تحریر:عاطف توقیر
سائنسی ویب سائٹ دی ٹیک ڈاٹ اورگ کے مطابق انسان اور گندم کے دانے کو ایک نگاہ دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک دوسرے کے کزن ہیں مگر حیوانات اور درختوں کے درمیان ایک گہرا حیاتیاتی تعلق پایا جاتا ہے۔ محققین کے مطابق زمین پر موجود تمام زندہ حیات ایک دوسرے کے ساتھ ڈی این اے یا ڈی آکسیری بونیکلک ایسڈ شیئر کرتے ہیں۔ اسی لیے انسانوں اور درختوں کے درمیان بھی ڈی این اے ایک سطح تک کی برابری رکھتا ہے۔
دیکھنے میں مختلف دکھنے کے باوجودہ بنیادی حیاتی اینٹ یعنی ڈی این اے کا ملنا انسانوںاور درختوں کے درمیان ایک رشتے کا عکاس ہے۔ مگر زندگی کا تنوع ہی ہے، جو ایک درخت کو درخت اور انسان کو انسان بناتا ہے۔
جینیاتی مماثلت
انسانوں اور مختلف پودوں کے درمیان بیس سے ساٹھ فیصد تک جینیاتی مماثلت پائی جاتی ہےجبکہ حیوانات کے ساتھ یہ تعلق مزید قریبی ہے مثلا ً ﹰ چوہے کے ساتھ انسانی ڈی این اے اسی فیصد اور چمپینزی کے ساتھ پچانوے فیصد سے زائد تک کی مماثلت رکھتا ہے۔
سائنسی جریدے نیچر کے مطابق مماثل جینز میں کئی ایک ایسے ہیں، جو مختلف ڈی این اے کی وجہ سے مختلف افعال کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر آئیز ایبسنٹ نامی جین: یہ حیوانات میں آنکھ کی ڈیولپمنٹ میں کلیدی کردار کا حامل ہے، جب کہیہی جین پودوں میں شاخوں سے نئی شاخوں کی پیدائش کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح بعض پودوں میں ایک خاص پروٹین ‘لیگیمو گلوبن‘ ہوتا ہے اور یہ ٹھیک وہی فعل انجام دیتا ہے، جو انسانوں میں‘ہوموگلوبن‘ نامی جین کا ہے، یعنی ‘خون سے آکسیجن کو جوڑ کر رکھنا۔‘‘
جینیاتی فرق
ہمارے کچھ ہی جین ہیں، جو پودوں کے ڈی این اے میں بھی موجود ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ ڈی این اے کا فقط دو فیصد حصہ ہی جین پر مشتمل ہوتا ہے، جب کہ ڈی این کے غیر جینیاتی حصے اتنے مختلف ہیں کہ ان کا پودوں اورانسانوں میں بالکل بھی موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔
انسانوں اور درختوں کا جد مشترک تو ہے، مگر وہ بہت زمانہ قبل کی بات ہے، یعنی جب زندگی ممکنہ طور پر فقط یک خلوی تھی۔ سائنس کہتی ہے کہ سیارہ زمین پر دو ارب برس سے بھی قبل زندگی ابتدائی حالت میں تھی اور انسانوں اور پیڑوں کا جد اسی لمحے میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔
اسی تناظر میں انسانوں اور پودوں کے ڈی این اے میں تفاوتوں کے باوجود بہت سی مماثلتیں بھی موجود ہیں۔ یعنی ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پیڑ ہمارے بھائی ہیں مگر یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے دور کے کزن ہیں۔