مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہومیو پیتھی کے ماضی کو اس کے آغاز سے شروع کیا جائے۔ یہ 1790 ء کا واقعہ ہے کہ ایک ڈاکٹر آف میڈیسن نے قانون علاج بالمثل دریافت کیا۔ اگلے چھ سال وہ اس قانون پر مزید تحقیق کرتا رہا۔ اس وقت اس خطہ ارض پر ایک ہی ذات ہومیو پیتھی کا ڈاکٹر، فارماسسٹ اور مریض تھی۔ وہ جرمنی کے شہر لائپزک میں ڈاکٹر فیڈرک کرسچن سموئیل ہانیمین تھے۔
ماضی کا دور
1796 ء میں ڈاکٹر ہانیمین نے ایک تحقیقی مضمون شائع کیا، جس کا عنوان تھا، دو اؤں کی شفا بخش خاصیت معلوم کرنے کا نیا اصول ”طبی دنیا کی طرف سے اس کی سخت مخالفت ہوئی اور وہ برسر پیکار ہو گئی۔ لیکن ڈاکٹر ہانیمین نے ہمت نہ ہاری اور بڑی مستعدی سے مخالفین اور حاسدین کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ وہ بار بار کہتے رہے کہ اس قانون کو تجرباتی بنیادوں پر غلط ثابت کریں لیکن ایسا کوئی نہ کر سکا۔ اس مضمون سے ہومیو پیتھی کا آغاز ہو گیا اور اس کے حامی بھی پیدا ہو نے لگے۔ ڈاکٹر ہانیمین نے ہومیو پیتھک میڈیکل پریکٹس شروع کر دی جس سے ہومیو پیتھی کے مریضوں کا حلقہ مزید بڑھ گیا۔
1810 ء میں آرگنن آف میڈیسن (ہومیو مٹیریا میڈیکا) کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا۔ اس طریق علاج کو ہومیوپیتھک سسٹم آف میڈیسن کا نام دیا گیا۔ اس وقت ڈاکٹر ہانیمین لائیپزک یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔ ہومیو پیتھی کے بنیادی نظریہ اور قواعد و ضوابط پر اسی یونیورسٹی میں لیکچر دیا۔ اس سے یورپ کے دیگر ممالک میں بھی ہومیو پیتھی کے مریضوں، شاگردوں اور چاہنے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔ ڈاکٹر ہانیمین نے 1820 ء میں آسٹریا کے ایک شہزادے کا علاج کیا جو عیش و عشرت کے باعث کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہو گیا تھا۔ شہزادہ ٹھیک ہو کر دوبارہ عیاشیانہ زندگی میں پڑ گیا۔ پھر بیمار ہو کر ہومیو پیتھک علاج کرائے بغیر ہی اس جہان فانی سے گزر گیا۔
ناقدین ہومیو پیتھی کو موقعہ مل گیا، انہوں نے اس کی موت کا سبب ہومیو ادویات کو قرار دے دیا۔ ہومیو پیتھی پر پابندی لگوا دی۔ ڈاکٹر ہانیمین کو ہومیو پریکٹس کرنے سے قانوناً منع کر دیا اور ملازمت سے نکال دیا۔ یہ دور ہومیو پیتھی اور اس کے بانی پر سخت مشکلات کا تھا۔ ڈاکٹر ہانیمین نے اپنا آبائی شہر لائیپزک چھوڑا، اپنے دوستوں، عزیزوں، شاگردوں اور مریضوں کو بھی چھوڑا، لیکن ہمت نہ ہاری۔ وہ ہومیو پیتھی کے سنہری اصول اور آرگنن کا مسودہ کندھے پہ اٹھائے پریشان حال تھے۔ کیونکہ انہیں ہومیو پیتھی کی شمع روشن کرنے کی کہیں بھی جگہ نہ مل رہی تھی۔ بالآخر کوتھن شہر کے ڈیوک فریڈرک کو ان پر ترس آ گیا۔ اس نے ڈاکٹر ہانیمین کو بلا کر اپنا معالج مقرر کیا اور ہومیو پریکٹس کی اجازت دے دی۔
1832 ء میں یورپ میں ہیضہ کی وبا پھیلی تو ہومیو پیتھک علاج نے دھاک بٹھا دی۔ کیونکہ دیگر علاجوں سے ہومیو پیتھی نے نسبتاً بہتر نتائج پیش کیے تھے۔ اس کے باوجود جرمنی میں ان کی مخالفت کم نہ ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کی معاشرتی اور معاشی زندگی گوناگوں مسائل کا شکار تھی جبکہ ان کی عمر اٹھاسی ( 88 ) برس ہو چکی تھی۔ جرمن حکومت نے ابھی تک ہومیو پیتھی کو بطور علاج تسلیم نہ کیا تھا۔ ان مسائل سے رستگاری کی خاطر ڈاکٹر صاحب نے جس فرانسیسی عورت سے شادی کی ہوئی تھی، وہ انہیں فرانس (پیرس) لے آئی۔
