از:ڈاکٹر جی ایم بٹ
شمالی کشمیر کے پارلیمنٹ ممبر انجینئر رشید کو ساڑھے پانچ سال کی مسلسل نظر بندی کے بعد بدھ وار کو تہار جیل سے رہا کیا گیا ۔ جموں کشمیر کے عوام نے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ان کی رہائی کو خوش آئند قرار دیا ۔ خاص طور سے ان لوگوں کے اندر اطمینان کی لہر پائی گئی جو کسی وجہ سے خوف و ہراس کا شکار ہوکر سیاسی سرگرمیوں سے اجتناب کئے ہوئے تھے ۔ تاہم بعض سیاسی حلقوں نے ان کی رہائی پر خوشی کے بجائے تحفظات کا اظہار کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ رہائی محض عدالتی کاروائی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سیاسی ڈیل ہے جس کا مقصد کشمیر میں ووٹ بینک کو تقسیم کرکے بی جے پی کو فائدہ پہنچانا ہے ۔ انجینئر نے جیل سے رہائی پاتے ہی اس پروپگنڈا کی تردید کی اور یقین دلایا کہ وہ کشمیر کے لوگوں کے خیالات کی ترجمانی کریں گے ۔ یاد رہے کہ انجینئر نے اپنی نظر بندی کے دوران ملک میں ہوئے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اور ووٹوں کے بڑے فرق سے الیکشن جیت لیا ۔ ان کے مقابلے میں این سی کے سربراہ عمر عبداللہ کے علاوہ پیوپلز کانفرنس کے چیرمین سجاد غنی لون تھے ۔ ان مضبوط برجوں کو گراکر انجینئر نے سیاسی تجزیہ نگاروں کو حیران اور ان کے مقابل کھڑا امیدواروں کو سخت پریشان کیا ۔ ان کی جیت کے حوالے سے کئی لوگوں کا خیال تھا کہ ہمدردی کی لہر ہے جو بہت جلد دم توڑے گی ۔ لیکن ان کے سرینگرپہنچنے پر ان کا جو والہانہ استقبال کیا گیا اس سے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے ۔ بارھمولہ میں ان کی آمد پر لوگوں کا ایک سمندر امڈ آیا تھا جس نے دل کھول کر انہیں واپسی پر خوش آمد کہا ۔اس طرح کے استقبال نے ان کے مخالفین کی بولتی بند کی اور اندازہ ہے کہ جاری انتخابات پر اس عوامی لہر کا گہرا اثر پڑے گا ۔ انجینئر کی عوامی اتحاد پارٹی AIP نے پورے کشمیر میں اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں جن کو عوام میں پذیرائی مل رہی ہے ۔ اس وجہ سے روایتی سیاسی حلقے خوف زدہ ہیں ۔ خاص طور سے این سی اور پی ڈی پی میں سخت پریشانی پائی جاتی ہے ۔ انجینئر کے جیل میں ہوتے ہوئے وہ ان کی سیاسی سرگرمیوں کا مقابلہ نہ کرسکے ۔ اب ان کے جیل سے باہر آنے اور لوگوں کے بے مثال استقبال کے بعد مبینہ طور دونوں پارٹیوں کے لیڈروں میں سراسیمگی پائی جاتی ہے ۔ انجینئر کی رہائی کی خبر سامنے آتے ہی دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں نے الزام لگایا کہ انجینئر رشید وزیراعظم مودی کے ساتھ ڈیل طے کرکے باہر آئے ہیں ۔ اس سے پہلے دونوں لیڈروں عمر اور محبوبہ نے جماعت اسلامی کی انتخابات میں شرکت پر ایسا ہی بیانیہ اختیار کیا ۔ بلکہ الطاف بخاری کی اپنی پارٹی کو بی جے پی کی B Team قرار دے کر اس غبارے سے ہوا نکالنے میں کامیاب ہوئے ۔ لیکن انجینئر نے الزامات کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے حریفوں کے خلاف سیاسی جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے ۔
