ویب ڈیسک
بولڈ اور نامناسب ویڈیوز سے شہرت حاصل کرنے والی عراقی ٹک ٹاکر غفران مہدی سوادی المعروف ام فہد کو گھر کے باہر قتل کردیا گیا۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق غفران مہدی سوادی المعروف ام فہد کو دو دن قبل دارالحکومت بغداد کے پوش علاقے میں اپنے گھر کے باہر اس وقت فائرنگ کرکے قتل کیا گیا جب وہ ایک اور خاتون کے ہمراہ باہر جا رہی تھیں۔
عراقی پولیس کے مطابق ام فہد کو موٹر سائیکل سوار ملزمان نے ٹارگٹ کرکے قتل کیا اور بعد ازاں قاتل ٹک ٹاکر کا فون ساتھ لے کر فرار ہوگئے۔ٹک ٹاکر کے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیجز عراقی میڈیا میں وائرل ہوگئیں جب کہ سوشل میڈیا اسٹارز سمیت سوشل میڈیا صارفین نے بھی ان کے قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کرکے انہیں سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔دوسری جانب عراقی وزارت داخلہ نے ام فہد کے قتل کے بعد تفتیش کے لیے اعلیٰ خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی، تاہم فوری طور پر ٹک ٹاکر کے قاتلوں کی گرفتاری میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی تھی۔ام فہد ٹک ٹاک سمیت انسٹاگرام پر اپنی ویڈیوز کے حوالے سے کافی شہرت رکھتی تھیں اور ان کے چار لاکھ سے زیادہ فالوورز تھے۔وہ زیادہ تر روایتی عرب اور عراقی موسیقی پر اپنی ڈانس کی ویڈیوز اپ لوڈ کرتی تھیں، تاہم ساتھ ہی وہ لباس، خواتین کی آزادی اور فیمنزم کے موضوعات پر بھی ویڈیوز بناتی تھیں۔سال 2023 میں بغداد کی مقامی عدالت نے انہیں نامناسب زبان، عریاں مناظر اور سماج میں فحاشی پھیلانے والی ویڈیوز ڈالنے کے الزام میں 6 ماہ تک جیل بھی بھیجا تھا اور ان کی سزا پر سوشل میڈیا اسٹارز نے احتجاج بھی کیا تھا۔ام فہد کے قتل کے بعد دیگر ٹک ٹاکرز اور سوشل میڈیا اسٹارز نے بھی سیکیورٹی خدشات کا اظہار کیا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عراق میں کسی خاتون سوشل میڈیا اسٹار کو قتل کیا گیا ہو، وہاں 2018 سے ٹک ٹاکر، یوٹیوبرز، صحافیوں، ماڈلز اور فنون لطیفہ سے وابستہ رکھنے والی خواتین کو وقفے وقفے سے قتل کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔دیگر ممالک کی طرح عراق میں بھی حالیہ چند سال میں ٹک ٹاک اور انسٹاگرام نے خواتین کو شہرت حاصل کرنے کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں اور وہاں پر سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔
عراقی میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور ٹک ٹاکرز نہ صرف سیاحت، شوبز اور کھیلوں بلکہ سیاست اور فوج پر بھی ولاگرز کرتے دکھائی دیتے ہیں اور عراقی حکومت خود بھی ولاگرز کی خدمات حاصل کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن اس باوجود وہاں سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے قتل کا سلسلہ جاری ہے۔