وہاں انہیں قانوناً ہومیو پیتھک پریکٹس کی اجازت مل گئی۔ زندگی میں پہلی بار ڈاکٹر ہانیمین اور ہومیو پیتھی کو کچھ سکون اور آ رام ملا۔ بالآخر 1843 ء میں ڈاکٹر صاحب اس جہان فانی سے چل بسے۔ اب تک ہومیو پیتھی صرف دو ملکوں یعنی جرمنی اور فرانس میں متعارف تھی۔ البتہ ہومیو پیتھی کی آواز دور دور تک پھیل چکی تھی۔ کہتے ہیں کہ وفات کے وقت انکی ہونٹوں پر یہ الفاظ تھے کہ ”میں نے اپنی زندگی بیکار نہیں گزاری“ ۔ رحلت پر وہ فرانس کے نیشنل ہیروز کے قبرستان میں دفن ہوئے اور کتبے پر لکھا گیا، (I have not lived in vain) ۔
قارئین کرام! یہ ہومیو پیتھی کے ماضی کی لرزہ خیز داستان تھی، اب زمانہ حال کے امید افزاء حالات ملاحظہ ہوں۔
ہومیو پیتھی کا حال
یہاں تک زمانہ حال کا تعلق ہے، ہومیو پیتھی نے سستا، بے ضرر اور نسبتاً بہتر علاج کے طور پر دنیا بھر میں اپنی شناخت کرا لی ہے۔ انسانوں کے علاوہ جانوروں کا بھی کامیاب علاج کر رہی ہے، یہ امر ہومیو علاج کو نفسیاتی اثرات کہنے والوں کے لئے اک تازیانہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے ہومیو پیتھی کو طریقہ علاج تسلیم کر کے نظام ہائے علاج میں شامل کر لیا ہے۔ ہومیو پیتھک میڈیکل کالجز کا جال بچھ گیا ہے ۔ بے تحاشا ہومیو لٹریچر شائع ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر کینٹ، ڈاکٹر ہیرنگ، ڈاکٹر بورک (یورپ) ، ڈاکٹر کاشی رام، ڈاکٹر دولت سنگھ ( بھارت) ڈاکٹر فتح شیر اور مرزا طاہر احمد ( پاکستان) وغیرہ جیسے ہومیو مصنف سامنے آئے ہیں، جن کی کتب کی ہاٹ کیک سیل ہے۔
آج میڈیکل ڈاکٹرز، دانشور اور ذہین افراد ہومیو پیتھی کے حلقہ ء مریضان میں شامل ہیں۔ ہومیو پیتھی کی زمین مسلسل وسیع ہو رہی ہے۔ ہومیو پیتھ دواساز اداروں کی سیل کروڑوں روپے ماہانہ تک پہنچ چکی ہے۔ جس پر ناقدین اور حاسدین ہومیو پیتھی سخت نالاں ہیں۔ دنیا بھر میں چھا جانے اور جملہ ممالک کا ہومیو پیتھی کو بطور میڈیکل سسٹم قبول کر لینے پر مخالفین نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے اور وہ ہومیو پیتھی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے۔ وہ کہتے ہیں کیونکہ کوئی لیبارٹری ہومیو دوائی کے وجود کو ثابت نہیں کرتی، اس لئے اس کی فارمیسی اور استعمال کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ ان محترمین سے گزارش ہے کہ وہ تجربہ سے ثابت کریں کہ ہومیو دوائی میں ادویاتی اثرات نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ ہومیو پیتھک دوائی کی تین اشکال ہیں، اول مدر ٹنکچر، دوم لو پوٹنسی ہومیو دوائی اور سوم ہائی پوٹنسی ہومیو دوائی۔ مدر ٹنکچر پر یہ اعتراض لاگو ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس میں دوائی کا رنگ، بو اور ذائقہ ہوتا ہے، جسے عام آدی محسوس کر سکتا ہے۔ اس کے لئے کسی تجربہ گاہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لو پوٹنسی میں دوائی قلیل مقدار میں ہوتی ہے، جسے الیکٹروسکوپی ٹیسٹ سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ہائی پوٹنسی میں دوائی مادی طور پر بالکل نہیں ہوتی البتہ مستعمل مادے کے خواص ہوتے ہیں۔ جو توانائی کی طرح اثر پذیر ہوتے ہیں۔ کسی توانائی کی شکل کو جاننے کا وہی طریقہ سب سے بہتر ہے جو برطانوی فلاسفر برٹرنڈرسل نے برق کے لئے بتایا تھا، وہ لکھتے ہیں۔
