
سرکارکےمطابق بیک ٹو ولیج یعنی’’آؤچلیں گاؤں کی اور‘‘ اسکیم کا بنیادی مقصدیہ تھاکہ اعلیٰ سطحی آفیسرا ن تمام اضلاع کے دور اُفتادہ گائوں جات کادور ہ کریں گے ،ازخود عوامی مسائل کو بغورسنیں گے اوراِس دوران وہ جتنے بھی عوامی مسائل سے آگاہ ہونگے پھرایک ایک کرکےاِن مسائل کاازالہ کریں گے ۔ابتدائی دورمیں مذکورہ اسکیم کی اِ س پہل پر لوگوں میں کافی جوش و خروش نظر آرہا تھا ،عوام کی بہت ساری اُمیدیں جاگ اٹھیں تھیں کہ ہونہ ہو اب عوامی مسائل کاکسی حد تک ازالہ ہو پائےگا ،چونکہ اکثر لوگوں کا یہ گمان رہتا ہے کہ اُن کی آواز اعلیٰ آفیسران تک پہنچتی ہی نہیں ہے ،تحصیل یا سب ڈویژن سطح کےآفیسران جان بوجھ کر عوامی مسائل کواعلیٰ حکام تک پہنچانےمیں لیت ولعل سےکام لےرہےہیں۔یہی وجہ ہےکہ عوام کی’’بیک ٹو ولیج ‘‘پروگرام سے بے شمار اُمیدیں وابستہ ہوچکی تھیں۔
عوام نےسرکارکی جانب سے شروع کئےگئےاِس پروگرا م کوابتدائی دورمیں کافی سراہااِس آس و اُمید کے ساتھ کہ اب اعلیٰ حکام سطح ازخودعوامی مسائل کوبغور سنیں گے،آنکھوں دیکھا حال جانیں گے اورپھرجن خامیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے عوامی مسائل جنم لیتے ہیں اُن خامیوں اور کوتاہیوں کامحاسبہ کرکےعوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے،لیکن آج جب اِس سرکاری پروگرام کا بخوبی جائزہ لیا جاتا ہے تو سرکار کی ’’آؤ چلیں گاؤں کی اور‘‘ اسکیم صرف گاؤں کی سیر کرنے تک ہی محدود ہو کر رہی گئی ہے ،گائوں جات میں رہ رہے لوگوں کو درپیش مسائل و مصائب کا ازالہ کیسے اور کب کرنا ہے یہ سب مذکورہ پروگرام کا حصہ نہیں رہا،دیہی آبادی کے مسائل کا سِد باب کیا ہوگا یہ ابھی بھی ایک چیلنج بنا ہوا ہے ۔عوا م سراپااحتجاج ہوتے ہوئے یہ اظہار کر رہےہیں کہ سرکار کی جانب سےشروع کیاگیا پروگرام’’آؤچلیں گاؤں کی اور‘‘ایک فضو ل مشق ہے،آفیسران کیلئےتفریح کاایک اہم موقعہ ہے،عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنےکےمترادف ہے،دیہاتوں میں آفیسران کاظہرانہ یعنی ’’لنچ‘‘پروگرام ہے،عوامی مسائل کا کوئی سدِباب نہیں بلکہ عوام کےساتھ بھدا مذاق ہے۔بیشترلوگوں کی شکایا ت ہیں کہ آفیسران بیک ٹو ولیج میں عوام کےساتھ اِس طرح کےوعدےکرتےہیں جیسےسیاستدان ووٹ بٹورنےکی خاطر رائےدہندگان کو طرح طرح کےحیلوں اوربہانوں سےلبھاتےہیں۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ مبینہ طور کسی سیاسی ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے ۔
قابل ِ ذکر ہے کہ پروگرام کی شروعات بھی کسی سیاسی جلسے کے طرزپرکی جاتی ہے۔آفیسر موصوف جب اسٹیج پر اپنےمبارک قدم رکھتےہیں تو اسکولی بچے اور عام لوگوں کو اُسکےسواگت کیلئےکھڑاکر دیاجاتا ہے،تالیوں کی گونج کیساتھ آفیسرموصوف اسٹیج پر آدھمکتےہیں، پھر آدھ ایک گھنٹہ پھول مالائیں پہنانےمیں گزر جاتاہے، پھر کوئی سرپنچ یاکھڑپنچ آفیسرموصو ف کی قصیدہ گوئی کیساتھ پروگرا م کا آغاز کرتا ہے ۔اِس کے بعد ایک دو گھنٹے اسکولی بچوں کےذریعہ’’ناچ گانے‘‘کا سیشن کروایاجاتاہے،پھر ایک ڈیڑھ گھنٹہ مقامی گیت کاروں کی سُرتال کا سرور حاصل کیاجاتاہے ،اِسکےبعد گزشتہ ’’بیک ٹو ولیج پروگرام ‘‘میں سنائےگئےمسائل سمیت کچھ نئےمسائل کویاد کیا جاتا ہے،گولڈن کارڈکی تقسیم کاری یا تعریفی اسناد کی تقسیم کاری کیساتھ پروگرام کااختتام کیاجاتاہےاور آفیسرموصوف پرانےو نئے تازے عوامی مسائل کا تھیلااُٹھاکرچل پڑتےہیں اور پھرسےآنےکاوعدہ کرتے ہیں۔