شیخ خاندان کی ابتدا سے ہی کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے لئے کسی حریف کو برداشت نہیں کرتے ۔ پہلے کانگریس کو اپنے مقابلے آنے سے روک دیا ۔ اس دوران میر واعظ خاندان کے خلاف لوگوں میں ایسا زہر گھول دیا کہ ایسے مضبوط مذہبی اور سیاسی قیادت کو میدان چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہونا پڑا ۔ فاروق عبداللہ نے اپنے دور میں اپنے مخالفین کے خلاف اسی طرح کے حربے استعمال کئے اور شروع میں بہت کامیاب رہے ۔اس دوران اپنی صفوں بلکہ اپنے ہی خاندان میں بغاوت ہونے کی وجہ سے وہ اقتدار سے بے دخل کردئے گئے ۔ اس کے بعدمفتی خاندان سے شکست کھاکر دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے ۔ مفتی نے بھی پہلے کانگریس اور پھر بی جے پی کی مدد سے اقتدار کی کرسی حاصل کی ۔ لیکن کرسی دیرپا ثابت نہ ہوئی اور مرکز کے بھینٹ چڑھی ۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں دونوں خاندانوں کو ووٹروں نے مسترد کیا جس سے وہ بوکھلا گئے ہیں ۔ اب ایسے بیانات دے رہے ہیں جو سیاسی بالیدگی سے بہت دور نظر آتے ہیں ۔ مان بھی لیا جائے کہ انجینئر رشید نے بی جے پی سے ڈیل کی ہے تو اس میں عمر اور محبوبہ کے لئے تڑپنے کی کیا بات ہے ۔ دونوں ماضی میں اس طرح کے کاروبار میں شامل رہے ہیں بلکہ آج بھی ایسی کوئی ڈیل کرنے کے لئے بے تاب ہیں جس سے اقتدار حاصل ہوجائے۔ کشمیر کی ہر سیاسی پارٹی اس طرح کا کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیارہے ۔ عمرعبداللہ کے سامنے مودی آج بھی ہڑی پھینک دے تو وہ دوڑ پڑیں گے ۔ اسی طرح محبوبہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سخت مار کھانے کے باوجود رام مادھو کے ساتھ تانے بانے بننے میں مصروف ہے ۔ بی جے پی کے لئے کوئی مجبوری نہیں کہ کسی کے ساتھ اتحاد پر مجبور ہوجائے ۔ پارٹی پر ایسے سخت گیر لوگ قبضہ کئے ہوئے ہیں جو اپنے کئی سیاسی گرووں کو دیوار کے پیچھے دھکیل چکے ہیں اور ان کا کوئی نام تک نہیں لیتا ہے ۔ انجینئرکے ساتھ مودی ہاتھ ملانے پر کیوں مجبور ہوئے اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔کشمیر کا ووٹ پہلے ہی منقسم ہے اور بی جے پی کے اس پر حاوی ہونے کا قوی امکان ہے ۔ ایک طرف عمر اور محبوبہ کسی بھی علاقائی پارٹی کے ساتھ اتحاد بنانے کو تیار نہیں ۔ گپکار الائنس کا انہوں نے جو حشر کیا اس کے بعد کوئی جواز نہیں بنتا کہ این سی کو بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں چھوڑ دیا جائے اور دوسرا کوئی الیکشن میدان میں نہ آئے ۔ لوگوں کو بھی کسی ایک واحد پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لئے کہنا بلا جواز ہے ۔ جب لیڈر باہم متحد نہ ہوئے تو لوگوں کا اکٹھے رہنا ممکن نہیں ۔ گپکار پارٹیوں سے بدظن ہوکر لوگ دوسری جماعتوں کو سپورٹ کریں حق بجانب ہے ۔ اس پر الزام تراشی بے جا ہے ۔