”برق، سینٹ پال کے گرجے کی قسم کی کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے۔ یہ تو اشیاء کے طرز عمل کا نام ہے۔ جب ہم یہ بتا چکتے ہیں کہ برقائے جانے کے بعد چیزیں کیسے عمل کرتی ہیں اور کن حالات کے تحت برقائی جاتی ہیں تو جو کچھ ہمیں اس ضمن میں کہنا تھا۔ کہہ دیا گیا ہے۔“
پس ہائی پوٹنسی ہومیو دوائی کا کسی جسم میں تبدیلی پیدا کرنا اس کے وجود کا ثبوت ہے اور اس کے اثرات دوائی کی خصوصیات بتاتے ہیں۔
قصہ کوتاہ، آج ہومیو پیتھی نے علاج کی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ ایلوپیتھک میڈیکل سٹوروں پر ہومیو ادویات کے شیلف بھی لگ گئے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ہومیو پیتھ ڈاکٹرز بٹھا دیے گئے ہیں۔ جا بجا ہومیو پیتھک سٹور اور کلینک کھل چکے ہیں۔
ہومیو پیتھی کا مستقبل
میرے نزدیک ہومیو پیتھی کا مستقبل بہت تابناک ہے۔ آنے والا کل ہومیو پیتھی کا ہے۔ علاج کے حوالے سے نسل انسانی کا وہ روشن دن ہو گا، جب ہومیو پیتھی کا رشتہ جدید میڈیکل سائنس سے پیوست ہو جائے گا۔ ہومیو پیتھی کسی کی جاگیر نہیں ہے، یہ نسل انسانی کے لئے علم و فن کا لا زوال خزانہ ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا، جب ہسپتالوں کے میڈیکل اور سرجیکل وارڈز میں ہومیو میڈیسن کا بول بالا ہو گا۔ یہاں منفی رد عمل سے پاک دوائی سے بیماروں کو شفا ملے گی۔
کینسر، ایڈز اور پارکنسن امراض جیسی لا علاج امراض کا ہومیو پیتھک دوائی سے علاج ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر ہانیمین کے قانون علاج بالمثل میں ان خبیث امراض کے علاج کے اشارے مل رہے ہیں۔ آج کا باشعور انسان اور طبی ماہرین، مذکورہ بالا امراض کے علاج کے لئے ہومیو پیتھی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہومیو علاج سے ایسے مریضوں کے شفا یاب ہونے کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔
وہ وقت ضرور آئے گا، جب میڈیکل ڈاکٹرز حضرات کے زیر نگاہ ہومیو پیتھک مٹیریا میڈیکا بھی ہو گا اور وہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہوں گے ۔ اس کے اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ خاکسار نے بعض ماہر امراض گردہ کے نسخہ میں ہومیو پیتھک دوائی لکھی دیکھی ہے۔ نیز ایک ترقی یافتہ ملک میں چھ سال سے کم عمر بچوں کو صرف ہو میو پیتھک دوائی دی جا رہی ہے۔ ایک زمانہ ہو گا کہ عالمی دوا ساز ادارے ہومیو پیتھک ادویات بنا رہے ہوں گے ۔ پس ہومیو پیتھی کا مستقبل مایوس کن نہیں بلکہ انتہائی روشن اور تابناک ہے۔
واضح ہو کہ یہ وہی ہومیوپیتھی ہے کہ کبھی اس زمین پر ایک ہی فرد اس کا ڈاکٹر، فارماسسٹ او ر وہی مریض تھا۔ جبکہ اس ہومیو پیتھی کے موجودہ حالات کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ البتہ مزید جاننے کے لئے ہمیں معلوم کرنا ہو گا کہ یہ آگے کی طرف سفر کر رہی ہے یا پیچھے ہٹ رہی ہے۔ یعنی اس کے زیرعلاج مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس کے مریضوں کا معاشی، معاشرتی، علمی اور ذہنی معیار کیا ہے؟ یہ حقیقت شک و شبہ سے بالا ہے کہ ہومیو پیتھی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے حلقہ ء مریضان میں انتہائی باشعور اور اہل علم و فن حضرات بھی شامل ہیں۔ اس کا سبب انسان کا شعوری ارتقا ہے۔
