نیوز ڈیسک
عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو جرمن ہتھیاروں کی فروخت کے خلاف درخواست مسترد کردی۔غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کو جرمن ہتھیاروں کی فروخت کے خلاف درخواست پر عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ جاری کردیا۔عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا موجودہ حالات میں آرٹیکل 41 کے استعمال کی ضرورت نہیں۔بر اعظم امریکا کے وسطی ملک نکاراگوا کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جرمنی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرکے نسل کشی کنوینشن کی خلاف ورزی کر رہاہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل جنوری میں عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کا کیس نہ سننے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ چلانے کا اعلان کردیا تھا تاہم وہ جنگ بندی کا حکم دینے میں ناکام رہی تھی۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل نے حماس کے حملے پر بڑے پیمانے پر غزہ میں کارروائیاں کیں جس سے غزہ تباہی کی داستان بن چکا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق غزہ رہنے کے قابل نہیں رہا، اقوام متحدہ کے کئی اداروں نے اسرائیل کے خلاف قراردادیں پیش کیں۔7 اکتوبرکے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، ہزاروں افراد جاں بحق اور 63 ہزار سے زائد زخمی ہوئے، 9 اکتوبر کو اسرائیلی وزیردفاع نے غزہ کے محاصرے اور بجلی پانی بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔عدالتی فیصلے کے مطابق غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، اسرائیل کے حملوں سے غزہ کے انفرااسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، فلسطینیوں کو عالمی انسداد نسل کشی معاہدوں کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے، عدالت غزہ میں فلسطینیوں کو نسل کشی کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے کے حق کو تسلیم کرتی ہے اور اسے نسل کشی کنونشن کے تحت کیس سننے کا اختیار ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ غزہ میں ہسپتالوں پر بھی حملے کیے گئے، غزہ کے بچے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں اور اس کی 20 لاکھ سے زائد آبادی نفسیاتی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا ہے۔فیصلے میں بتایا گیا تھا کہ اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کا کیس خارج نہیں کریں گے، اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی روکے۔عالمی عدالت انصاف نے نسل کشی کنونشن پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل کو ہنگامی احکامات جاری کرتے ہوئے نسل کشی کرنے والے اقدامات سے روک دیا تھا۔
عدالت نے اسرائیل کو غزہ میں انسانی صورتحال بہتر بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ پٹی کے شہریوں کو موجودہ نامساعد حالات اور بحران سے نکالنے کے لیے اسرائیل اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور ایک ماہ میں غزہ کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات پر رپورٹ پیش کرے۔عالمی عدالت انصاف نے کہا تھا کہ اسرائیل پابند ہے کہ اس کی فوج غزہ میں نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی نہ کرے، غزہ کی پٹی کے تمام فریق بین الاقوامی قانون کے پابند ہیں۔عالمی عدالت انصاف میں کیس کا فیصلہ سنانے کے دوران 17 رکنی پینل میں سے 16 ججز موجود تھے جن میں سے 15 ججوں نے اس فیصلے کی تائید جبکہ 2 نے مخالفت کی تھی۔عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کی درخواست پر فیصلہ سنایا تھا، عدالت نے اسرائیل کی کیس نہ سننے کی درخواست مسترد کردی تھی اور اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا تھا۔
یاد رہے کہ عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا تھا جس کے بعد عالمی عدالت میں کارروائی جاری تھی، 11 اور 12 جنوری کو ہونے والی سماعت میں جنوبی افریقہ اور اسرائیل نے دلائل پیش کیے تھے۔
جنوبی افریقہ نے سماعت کے دوران اسرائیل کے خلاف عارضی اقدامات کی استدعا کی تھی۔
اس دوران اسرائیل نے عالمی عدالت انصاف میں غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کو قرار دیا تھا۔
اسرائیل نے غزہ میں 26 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی اموات کے باوجود عالمی عدالت انصاف میں سماعت کے موقع پر اپنی کارروائیوں کو فلسطینیوں کی نسل کشی کی مہم ماننے سے انکار کرتے ہوئے الزامات کو جھوٹا اور مسخ شدہ قرار دے دیا تھا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے عالمی عدالت میں مؤقف اپنایا کہ وہ اپنے دفاع کا حق استعمال کر رہا ہے اور ان کی لڑائی فلسطینیوں سے نہیں بلکہ حماس سے ہے۔
انہوں نے عالمی عدالت انصاف سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مقدمے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے جارحیت کو روکنے کی جنوبی افریقہ کی درخواست کو مسترد کرے۔
عدالت میں اسرائیل کے وکیل میلکم شا نے دلیل دی کہ یہ کوئی نسل کشی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے کیے گئے حملوں کے بعد اسرائیل نے غزہ میں وحشیانہ کارروائیوں کا آغاز کیا تھا، اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملے میں عام شہریوں سمیت 1200 افراد مارے گئے، اس کے علاوہ 240 افراد کو یرغمال بھی بنایا گیا تھا۔