چٹان ویب مانیٹرینگ
اقوام متحدہ کی ایک سینیئر اہلکار کے مطابق یوکرین میں مبینہ جنسی تشدد کی اطلاعات میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ انسانی حقوق کے ایک گروپ نے روسی فوجیوں پر ’ریپ کو جنگی ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کے ادارے کی سربراہ سیما باہوس نے پیر کی رات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا تھا کہ ’ہم ریپ اور جنسی تشدد میں اضافے کے بارے میں سن رہے ہیں۔‘باہوس کا کہنا تھا کہ یوکرین کے شہریوں پر ہونے والے ظلم نے تمام سرخ جھنڈیاں لہرا دی ہیں۔ انہوں نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ انصاف اور احتساب یقینی بنانے کے لیے تمام الزامات کی آزادانہ چھان بین ہونی چاہیے۔انسانی حقوق کی تنظیم لا سترادا-یوکرین کی صدر کیترینا چیری پاخا نے کہتی ہیں کہ ان کی ہنگامی حالات کے لیے قائم ہاٹ لائنز پر موصول ہونے والی کالز میں روسی فوجیوں پر ریپ کے نو واقعات کا الزام لگایا گیا ہے جن میں ایک درجن خواتین اور لڑکیاں نشانہ بنیں۔چیری پاخا نے ویڈیو کال پر سلامتی کونسل کو بتایا کہ’یہ مکمل صورت حال کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ہم جانتے اور دیکھ رہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری بات سنیں کہ یوکرین میں اس وقت روسی فوج تشدد اور ریپ کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘
اقوام متحدہ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس کے حقوق پر نظر رکھنے والے ادارے روسی فورسز پر جنسی تشدد کے الزامات کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں اجتماعی آبروی ریزی اور بچوں کے سامنے ریپ شامل ہے۔ ان دعووں کی بھی تصدیق کی جا رہی ہے کہ یوکرینی افواج اور شہری دفاع کی فورسز نے بھی جنسی تشدد کیا۔اقوام متحدہ میں روس کے نائب سفیر دمتری پولیانسکی نے پیر کو سلامتی کونسل کو بتایا کہ روس شہریوں کو نشانہ نہیں بنا رہا۔ انہوں نے یوکرین اور اس کے اتحادیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ یوکرین اور اس کے اتحادی ’روسی فوجیوں کو اذیت پسند اور ریپ کرنے والے لوگوں کے طور پر پیش کرنے کا واضح ارادہ رکھتے ہیں۔‘
یوکرین کے محتسب برائے انسانی حقوق اور پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر نے کہا ہے کہ وہ ریپ اور جنسی تشدد کے واقعات کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ایک 83 سالہ یوکرینی خاتون نے سی بی ایس نیوز کو بتایا ہے کہ کس طرح ان کے گاؤں پر فوج کے قبضے کے دوران ایک روسی فوجی نے انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ریٹائرڈ سکول ٹیچر کا کہنا تھا کہ’کاش وہ مجھے مار دیتا بجائے اس کے کہ جو اس نے کیا۔‘یہ معمر خاتون ایسے گاؤں میں رہتی ہیں جس پر گذشتہ ماہ روسی فوج نے قبضہ کر لیا تھا۔ امریکی خبر رساں ادارے نے خاتون کی حفاظت کے پیش نظر گاؤں کا نام نہ بتانے کا فیصلہ کیا۔اس مشکل گھڑی کو بیان کرتے ہوئے خاتون نے صحافیوں کو بتایا: ’اس نے مجھے گردن کے پچھلے حصے سے پکڑ لیا۔ میرا دم گھٹنے لگا۔ میں سانس نہیں لے پا رہا تھا تھی۔’میں نے ریپ کرنے والے سے کہا کہ’میں تمہاری ماں کی عمر کی ہوں۔ کیا تم اپنی ماں کے ساتھ ایسا ہونے دو گے؟ اس نے مجھے خاموش کروا دیا۔‘ویرا نامی خاتون نے بتایا کہ حملے کے وقت ان کے معذور شوہر گھر میں موجود تھے۔ روسی فوجی کا حوالہ دیتے ہوئے خاتون نے کہا کہ’اپنا کام کرنے کے بعد اس نے ووڈکا کی بوتل اٹھا لی۔ میں نے پوچھا کہ کیا میں اپنے کپڑے پہن سکتی ہوں۔ اس نے چیخ کر کہا کہ’نہیں!‘
اس شخص نے گھر سے نکلنے کے بعد مبینہ طور پر اپنی اسالٹ رائفل سے تین بار ہوا میں گولیاں چلائیں۔ویرا نے مزید کہا: ’اسے مجھے گولی مار دینی چاہیے تھی۔ کاش اس نے جو کیا اس کے بجائے وہ مجھے مار دیتا۔ ہر بات سے تکلیف ہوتی ہے۔ میری حالت ہے کہ میں نہ مردہ ہوں اور نہ ہی زندہ ہوں۔اس سے پہلے کہ موسم بہار میں مجھے خوشی محسوس ہوتی تھی اب مجھے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ میرے پاس کچھ نہیں۔‘انسانی حقوق کی تنظیم ہیومین رائٹس وا چ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی واقعات کو دستاویزی شکل دی جن میں روس فورسز نے مقبوضہ علاقوں جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی جس میں بار بار ریپ کرنا بھی شامل ہے۔
ہیومن رائٹس واچ میں یورپ اور وسطی ایشیا کے ڈائریکٹر ہیوولیمسن کے مطابق: ’ہم نے جن واقعات کو دستاویزی شکل دی وہ ناقابل بیان ہیں۔ یہ واقعات یوکرینی شہریوں پر جان بوجھ کیے جانے والے ظلم تشدد کے مترادف ہیں۔’روسی افواج کی تحویل میں یوکرینی شہریوں کے ریپ قتل اور تشدد کے دوسرے واقعات کی جنگی جرائم کے طور پر تحقیقات ہونی چاہیے۔‘