پہچانو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو) تم میں سے زیادہ
تقویٰ والا ہے۔
5: زمین و آسمان سے برکتوں کے دروازوں کا کھل
جانا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ اعراف میں مغضوب قوموں کا ذکر کیا جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان تمام اقوام کا تذکرہ کرنے کے بعد اس بات کو واضح فرماتے ہیں کہ ان اقوام کے لوگ اگر حقیقی معنوں میں تقویٰ اور ایمان کے راستے کو اختیار کر لیتے تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان کیلئے آسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتا۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 96 میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں” اور اگر واقعی بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے (تو) ضرور ہم کھول دیتے اُن پر برکتیں آسمان سے زمین سے اور لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے پکڑ لیا انہیں اس وجہ سے جو تھے وہ کمایا کرتے“۔
6: نیکی اور بدی کے درمیان پہچان کرنے کی صلاحیت پیدا ہونا: انسان کے لیے یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہوتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو ایسی بصیرت سے نواز دیں جس کے نتیجے میں وہ حق اور باطل کے درمیان امتیاز کرنے کے قابل ہو جائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ انفال کی آیت نمبر 29 میں ارشاد فرماتے ہیں ” اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تم ڈرو اللہ سے (تو) وہ بنادے گا تمہارے لیے ( حق اور باطل میں فرق کرنے کی (کسوٹی) اور دور کر دے گا تم سے تمہاری برائیاں اور بخش دے گا تمہیں اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔
چنانچہ ان فوائد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں روزے کی ظاہری کیفیت کے ساتھ ساتھ اس کی باطنی کیفیت کی اصلاح کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جو شخص روزہ رکھنے کے باوجود صحیح معنوں میں تقویٰ ترکیہ اور طہارت کے حصول پر توجہ نہیں دیتا اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کی بھوک اور پیاس کی کوئی ضرورت نہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص ( روزہ کی حالت میں ) جھوٹ بات کرنا اور فریب کرنا اور جہالت کی باتوں کو نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ والا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
