اگرچہ زمین پر سطح سے زیادہ پانی ہے، لیکن یہ انسانی استعمال کے قابل نہیں ہے۔ جو چیز پینے اور استعمال کے لیے موزوں ہے اس کی مقدار بہت محدود ہے۔ جبکہ انسانی آبادی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی عالمی جنگ اس محدود وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے لڑی جائے گی۔ حالانکہ دنیا بھر میں حکومت ایک اسکیم پر کام کر رہی ہے تاکہ امیر ہو یا غریب، شہری ہویا دیہی علاقع کی عوام سب کو یکساں طور پر پانی دستیاب ہو۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر تمام ممالک جن میں ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک شامل ہیں،اپنے ملکوں میں پانی کی قلت اور اسے دور کرنے کے طریقوں پر پر غور کرتے ہیں۔ اسے حل کرنے کیلئے عملی اقدامات پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیمز بنا کر زراعت کے لئے پانی مہیا کیا جاتا ہے لیکن دنیا میں کچھ ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں پانی کی مشکلات سے عوام پریشان ہو رہی ہے۔ وطن عزیز کی تاج کہلانے والی ریاست میں آبی ذخائیر کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہاں کے دریاؤں سے پڑوسی ملک بھی فیضیاب ہوتا ہے لیکن آج بھی خود یہاں کے کئی ایسے علاقع ہیں جہاں عوام پانی کیلئے ترس رہی ہے۔
جموں کشمیر میں محکمہ صحت عامہ اب جل شکتی بن چکا ہے۔ لیکن عوام کو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔ وہ آج بھی پانی کے لئے ترس رہی ہے۔ حکومت نے عوام کو پانی فراہم کرنے کے لئے قدرتی ذرائع کے علاوہ واٹر سپلائی اسکیمیں چلائی تاکہ بالائی علاقہ جات میں عوام کو پانی فراہم کیا جا سکے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان اسکیموں کے خراب ہونے کے بعد محکمہ ان پرکوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ کئی ایسی واٹر سپلائی اسکیمیں ہیں جو مہینوں سے خراب ہیں یا برسوں سے چلی ہی نہیں جبکہ سرکاری خزانے سے ان اسکیموں پر لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے لگائے گئے ہیں۔جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کے سٹی ہیڈ کواع ٹر سے تقریباً 10 کلومیٹر کی مسافت پر سرحدی گاؤں سلوتری آباد ہے۔اسی گاؤں میں ایک واٹر سپلائی اسکیم(ڈھوکی بن سلوتری) کا افتتاح اکیس دسمبر 2019 میں سیکریٹری محکمہ پی ایچ ای اجیت کمار ساہو نے کیا تھا۔ جس کے بعد مقامی عوام میں امید کی ایک نئی کرن جاگی کہ انہیں بھی اب صاف و شفاف پانی میسر ہوگا۔لیکن بہت جلد ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ مقامی عوام کے مطابق اسی اسکیم سے آج تک عوام کو پانی نہیں مل سکا۔ان کاکہنا ہے اس اسکیم سے منسلک پائپیں راستے سے ٹوٹی ہوئی ہیں اور اسکیم اتنی قابل بھی نہیں کہ اس سے منسلک ٹینک تک پانی پہنچا سکے۔
اس سلسلہ میں مقامی شخص سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں پانی کی بہت پریشانی ہے جس سے عوام بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ لفٹ اسکیم سرکار کی طرف سے عوام کی سہولیات کے لئے دی گئی تھی لیکن کچھ ہی دنوں کے بعدعوام کواس کا فائدہ ملنا بند ہو گیا۔حالانکہ کاغذات پر یہ اسکیم آج بھی چل رہی ہے۔مگر زمینی سطح پر عوام کو اس کا پانی نہیں مل رہا ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ اس اسکیم سے منسلک پائپیں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہیں وہیں پانی کا ٹینک بھی پورا تعمیر نہیں ہوا ہے۔ اسی سلسلے میں جب ایک اور مقامی محمد صغیرسے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر سرکار کی طرف سے ایک کروڑ 95 لاکھ روپے کی لاگت سے لفٹ اسکیم منظور ہوئی تھی اور جلد از جلد پانی کی پریشانی کو دور کرنے کی یقین دھانی بھی کرائی گئی تھی لیکن کاغذات میں پانی چل رہا ہے اور ہمارے پاس آج تک پانی نہیں پہنچا ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ راستے میں پانی کی پائپ ٹوٹی ہوئی ہیں اور پورا محلہ پانی کی لئے پریشان ہے۔اسی گاؤں کے ایک بزرگ حاجی محمد صادق سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ پانی کی بہت زیادہ پریشانی ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ سرکار کی طرف سے لفٹ سکیم کی منظوری ہوئی تھی لیکن پھر بھی پانی نہیں آ رہا ہے۔ موصوف نے کہاکہ ہم لوگ دور دراز علاقے سے پانی لاتے ہیں اور اپنا گزارا کرتے ہیں۔انہوں نے متعلقہ محکمہ کے اعلیٰ عہدیداران سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ اس سرحدی علاقے کے لوگوں کی پریشانی کوسمجھنے کی کوشش کریں اور جلد از جلد اس لفٹ سکیم کو بحال کریں تاکہ یہاں کی غریب عوام کو پانی مہیا ہو سکے۔
جب اس سلسلے میں متعلقہ محکمہ کے اے ای ای مکینیکل امر پریت سنگھ سے بات کی گئی تو انہوں نے کہاکہ ہماری جو مکینیکل شعبہ کی ذمہ داری ہے اس کے مطابق یہ لفٹ اسکیم فعال ہے اور پانی سپلائی ہو رہا ہے۔ موصوف سے جب سوال کیا گیا کہ اس لفٹ اسکیم سے منسلک پائپیں ٹوٹی ہوئی ہیں تو انہوں کہا کہ اس کی ذمہ داری مکینکیل شعبے کی نہیں ہے بلکہ سول شعبے کی ہے۔بہرحال عوامی حلقوں کے مطابق اس لفٹ اسکیم سے عوام کو پانی نہیں مل رہا۔انکا کہنا ہے جہاں لفٹ اسکیم کا بنیادی مرکز(بیس سٹیج) ہے وہاں سے پانی کا ٹینک دوری پر ہے۔جس کی وجہ سے لفٹ اسکیم سے پانی ٹینک تک نہیں پہنچ پا رہا ہے لیکن متعلقہ محکمہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ یہ اسکیم فعال ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ عوامی مسائل و مشکلات کا ازالہ کیسے ہوگا؟ کیونکہ عوام کواس لفٹ اسکیم سے پانی نہیں مل رہا ہے اور محکمہ اس لفٹ اسکیم کے بحال ہونے کے دعوے کر رہا ہے۔متعلقہ محکمہ کو چاہئے کہ عوامی مسائل و مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں درپیش خرابیوں اور مشکلات کو دور کیا جائے اور عوام کو صاف و شفاف پانی فراہم کی جائے۔(چرخہ فیچرس)