سری نگر، 20 اپریل:قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این ایچ آر سی) نے جموں وکشمیر کے چیف سکریٹری کو سال 1990 میں ایک معروف کشمیری پنڈت اور ان کے بیٹے کے قتل معاملے میں ‘انسانی اپروچ’ کی بنیادوں پر جانچ کرنے کی ہدایت دی۔
این ایچ آر سی نے 18 اپریل کو جموں و کشمیر کے چیف سکریٹری کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے میں ‘مناسب’ کار روائی عمل میں لائیں۔
بتادیں کہ سر و آنند کول پریمی وادی کشمیر کے ایک نامور ادیب اور شاعر تھے۔ انہیں اپنے 27 سالہ بیٹے وریندر کول سمیت مئی سال1990 میں مشتبہ جنگجوؤں نے جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں واقع اپنے آبائی گاؤں میں ابدی نیند سلا دیا تھا۔
آنجہانی پریمی کو سال 2012 میں یوم جمہوریہ کے موقع پر سرکار کی طرف سے زائد تین دہائیوں بعد لائف ٹائم اچیو منٹ ایوارڈ سے سر فراز کیا گیا۔
ان کے فرزند راجندر پریمی نے سال 2020 میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق میں ایک شکایت دائر کی تھی جس میں حکومت کی طرف سے سابقہ جموں وکشمیر ریاستی انسانی حقوق کمیشن کی سفارشات پر عمل در آمد میں تاخیر کرکے دہشت گردی سے متاثرہ خاندان کی حالت زار کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
این ایچ آر سی نے اس معاملے کو بند کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے اس معاملے کے ریکارڈ پر غور کیا جس میں شکایت کنندہ کی مختلف گذارشات شامل ہیں۔
کمیشن نے کہا: ‘سٹیٹ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتی ہے کہ جموں وکشمیر ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے ڈویژن بنچ کے 22 فروری 2012 کے فیصلے پر عمل در آمد کرنے میں کافی تاخیر کی گئی ہے’۔
این ایچ آر سی نے مشاہدہ کیا کہ : ‘ ریاستی انتظامیہ/ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ان کے جان و مال کے تحفظ میں ناکامی کی وجہ سے شکایت کنندہ کا خاندان متاثر ہوا’۔
کمیشن نے کہا: ‘آنجہانی سر و آنند کول ایک نامور مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معروف گاندھیائی، براڈ کاسٹر، سماجی مصلح، ادیب اور ترجمہ کار تھے اور انہیں ہندی، اردو، کشمیری، فارسی، انگریزی اور سنسکرت زبانوں پر عبور حاصل تھا’۔این ایچ آر سی نے کہا: ‘ایک ممتاز اسکالر ہونے کے ناطے وہ جملہ برادریوں کے درمیان قومی سالمیت پر پختہ یقین رکھتے تھے’۔
‘سال 1942 – 1946 تک بھارت چھوڑو تحریک کے دوران انہوں نے قومی مفاد کے لئے زیر زمین رہ کر کام کیا اور اس دوران انہیں 6 بار گرفتار کیا گیا۔ آنجہانی سر و آنند پریمی کو ریاست کی تمام برادریوں میں عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا’۔
کمیشن کا مشاہدہ ہے کہ ایسے متاثرین کے قریبی رشتہ داروں کے جائز حقوق سے انکار کرنا ریاستی انتظامیہ کی جانب سے ایسے بے گناہ افراد کے تئیں احساس اور ہمدردی کی کمی کا عکاس ہے جن کی زندگی کے تحفظ کے حق کی ضمانت آئین ہند کے دفعہ 21 کے تحت دی گئی ہے’۔
کمیشن نے جموں وکشمیر کے چیف سکریٹری کو ہدایت دی کہ وہ اس پورے معاملے میں ‘انسانی اپروچ’ کی بنیادوں پر تحقیقات کرائیں اور اس معاملے میں مناسب کارروائی عمل میں لائیں۔
کمیشن نے اپنی رجسٹری کو 15 اپریل 2024 کو جمع کرائی گئی شکایت کو فوری طور منتقل کرنے کی بھی ہدایت دی جس کے ساتھ اس کیس کو بند کیا گیا۔کیس کو بند کرتے ہوئے کمیشن نے چیف سکریٹری کو کمیشن کی ہدیات کے مطابق مزید کارروائی کرنے کو کہا۔