عوامی حلقوں میں ’’بیک ٹو ولیج ‘‘ پروگرام سے متعلق زبردست ناراضگی پائی جا رہی ہے ،لوگوں کے یہ زبان زد عام ہے کہ بیک ٹو ولیج کا سرکار پروگرام’’نشستاً، گفتاً ، برخاستاً‘‘ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ بیشتر گاؤں جات سے لوگوں نے بیک ٹو ولیج کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ اگر سرکارکی منشاء یہی ہے کہ ’’آؤ چلیں گاؤں کی اور‘‘ پروگرام کی آڑ میں اعلیٰ آفیسران کوایکسکرشن کرنا ہے یا علاقے میں میوزیکل پروگرام کرانے ہیں تو پھر یہ پروگرام گائوں کے ایک سرپنچ کی صدارت میں بھی کرائے جا سکتے ہیں ، سرکاری امداد کی بنیاد پر ایک سرپنچ بڑی آسانی سے اِس طرح کے پروگرام کو بحوبی انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن اگر KASیا IASآفیسر کو گائوں میں محض اِس لئے بھیجناہے کہ وہ جا کر گائوں کے لوگوں میں گولڈن کارڈز تقسیم کرے یا پھر گیت کاروں کی دھن میں مسرور ہونے کا شرف حاصل کرے تو ہمارے خیال میں یہ عوام کیساتھ بھی مذاق ہے خود اُس آفیسر کی عزت اور وقار کیلئے بھی بھدا مذاق ہےاور پھر اعلیٰ آفیسران کوگائوں بھیجنے کیلئے اُن کا خرچہ اُٹھاناسرکاری خزانہ عامرہ کی مزید لوٹ کھسوٹ ہے ۔ غور طلب ہے کہ جس آفیسر کے تئیں لوگوں نے اپنی اُمیدیں باندھ رکھی ہوتی ہیں کہ کوئی اعلیٰ آفیسر ہمارے مسائل سننے کیلئے گائوں تشریف لائیں گے اور پھر ہمارے مسائل کا ازالہ بھی کریں گے لیکن جب وہی آفیسر کسی سیاسی بابو کی مانند گائوں میں آئے گا اور لوگوں کے مسائل سننے کے بجائے اپنی تفریح کو اہمیت دے گا تو پھر گاؤں کے اُن مکینوں کے وشواس گھات نہیں ہونگے تو اور کیا ہوگا؟؟لوگوں کا ماننا ہے محض میوزیکل پروگرامز یا گولڈن کارڈز کی تقسیم کاری کیلئے سرکار جتنے پیسے آفسر بابوؤں کی سیر و تفریح میں صرف کرتی ہے اِس سے بہتر ہے کہ سرکار اُن گائوں جات میںاُن آفیسران کی تعیناتی کو یقینی بنائے جہاں مہینوں یا برسوں سے اعلیٰ آفیسران کی کرسیاں خالی پڑی ہوئی ہیں اور لوگوں کے بیشمار کام رُکے پڑے ہوئے ہیں۔ اگر سرکار گائوں کے بیشتر محکمہ جات میں خالی پڑی اعلیٰ آفیسران کی اسامیوں کو پر کرے اور پھر اُن ہی آفیسران ’’بیک ٹو ولیج ‘‘ پروگرام کا کام سونپ دیں تو شائد اطمنان بخش نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔کیونکہ عوام کو جن آفیسران کیساتھ روز کا واسطہ ہے وہ آفیسران لازمی طور عوام کیساتھ کسی قسم کا ٹال مٹول نہیں کر سکتے اور عوام کو بھی مسائل کے ازالہ کے اُمید لیکر ’’بیک ٹو ولیج ‘‘کے اگلے مرحلے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
قابلِ غور ہے کہ اکثر گاؤں جات میں اعلیٰ آفیسران کے عہدوں کی کرسیاں خالی پڑی ہوئی ہیں اور آئے روز لوگوں یہ احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیںکہ خالی پڑی اسامیوں کو پورا کیا جائے لیکن احتجاج کے اِس نہ تھمنے والے سلسلے پر سرکار کی کوئی واضح پالیسی یا اِس جانب کو ئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں ’’بیک ٹو ولیج‘‘‘پروگرام عوام کے درد کی دوا نہیں بلکہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کا کام ہے۔یہاں اگر ضلع رام بن کی مثال لی جائے تو شائد ہی کوئی ہفتہ ہو جب ضلع رام بن کے سب ڈویژن گول کی عوام سراپا احتجاج نہیں ہوتی ہے ، عوام بار ہا یہ مطالبہ کرتی خبروں کا حصہ بن رہی ہے کہ سب ڈویژن میں سب ڈویژنل مجسٹریٹ SDMکی کرسی خالی،زونل ایجوکیشن کی کرسی خالی، کئی اسکولوں میں ہیڈماسڑ کی کرسیاں خالی پڑی ہوئی ہیں یہاں تک کہ جس علاقے میںخود منصف کی کرسی انصاف کی بھیک مانگ رہی ہواُس علاقے کی عوام کیساتھ انصاف کب ہوگا؟ وہیں دوسری جانب حیران کن خوشخبری یہ بھی ہے کہ ضلع رام بن کی انتظامیہ کو عوام کے درپیش مسائل کا ازالہ کرنے کے عوض ’سلورمیڈل ‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔اگر سرکار ایسی صورتحال پر بھی سلور، ،تانبے،کانسے اور سونے کے میڈل بطورِ اعزاز بانٹتی رہی تو پھر عوام کا کیا حشر ہو رہا ہے اور آنے والے وقت میں عوام کو کس طرح مزید مسائل و مصائب سے دوچار ہونا پڑے گا یہ سب کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے۔