تحریر: غلام حسن سوپور
آج سے کوئی چالیس سال پہلے کی بات ہے جب لوگ ریڈیو جی جان سے سنتے تھے ، ایک دیہاتی کی ریڈیو میں خرابی پیدا ہوئی وہ ریڈیو نہ سننے کی وجہ سے بہت پریشان ہورہا تھا ، آس نے ریڈیو ہاتھ میں لیا اور ریڈیو میکینک کے یہاں دوڑ پڑا آپ نے ریڈیو میکینک کو ریڈیو کی خرابی سمجھائی اور کہا آپ اس کو ٹھیک کریں اور تب تک میں بازار سے ہوکر لوٹ آوں گا۔
کوئی آدھے گھنٹے کے بعد ایک اور شخص جو خوش نما لباس میں ملبوس تھا ریڈیو میکینک کے پاس آیا اور کہا آستاد جی وہ ریڈیو جو کونے میں پڑا ہے اس کو مجھے واپس کردو، آستاد نے کہا ، یہ تو کسی دوسرے شخص کا ہے ، آپ کو کیسے دوں ،تو اس پر مذکورہ شخص نے بولا ، استادجی یہ ریڈیو تو دراصل میرا ہی ہے اور آس شخص کو میں نے ہی بھیجا تھا یہ ریڈیو ٹھیک کروانے کیلئے آپ کے پاس ۔اس لئے میں خود آگیا لینے کیلئے ، یہ ریڈیو اصل میں میرا ہی ہے ۔ وہ شخص کام سے کہیں اور گیا ہے اور دراصل اسی نے مجھے بھیجا ہے آپ کے پاس ریڈیو لینے کیلئے،مذکورہ شخص نے ریڈیو میکینک کو اچھی طرح سے سمجھیا اور یقین دلایا کہ ریڈیو آن ہی کا ہے ۔ اس پر ریڈیو میکینک متفق اور مطمعین ہوا اور ریڈیو آن کے ہاتھ دے دیا اور ریڈیو ٹھیک کرنے کی مزدوری ایک روپیہ بھی ریڈیو میکینک کو اس شخص ادا کی ۔۔
اس کے بعد ہوا یوں کہ وہ اصلی شخص ریڈیو میکینک کے پاس آگیا جس نے ریڈیو کو ٹھیک کروانے کیلئے میکینک کے پاس رکھ چھوڑا تھا اور کہا آستاد جی، جناب میرا ریڈیو دے دیجئے گا ، آستاد جی نے کہا وہ تو آس شخص نے لے لیا جس کو آپ نے بھیجا تھا، وہ کہتا تھا ریڈیو میرا ہی ہے اور میں نے ہی آپ کو بھیجا تھا اس کو ٹھیک کروانے کیلئے اور اس نے ریڈیو کی مزدوری بھی ادا کی ۔ گاہک چکراگیا اور بولا جناب میں نے تو کسی کو نہیں بھیجا تھا ، یہ سن کر اب میکینک چکرا گیا اور کرسی سے گر پڑا۔اس کے بعد لوگ جمع ہو گئے اور بزرگوں نے فیصلہ کیا ہم تحقیقات کریں گے یہ ریڈیو کس نے دوکھ سے لیا، آگر ملا تو آپ کو ریڈیو واپس کردیں گے آگرنہیں ملا تو اس صورت میں آپ کو ریڈیو کی قیمت ادا کردی جائے گی ۔ ریڈیو کی قیمت بیس روپیہ تھی جو آس وقت کی ایک بڑی رقم ہوا کرتی تھی ، آج چالیس سال بیت گئے نہ وہ ریڈیو ملا اور نہ ہی وہ شخص جس نے ریڈیو کا چونہ ریڈیو میکینک کو لگایا تھا ۔ آخر پر ریڈیو میکینک نے ریڈیو کی آدھی قتمت ادا کرکے جان چھڑالی ، آپ یقین کر یں یا نہ کریں یہ واقع بلکل سچا ہے ، سادگی اور اعتبار کا زمانہ تھا ۔ تحریر غلام حسن سوپور۔
