• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
پیر, مئی ۱۲, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم

فلسفہ حیات اقبال کی نظر میں

Online Editor by Online Editor
2022-09-09
in کالم, مضامین
A A
فلسفہ حیات اقبال کی نظر میں
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:صارم اقبال

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک نہ کسی چیز کی کما حقہ قدرو قیمت کا اندازہ نہ ہوتا ہے تب تک نہ اس کا صیح استمعال ہوسکتا بلکہ اس سے فائدہ بھی صیح طور پر لیا جا سکتا ہے۔حیات کائنات میں موجودات کا کوئی ایک ایسا ذرہ نہیں جس کی پیدائش ایک خاص مقصد کے لئے نہ ًکی گئی ہو۔چونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز ایک با مقصد،ایک مخصوص حکمت،ایک مخصوص مدت متعین کے تحت تخلیق کی گئی ۔جب انسان اپنے ارد گرد کائنات کی تخلیق پر غور فکر کرتا ہے تو وہ تمام مخلوق کو اپنے لئے پاتا ہے اور جب یہی سوچنے والا خود اپنے سانچے پر نظر دوڑاتا ہے تو وہ خود کو صرف خدا کے لئے پاتا ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسان کا ہر ایک سانس قیمتی ہے جس کی کوئی قیمت نہیں۔جو شب ہم گزار چکے ہیں اور جو دن گزر گیا سو گزر گیا اس شب یا دن کو ہم کسی بھی قیمت پر واپس نہیں لا سکتے چاہیے انسان کسی بھی حد تک کوشش کرے ۔ تو اس انسانی زندگی خالق کی ایک ایسی بڑی نعمت ہے جو اپنے بیدار مغز کے لئے ان گنت قدرت کے اسرار و رموز کو چھپائے بیٹھی ہے۔ اسی حیات کے پہلو کو جاننے کے لئے ہم شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی طرف پلٹتے ہیں اور مختصر آپؒ کے حیات کے بارے میں نظریہ پیش کرینگے۔شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نہ صرف بیسویں صدی کے شاعر ہیںبلکہ آپ ہمارے مستقبل کے بھی عظیم مفکر دانشور بھی ہیں۔علامہ اقبال ؒ نے انسانی زندگی کے ہر ایک شعبہ پر بات کی ہے خاصکر آپؒ نے اپنی شاعری میں اپنے وقت کے سماج و انسانی زندگی کے ظاہر و باطن کے مختلف مسائلوں کے متعلق جو بھی نظریات پیش کئے وہ آج بھی ہمارے سامنے مشعل راہ ہیں ۔زندگی کے مختلف مسائل کے حل کی پیشکش کی ۔بلکہ آپؒ نے آنے والے مختلف مسائلوں کو اپنی دور بین نگاہوں سے بھانپ کر علامہ کے افکار نظریات کبھی نغمہ جبریل تو کبھی سور اسرافیل بن کر گونجتے ہیں۔علامہ اقبال ؒ نے مقصد حیات کو اپنے سانچے کی نگاہ سے نہ صرف دیکھ لیا بلکہ آپ نے وہ امرت بھی حاصل کیا جو مقصد حیات کے لئے جاننا ضروری ہے۔علامہؒ بیان فرماتے ہیں۔
سلسلہ روز شب،نقش گر حادثات
سلسلہ شب و روز،اصل حیات و ممات
علامہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ جو سلسلہ روز شب کا ہے جو یہ دراصل زمانے کی ایک رو ہے اور یہی سلسلہ زندگی اور موت کا سر چشمہ ہے اور اسی سلسلے سے موت و حیات کے سر چشمے پھوٹتے ہیں۔
حقیقی مرگ ،قبر ،حشر، جنت ،دوزخ یہ سب احوال ہیں یعنی موت زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ یہ سب جو بھی ہوگا یہ سب اعمال کے نتائج ہیں۔ آدم اس ستارے کی مانند ہے جو نہ مشرق میں ہے اور نہ مغرب میں مطلب آدم اپنی ذات اصل کے اعتبار سے زمان و مکان سے بالا تر ہے اور اس کی وجہ محض ہی ہے کہ وہ مظہرا الوہیت ہے۔اگرچہ آدم ضعیف و ناقص ہے لیکن خالق نے آپ کے اندر ان گنت صلاحیت و دیعت فرمائی ہے کہ اگر انسان قانون اللہی کی اتباع کرے تو بتدریج وہ زمان و مکان پر غالب آگر اپنے اندر صفات الللہ کا عکس پیدا کر سکتا ہے جس سے وہ روحانی ترقی کی ایسی منزلیں طے کر سکتا جس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ قانون اللہی کے بارے میں آپ ؒ کا خیال ہے کہ خالق کو تخلیق کی بہتری کے متعلق سب کچھ علم حاصل ہے اس لئے مخلوق کی بہتری کے لئے ظابطہ بنایا ہے تا کہ بہتر کو بہتر مل جائے اور جو اس بہتری کی راہ کو چھوڈ کر بٹھک گیا دراصل وہ اپنی اصلیت کی پہچان کھو بیٹھتا ہے۔علامہ اقبالؒ فرماتے
حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز
سر شت اس کی ہے مشکل کشی،جفا طلبی
علامہ فرماتے ہیں کہ زندگی کا مزاج شعلہ کی مانند ہے اور وہ غیرتمند اور ہنگامہ برپا کرنے والا ہے اور اس کی فطرت میں مشکلات کو جھلینا اور سختیاں برداشت کرنا ہے۔یعنی مسلسل کوششوں کا نام ہے۔آرام و سکون اس کی فطرت سے کوئی ربط نہیں رکھتے۔
مسلسل کاوشوں سے بنا کرتی ہے تقدیریں
جو تھک کر بیٹھ جائے وہ منزل پا نہیں سکتے۔
علامہ فرماتے ہیں کہ زندگی ایک مسلسل جہدوجہد کا نام ہے اور اسی جدوجہد کی وجہ سے انسان اپنی زندگی کے وہ تمام کامیابی حاصل کرتا ہے جن کے لئے وہ تگ ودود کرتا ہے۔آپ بیان کرتے ہیں کہ حیات کا راز کوشش میں ہی پنہاں ہے اور کوشش کا موقوف ہو جانا گویا موت کے مترادف ہے اور اسی کوشش کو علامہ سعی پیہم سے بھی تعبیر کرتے ہیں اور زندگی کی تمام مقداروں کا دارومدار جہد مسلسل پر ہے۔
سعی پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات
تیری میزان ہے شمار سحر و شام ابھی
آشکارا ہیں میری آنکھوں پر اسرار حیات
کہہ نہیں سکتے مجھے نومید پیکار حیات
شاعر مشرقؒ اپنے اندر درویش،فقیر،مرد حق،مرد کامل مومن کی صفات رکھتے تھے۔آپ زندگی کے حیات و ممات کی حقیقی معنوں و اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ آشکار ہیں۔آپ پر حیات کے راز و نیاز کی باتیں عیاں ہو گئی تھی ۔آپ بیان کر رہیے ہیں کہ زندگی پر امید لوگوں کے لئے رواں دواں رہتی ہے اور مایوس لوگوں کے لئے زندگی کا سفر رک جاتا ہے اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو عملی جدوجہد سے مایوس ہو جائیں۔آپ امیں لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ امت ضرور مائل بہ عروج ہو گئی۔
علامہ اقبال ؒ کے کلام میں خودی ایسا گوہر نایاب ہے جس کی چمک و دمک سے انسان اپنی بلندی کی طرف محو پرواز ہوتا ہے۔ خودی کے متعلق اگرچہ مختلف نطریات آئے ہیں اور اس پر کافی کچھ لکھا جا چکا ہے تاہم ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں۔علامہ اقبال ؒ نے مختلف موقعوں پر خودی کے الگ الگ معنی بیان کئے ہیں۔مثلا علامہ کی خودی اور حیات در اصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔علامہ اقبالؒ نے خودی کی تفہیم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول کی روشنی میں کی ہے کہ جس نے خود کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا۔خودی آپ کے کلام میں بنیادی ایک کڑی ہے۔آپ کے کلام میں خودی کہیں حیات کا نام ہے تو کہیں عشق کے مترادف قرار دیتے ہیں ۔خودی ذوق تسخیر کا نام ہے جس سے مراد خود آگاہی بھی ہے۔خودی ذوق طلب ہے ،خودی ایمان کے مترادف ہے اور یقین کی گہرائی کے ساتھ ہی ساتھ سوز حیات کا سر چشمہ اور ذوق تخلیق کا ماخذ ہے۔غرض اس قسم کے گونا گوں معنی و صفات خودی سے وابستہ ہوئے ہیں۔یہ سب اثبات خودی کی صورتیں ہیں جو ہر چیز کو ترقی کی اگلی منزلوں کی طرف محرک ثابت ہو رہی ہیں۔علامہ اگر شعر میں حیات کے اسرار و رموز اور فلسفہ حیات کے متعلق سوالی ہے تو دوسری طرف اپنی فکری سوچ کے کام لے کر حیات کے سر بستہ زاروں کی نقاب کشائی کی بھی سعی کرتے ہیں۔
حیات کیا ہے؟ خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناں گوں
