عامر اقبال خان
آپ کی زندگی میں ایک ایسا دور ضرور آیا ہوگا جب آپ کے والدین نے آپ کو اس لڑکے کی طرح بننے کا کہا ہوگا جو اکثر پڑھائی میں اول آتا ہے اور وہ آپ کا پڑوسی یا ہم جماعت رہا ہوگا اور آپ کو یہ موازنہ کبھی پسند نہیں آئے گا۔ اور پھر جب آپ بڑے ہو جائیں گے اور آپ کے والدین اور رشتہ دار دوبارہ کہنے لگیں گے کہ دیکھو وہ لڑکا کتنا کامیاب ہے۔ اس کے پاس اچھی نوکری ہے، بڑی گاڑی ہے، بہت بڑی جائیداد ہے، اور تم کہاں ہو۔ یہ فطری عمل ہے کہ کوئی بھی ایسا سماجی موازنہ پسند نہیں کرتا۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا اسی رنگ میں رنگنے لگی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ تیزی سے امیر اور کامیاب ہونے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، جس میں اگر آپ کے پاس چھوٹی عمر میں ہی اچھی نوکری، گاڑی اور زیادہ پیسہ ہے تو ٹھیک، ورنہ آپ ایک بیکار اور نالائق انسان ہیں۔ معاشرہ تیزی سے کامیاب ہونے اور تیزی سے پیسہ کمانے کے لیے بے جا دباؤ ڈال رہا ہے۔
اور اکثر لوگ اس سماجی تقابل کی وجہ سے منفی رویے کا شکار ہو چکے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔
ایک 20 سالہ لڑکا جو نوکری کی تلاش میں ہے۔ 30 سال کا لڑکا جس کی شادی نہیں ہو سکتی کیونکہ معاشرے کے مطابق وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہوا۔ 40 سالہ شخص مڈ لائف بحران کا شکار ہے۔ ایک 50 سالہ شخص جو ہر روز ریٹائرمنٹ کے بارے میں پریشان رہتا ہے۔
دنیا کے چند امیر ترین افراد، ایلون مسک، بل گیٹس، مکیش امبانی ایسے لوگ ہیں جو 20 اور 30 کی دہائی کے اوائل میں ارب پتی بن گئے۔ ابتدائی کامیابی ان عظیم کاروباریوں کی وجہ سے مقبول ثقافت میں رومانوی تھی۔ ان سب کو اتنی میڈیا کوریج ملی کہ ہم سب سمجھنے لگے کہ اگر جلد کامیابی نہیں ملی تو زندگی برباد ہے۔
ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں عدم توازن اور بے چینی شروع ہو گئی۔
معاشرے میں ایک غیر تحریری معاہدہ ہوچکا ہے کہ زندگی میں کامیابی آپ کو ایک قابل انسان بناتی ہے۔ اگر آپ اپنی 20 اور 30 کی دہائی میں امیر ہو گئے ہیں تو دوسری صورت میں آپ بہت زیادہ وقت کھونے والے ہیں۔
اکثر آپ نے زندگی میں بہت سے لوگوں کو ناپسند کیا ہوگا اور آپ نے سوچا ہوگا کہ وہ شخص بالکل بیکار ہے۔ لیکن ایک دن اس کو دولت ملی چاہۓ وہ کسی بھی طریقے سے حاصل کی گئ ہو اور اب ایسا لگتا ہے کہ وہ کامیابی کی راہ پر گامزن ہے۔
اگر آپ بھی والدین ہیں اور آپ اپنے بچے سے سب کچھ جلد کرنے کی توقع رکھتے ہیں، تو آپ غلط راستے پر چل رہے ہیں۔ آپ اپنے بچے پر بے جا دباؤ ڈال رہے ہیں جو بالآخر اسے ڈپریشن کی طرف لے جائے گا۔ ہر ایک کو اپنی صلاحیتوں کو دریافت کرنے کے لیے کافی وقت ملنا چاہیے تاکہ وہ بامقصد زندگی گزار سکے۔
