تحریر:این اے مومن
اقبال ڈے ،اصل میں نام نہاد اقبال شناسوں کا دن ہوتاھے جو ہمارے مولویوں کی طرح ہر کوئی صحیح اور غلط بات اقبال سے منسوب کرتے ہوئے اپنا روزگار کماتےھیں۔ ہمارے اقبال ڈیپارٹمنٹ (اقبالیات )کے اساتذہ آج مضامین نویسی اور ‘مقالات’ نویسی کا خصوصی اہتمام کرتے ہوئے اخبارات و رسائل میں کسی چرائے گئے مواد کی اپنے نام کیساتھ خوب تشہیر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس طرح اقبال حکیم الامت، شاعر مشرق اور مسلمانوں کے ملی ترجمان پر تقریروں اور تحریروں کا ڈھیر لگتاھے۔
اقبال کو نئے انداز اور تنقیدی زاویہ سے چند ہی لوگوں نے جائزہ لینے کا جرت کیاہوا ھے ۔ اقبال بڑے شاعر اور گریٹ فلسفی پھر بھی رہتے ھیں جب ہم ان کی ناکام رومانوی زندگی اور عشق بھرے ایامِ جوانی دیکھتے ھیں ۔ عطیہ فیضی وغیرہ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتاھے کہ اقبال کے اندر ھمارے جیسے جذبات پنپ رہے تھے اور وہ بھی انسانوں جیسی کوتاہیاں رکھتے تھے۔ اقبال کے اندر ارتقاء ہی نہیں بلکہ اس کی زندگی میں کھلا تضاد بھی پایا جاتاتھا اور یہ تضاد بحیثیت انسان اور تھنکر اس کے قد کو کاٹتا نہیں بلکہ فرشتوں سے الگ انسان والی صورت میں متعارف کراتا ھے ۔ اقبال جس مغرب کی مٹی پلید کرتے ہیں اسی مغرب کے افکار اور علم و ادب نے اقبال کو ڈاکٹر اقبال اور شاعر مشرق بنادیا۔ اقبال نے بہت سے انگریزی شاعروں کے کلام کا اردو ورژن پیش کیاھے۔ اس کی شاعری میں فارسی شعراء اور مغربی ادباء کے خیالات کا مرکب ھی نہیں بلکہ کبھی کبھار کلام کی نقل بھی پائی جاتی ھے۔ اقبال نے اگر شاعری کو چھوڑ کر صرف نثر لکھا ھوتا تو آج اس کا ڈے کوئی مسلمان نہیں مناتا۔ سارے مسلمان اس پر لعن و طعن کرتے اور سرسید احمد خان سے بھی بدتر اس کی حالت ہوجاتی۔ ایسا کیوں ؟ جواب اس کے نثری سٹائل اور افکار میں پہچانا جاسکتاھے۔
مجھے اقبال کی بڑھائی اور بزرگی صرف اس کے عشق رسول صلعم اور والہانہ عقیدت میں نظر آتی ھے اسی گلاب کو چھونے سے اس کی خوشبو چہارسو پھیل گئی ورنہ اقبال بحیثیت مفکر یا حکیم کوئی خاص اور نئی بات نہیں کہہ چکے تھے ۔ مغرب اور مشرق کے فلاسفر اور مفکر ، شاعر اور عالم وہ سب کچھ پہلے ہی کہہ چکے تھے جو اقبال اپنے زمانے میں ہندوستانیوں کے گوش گزار کررہے تھے۔ مسلمانوں کو سیاسی ٹکراؤ اور عسکریت کی انتہا پسندانہ فکر کی طرف جہاں ہمارے کلاسیکل علماء کی غلط تشریحات نے دھکیل دیا وہاں اقبال کی شاعری کے منفی اور سیاسی اثرات نے بھی اس امت کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ھے۔ اقبال کی بڑی خواہش اور چاہت تھی کہ ایک اکیڈمی اور سائینسی ادارہ قائم کیاجائے اور تحقیق و اصلاح کا بڑا پروجیکٹ چالو کیاجائے مگر یہ سب شاعری اور شہرت کے تلے دب کر صرف ایک خواب ھی رہا۔