علامہؒ کے نزدیک حیات کو بے ثبات خیال کرنا نادانی ہے۔
سمجھتے ہیں اسے ناداں اسے بے ثبات
ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات
علامہ خودی کو پانے کے لئے یہ ضروری قرار دیتا ہے کہ حیات کے سمندر میں غوطہ زن ہونا لازمی ہے اور اسی غوطہ زن سے اسرار نہاں خانوں سے نکل کر عیاں ہونے لگتے ہیں۔اتنی بڑی دنیا میں جو بھی لوگ رہتے ہیں ،اتنے سارے ہجوم میں وہی لوگ حیات دائمی پانے میں کامیاب ہو گئے جو حیات کے اسرار و رموز پا لینے والے بن گئے۔
علامہ کوشش نا تمام میں بیان کرتے ہیں۔
راز حیات پوچھ لے خضر خجستہ گام سے
زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش نا نمام سے
علامہ نے اس شعر میں خضر کی زبانی راز حیات اقشا کرنے کی سعی کی ہے۔آپ نے اپنیے کلام میں خضر کا جو ذکر جہاں بھی کیا ہے کمال کیا ہے اور ایک وسیع معنے خیز کیا ہے اور اس شعر میں علامہ نے کوشش کے موقوف ہوجانا موت کے مترادف قرار دیا ہے۔علامہ کے مبارک آنکھوں پر حیات کے اسرار آشکار ہو چکے ہیں اور ان کے نزدیک اللہ کے دوستوں کے لئے موت در اصل دائمی حقیقت کا پیغام ہے اور بیان کرتے ہیں کہ راہ سلوک کے انسان موت کے پردے میں پوشیدہ حیات کو دیکھ لیتے ہیں۔
آشکار ہے میری آنکھوں پہ اسرار حیات
کہہ نہیں سکتے مجھے نومید پیکار
علامہ نے اپنی والدہ کے موت پر جو مشہور نظم لکھی اس میں آپؒ بیان فرماتے ہیں کہ زندگی قدرت کی نگاہوں میں اس قدر پیاری ہے کہ ہر چیز کی فطرت میں زندگی کی حفاظت کا جذبہ پایا جاتا ہے اگر موت کے زندگی کا نقش مٹایا جاتا تو کائنات کے نظام میں اسے یوں عام نہ کیا جاتا۔حیات دراصل فرائض کے تسلسل کا نام ہے جس کی جلوہ گاہ ایک جہاں نہیں بلکہ لاکھوں جہاں اس میں پنہاں ہیں اور زندگی لاکھوں نا پائیدار جہانوں میں رواں دواں ہے۔ علامہ ایک اور جگہ سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ
یہ نقطہ میں نے سیکھا بو ا لحسن سے
کہ جان مرتی نہیں مرگ بدن سے
علامہ نے حیات کے بارے میں تین مشہور فلسفیوں کی زبانی تین مختلف نظریات پیش کئے جن میں ایک فلسفی ،سپنوزا ہے ۔یہ فلسفی عقلمند کی یہ نشانی بتاتا ہے کہ وہ ہمیشہ حیات پر نظر رکھتا ہے اور اس کے متعلق سوچتا رہتا ہے۔وہ حیات کو خدا کی حضوری حاصل کرنا مقصود ٹھراتا ہے پھر اس حضوری سے مستی و کیف کا حصول بنانا اور حقیقت تک رہنمائی کی روشنی مقصود ہوتا ہے اور پھر اپنے وجود کی حقیقت کو پانا کہ یہ موجود ہے۔دوسرا فلسفی افلاطون ہے جو کہ اول ذکر فلسفی کے بر خلاف نطریہ پیش کرتا ہے کہ عقلمند کی نشانی ہے کہ وہ موت پر نظر رکھتا ہے کیونکہ موت ایک تاریک رات میں چند ساعتوں چمکنے والی چنگاری کی مانند ہے جس طرح چنگاری جند لمحوں یا ساعتوں جلنے کے بعد بجھ جاتی ہے اور اسی طرح زندگی بھی عارضی اور نا پائیدار ہے جبکہ موت ہمیشہ کی زندگی ہے۔علامہ کا نظریہ خود اس بارے نظریہ ہے کہ حیات اور موت دونوں ہی لائق توجہ نہیں صرف خودی ہی لائق التفات ہے کیونکہ اس سے زندگی عبارت ہے۔خود دراصل خود معرفتی ہے اگر انسان کا مقصود خودی ہو تو حیات اور موت دونوں اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

سرینگر عید گاہ کی مذہبی حیثیت

Next Post

راجوری میں دو برادریوں کے درمیان کشیدگی کے پیش نظر پابندیاں عائد

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
Next Post
راجوری میں دو برادریوں کے درمیان کشیدگی کے پیش نظر پابندیاں عائد

راجوری میں دو برادریوں کے درمیان کشیدگی کے پیش نظر پابندیاں عائد

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan